Deobandi Books

فکر و فلسفہ

ن مضامی

19 - 21
حضرت شاہ ولی اللہؒ کا فکر و فلسفہ اور دور حاضر
بعض دوستوں کے تقاضے پر امام شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کی تصنیف ’’حجة اللہ البالغہ‘‘ کے مقدمہ کو اردو زبان میں قدرے تسہیل کے ساتھ پیش کرنے کی سعادت کی ہے جبکہ ’’باب الاتفاقات‘‘ کو بھی اسی انداز میں پیش کرنے کا ارادہ ہے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ اس کی تمہیدی گذارشات قارئین کی نذر کی جارہی ہیں۔
حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ بارھویں صدی کے ان عظیم علماء امت میں سے تھے جنہوں نے دین کے مختلف شعبوں میں اجتہاد و تجدید کا کام سنبھالا اور اللہ تعالیٰ کی توفیق و عنایت سے وہ اس کٹھن گھاٹی سے اس طرح کامیابی سے گزرے کہ ان کے علوم و فیوض اور سعی و کاوش سے اب تک مسلسل استفادہ کیا جارہا ہے۔بلکہ دینی علوم کے فروغ اور ترویج میں ان کے ذوق و اسلوب کی ضرورت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید اجاگر ہوتی جارہی ہے۔وہ ایک بڑے محدث، مفسر ، مجاہد ،متکلم اور صوفی تھے۔انہوں نے ان تمام دائروں میں تجدید و اجتہاد کے نقوش قائم کیے ہیں جن سے رہتی دنیا تک ارباب علم و دانش راہنمائی حاصل کرتے رہیں گے۔ آج کے دور میں شاہ ولی اللہ کے علوم و فیوض ، فلسفہ و فکر اور ذوق اسلوب کی ضرورت و اہمیت کا جس سطح پر احساس و اظہار کیا جارہا ہے، اس کا اندازہ ان دو شہادتوں سے کیا جاسکتا ہے جن کا راقم الحروف خود راوی ہے۔
شکاگو یونیورسٹی امریکہ میں ایک نو مسلم خاتون ڈاکٹر ایم۔کے ہرمینسن شعبہ علوم اسلامیہ میں خدمات سر انجام دے رہی ہیں۔فلسفہ میں سان ڈیاگو یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انہوں نے قرآن کریم سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اور دینی علوم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا۔ انہوں نے شاہ ولی اللہؒ کو اپنے مطالعہ و تحقیق کا خصوصی عنوان بنایا اور اسی حوالہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ شاہ ولی اللہ کی معرکة الاراء کتاب ’’ حجة اللہ البالغہ‘‘ کا انہوں نے انگلش میں ترجمہ کیا اور اب شکاگو یونیورسٹی میں اسلامی علوم کی اپنے ذوق کے مطابق خدمت میں مصروف ہیں۔ ان کے شوہر پروفیسر محمد علوی پاکستانی ہیں، وہ ان کے ساتھ 1989ء میں پاکستان تشریف لائیں تو گوجرانوالہ بھی آئیں۔ جس کی وجہ انہوں نے خود یہ بیان کی کہ حضرت شاہ ولی اللہ کے علوم و فلسفہ پر اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ مرتب کرتے ہوئے انہیں جامعہ نصرة العلوم کے بانی حضرت صوفی عبد الحمید سواتی ؒ کی تصنیفات سے استفادہ کا موقع ملا ہے۔ حضرت صوفی صاحبؒ راقم الحروف کے چچا محترم اور شاہ ولی اللہ ؒ کے فلسفہ و حکمت کے متخصصین میں سے تھے۔ انہوں نے جامعہ نصرة العلوم کے دورہ حدیث کے نصاب میں ’’حجة اللہ البالغہ‘‘ کو باضابطہ طور پر شامل کیا جو وہ خود پڑھاتے تھے۔ اور ان کی وفات کے بعد سے اس کے کچھ ابواب دورہ حدیث کے طلباء کو پڑھانے کی سعادت مجھے حاصل ہو رہی ہے، فالحمد للہ علیٰ ذلک۔
ڈاکٹر صاحبہ محترمہ نے کہا کہ وہ صوفی صاحب سے ملاقات اور ان سے کچھ مسائل پر گفتگو کے ارادہ سے آئی ہیں جو ان کے شوہر پروفیسر محمد علوی ، پروفیسر عبداللہ جمال مرحوم ، اور راقم الحروف کے ہمراہ جامعہ نصرة العلوم میں ہوئی۔ ڈاکٹر ایم۔ کے ہرمیسن نے دوسری وجہ یہ بیان کی کہ انہوں نے سنا ہے کہ گوجرانوالہ میں ایک ادارہ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی کے نام سے قائم ہوا ہے، وہ اسے دیکھنے آئی ہیں۔ شاہ ولی اللہ یونیورسٹی قائم کرنے والوں میں راقم الحروف بھی شامل تھا۔ لیکن اس وقت وہ اس مرحلہ میں تھا کہ زمین خریدی جا چکی تھی، تعمیراتی کام ابتدائی مراحل میں تھا اور تعلیمی پروگرام کی منصوبہ بندی ہورہی تھی۔اب یہ ادارہ جامعة الرشیدکراچی کے زیر انتظام ’’جامعہ شاہ ولی اللہ‘‘ کے نام سے کام کررہا ہے جس میں دینی و عصری دونوں علوم کی تعلیم دی جاتی ہے اور راقم الحروف بھی اس کے مشاورتی نظام کا حصہ ہے۔
اس موقع پر میں نے ’’ماہنامہ الشریعہ‘‘ گوجرانوالہ کے لئے محترمہ کا انٹرویو لیا جس میں انہوں نے اپنے قبول اسلام اور تعلیمی و تدریسی سرگرمیوں کی تفصیلات بیان کیں۔اور اپنے اس تاثر کا اظہار کیا کہ مغربی دنیا میں اسلام کا پیغام و دعوت کے لیے شاہ ولی اللہ کا اسلوب اور ان کی زبان سب سے زیادہ مؤثر ہے۔اگر آپ ان کے لہجے میں حکمت اور لاجک کے ساتھ مغرب کو اسلام سمجھائیں گے تواس کی سمجھ میں جلدی آئے گا اور یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔
دوسری شہادت برطانیہ کے ایک نومسلم دانش ور ڈاکٹر یحیٰ برٹ کی پیش کرنا چاہوں گا جو بی بی سی کے سابق ڈائریکٹر جنرل جان برٹ کے فرزند ہیں۔ قبول اسلام کے بعد انہوں نے بھی اسلامی علوم کے مطالعہ و تحقیق کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا اور آکسفورڈ یونیورسٹی سے اسی حوالہ سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز ہوئے۔ان کے اعزاز میں ایک موقع پر لندن میں ورلڈ اسلامک فورم کی طرف سے ایک استقبالیہ دیا گیا جس کی صدارت راقم الحروف نے کی۔ اس نشست میں اپنے خطاب کے دوران انہوں نے بھی یہ بات زور دے کر کہی کہ مغرب کو اسلام کے حوالہ سے دعوت دیتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کا اسلوب اختیار کرنا ہوگا اور مغرب انہی کی زبان میں اسلام کو صحیح طریقے سے سمجھ پائے گا۔ یحیٰ برٹ کا کہنا تھا کہ حکمت و دانش اور لاجک کے ساتھ روحانیات و جدانیات کا متوازن امتزاج حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا امتیاز ہے اور آج مغرب کو اسی کی ضرورت ہے، جس کی طرف علماء اسلام کو بالخصوص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
حضرت شاہ ولی اللہ ؒ کے علم و فضل اور سعی و کاوش کے بہت سے دائرے ہیں جو اس وقت ہمارے موضوع میں شامل نہیں ہیں لیکن علمی دنیا میں ان کی سعی مشکور کو سب سے زیادہ اہمیت اس حوالہ سے دی جاتی ہے کہ انہوں نے اسلامی عقائد، احکام، قوانین اور روایات کی حکیمانہ تشریح کی۔اور انسانی معاشرہ اور سماج کو موضوع بنا کر سماج کے نفع و نقصان اور سوسائٹی کے خیر و شر کی بنیادوں اور تقاضوں کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں واضح کیا۔ کہا جاتا ہے کہ سماجیات (سوشیالوجی) کو باقاعدہ موضوع بنا کر ابن خلدون نے اپنے دور میں بات کی تھی، ان کے بعد اس سلسلے میں امام غزالیؒ، شیخ الاسلام عزالدین بن عبدالسلامؒ، امام خطابی ؒ اور دیگر حضرات کا نام لیا جاتا ہے۔ مگر اسے باقاعدہ ایک فن کی حیثیت سے حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے مدون کیا اور ان کی تصنیف ’’حجة اللہ البالغہ‘‘ اسی حوالے سے ایک شاہکار کتاب تصور کی جاتی ہے۔
انہوں نے حجة اللہ البالغہ میں ’’علم اسرار دین‘‘ (دینی عقائد و احکام کی حکمتوں اور فلاسفی کا علم) کو اپنی ان کاوشوں کا نام دیا ہے اور کتاب کے مقدمہ میں اس کے تعارف کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت و ضرورت اور افادیت کی وضاحت فرمائی ہے۔ اس لیے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں مزید کوئی بات کہنے کے بجائے اس مقدمہ کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کر دیا جائے، جو ہوگا تو خلاصہ ہی مگر ہماری زبان میں ہوگا اور اس میں کہیں کہیں ہم ضرورت کے مطابق اپنی توضیحی گذارشات بھی الگ عنوان کے ساتھ ذکر کریں گے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۵ فروری ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 کیا مولانا عبید اللہ سندھیؒ اشتراکیت سے متاثر ہوگئے تھے؟ 1 1
4 بینک اکاؤنٹس سے زکوٰۃ کی کٹوتی اور مولانا مفتی محمودؒ کا موقف 2 1
5 حکومت کو زکوٰۃ کی ادائیگی اور علامہ ابوبکر بن مسعودؒ الکاسانی 3 1
6 خلیفہ سلیمان بن عبد الملکؒ اور حضرت ابو حازمؒ کے درمیان مکالمہ 4 1
7 سعودی دانشور ڈاکٹر محمد المسعری کے خیالات 5 1
8 مسئلہ کشمیر ۔ سردار محمد عبد القیوم خان کے خیالات 6 1
9 کارگل کا مشن 6 8
10 خودمختار کشمیر کی تجویز 6 8
11 مسئلہ کشمیر اور سازشیں 6 8
12 جہاد کشمیر اور مجاہدین 6 8
13 حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ کی جدوجہد کے اہداف 7 1
14 ڈاکٹر مراد ولفرڈ ہوف مین کے خیالات 8 1
15 اسلام کا تعارف بطور ایک جنگجو مذہب 8 14
16 ہر چیز کا معیار انسانی عقل 8 14
17 مغرب عیسائیت کا نہیں عیش پرستی کا دفاع کرتا ہے 8 14
18 اسلام، مغرب کی کمزوریوں کا تریاق 8 14
19 حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کے خواب کی تعبیر! 9 1
20 اقبالؒ کا تصور اجتہاد 10 1
21 اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ۔ مولانا سید سلمان ندوی کے خیالات 11 1
22 عصرِ حاضر میں امام ابو حنیفہؓ کے طرزِ فکر کی اہمیت 12 1
23 حضرت عمر اِبن عبد العزیزؒ کا طرزِ حکومت 12 22
24 فقہ حنفی، ایک ہمہ گیر فقہ 12 22
25 امام ابو حنیفہؒ اور دینی تعلیم و تربیت 12 22
26 امام صاحبؒ کا اصولِ استدلال 12 22
27 حضرت امام ابوحنیفہؒ اور ان کی فقہ کا اعزاز 12 22
28 حضرت امام اعظم ابو حنیفہؒ کا فقہی و سیاسی ذوق 13 1
29 اجتماعی و شورائی فقہ 13 28
30 امام صاحبؒ کا سیاسی ذوق 13 28
31 حکمرانوں کے خلافِ شرع کاموں کی نشاندہی 13 28
32 امت کو مشکل مراحل سے نکالنا 13 28
33 امام صاحبؒ کا سیاسی کردار 13 28
34 اسلامی قانون سازی میں امام ابو حنیفہؒ کا اسلوب 14 1
35 امام ابو حنیفہؒ کا قاضی القضاۃ کا منصب قبول نہ کرنا 14 34
36 اسلامی قانون سازی 14 34
37 حکومتی مناصب کے لیے افراد سازی 14 34
38 امام ابو یوسفؒ کا قاضی القضاۃ کا منصب قبول کر لینا 14 34
39 آج کا دور اور امام صاحبؒ کی حکمت عملی 14 34
40 ہمارے معاشی مسائل اور مولانا مفتی محمودؒ کے افکار و خیالات 15 1
41 حضرت شیخ احمدفاروقی المعروف مجدد الفؒ ثانی اور ان کی جدوجہد 16 1
42 خطاب ’’مجددِ الفِ ثانی‘‘ 16 41
43 ’’مجدد‘‘ کی اصطلاح 16 41
44 اصل نام 16 41
45 تصوف کی اصلاح 16 41
46 اہل سنت عقائد کا دفاع 16 41
47 اکبر بادشاہ کے ’’دین الٰہی‘‘ کے خلاف جدوجہد 16 41
48 ’’دین الٰہی‘‘ پر ایک نظر 16 41
49 حضرت مجدد صاحبؒ کی جدوجہد کا طریقہ کار 16 41
50 جہانگیر بادشاہ کی ’’دین الٰہی‘‘ سے دستبرداری 16 41
51 اورنگ زیب عالمگیرؒ 16 41
52 حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اور علامہ محمد اقبالؒ 17 1
53 اقبالؒ کا پاکستان 18 1
54 حضرت شاہ ولی اللہؒ کا فکر و فلسفہ اور دور حاضر 19 1
55 مولانا مفتی محمودؒ کا طرز استدلال 20 1
56 مولانا عبید اللہ سندھیؒ اور ان کا فلسفہ و فکر 21 1
Flag Counter