Deobandi Books

پاکستان ۔ جمہوریت

ن مضامی

16 - 33
حالیہ اقدامات اور علماء کی فکرمندی
گزشتہ روز اسلام آباد کی قدیم ترین مسجد میں (جو ’’اولیٰ مسجد‘‘ کے نام سے معروف ہے) ایک سیرت کانفرنس میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ محمدی مسجد شہزاد ٹاؤن میں چند سرکردہ علماء کرام کے ساتھ مشاورتی نشست میں شریک ہوا اور ملک میں دینی جدوجہد کی موجودہ صورت حال کے بارے میں بہت سے فکرمند دوستوں کے ساتھ گفتگو کا موقع ملا ۔ دیکھا کہ اس بات پر فکرمندی اور تشویش مسلسل بڑھتی جا رہی ہے کہ ملک میں دینی اقدار و روایات کو کمزور کرنے، نافذ شدہ چند اسلامی قوانین و ضوابط کو غیر مؤثر بنانے، اور لادینی فلسفہ وثقافت کو ترویج دینے کی کوششوں میں جو تیزی اور وسعت دیکھنے میں آرہی ہے، دینی حلقوں میں بے توجہی، بے حسی اور ہر قسم کے حالات کے ساتھ سمجھوتہ کر لینے کا رجحان اس سے کہیں زیادہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بالخصوص قومی سیاست میں دینی حلقوں کی نمائندگی کرنے والی قیادت کی قناعت پسندی ایک طرح کا روگ سا بن کر رہ گئی ہے۔ جو معاملات اس دوران گفتگو کا موضوع بنے ان میں سے چند یہ ہیں:
سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لیے وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے عزم اور پروگرام کو کم و بیش ہر جگہ سراہا جا رہا ہے۔ البتہ سنجیدہ حلقوں کا یہ احساس بھی قابل توجہ ہے کہ کشیدگی جس حد تک آگے جا چکی ہے اسے بریک لگانے کے ساتھ ساتھ اس امر کا اہتمام ضروری ہے کہ حالات کو اس رخ پر لے جانے اور موجودہ صورت حال تک پہنچانے والے اسباب و عوامل کا جائزہ لیا جائے۔ کیونکہ گزشتہ تین عشروں کے دوران مشرق وسطیٰ میں سنی شیعہ اختلافات کا دائرہ وسیع کرنے اور ان کو مسلح گروہی تصادم کا رنگ دینے کے لیے مختلف اطراف سے جو کام ہوا ہے اس کی نشاندہی اور اسے روکنے بلکہ ’’ریورس گیئر‘‘ لگانے کی تدابیر اختیار کیے بغیر مشرق وسطیٰ کو اس فرقہ وارانہ تصادم کی دلدل سے نہیں نکالا جا سکتا۔ خدا کرے کہ میاں محمد نواز شریف اور ان کے رفقاء اس کار خیر کو بحسن و خوبی آگے بڑھا سکیں، آمین یا رب العالمین۔
بعض علماء کرام نے صوبہ سندھ کے حوالہ سے سامنے آنے والی اس خبر پر تشویش کا اظہار کیا کہ حکومت کی طرف سے خطباء کو جمعۃ المبارک میں بیان کرنے کے لیے سرکاری طور پر مرتب کردہ خطبات مہیا کرنے اور انہیں اس کا پابند بنانے کا پروگرام طے پا گیا ہے اور اس کا دائرہ ملک بھر میں پھیلانے کی تجویز بھی مقتدر حلقوں میں چل رہی ہے۔
کچھ علماء کرام نے اس بات کا ذکر کیا کہ شادی کے لیے لڑکی کی عمر طے کرنے اور اس سے کم عمر میں شادی کو ممنوع قرار دینے کے لیے قانون کا ایک مجوزہ مسودہ قانون ساز حلقوں میں زیر بحث ہے اور اس کے لیے بہت سی این جی اوز اور بین الاقوامی حلقے متحرک ہیں۔
اس دوران سودی نظام کے خاتمہ کی جدوجہد بھی زیر بحث آئی اور اس بات کو سراہا گیا کہ اگرچہ وفاقی شرعی عدالت میں زیر بحث مقدمہ سردست تعطل کا شکار ہے جس کی وجہ سے ’’تحریک انسداد سود‘‘ کے عنوان سے مختلف مکاتب فکر کی مشترکہ جدوجہد میں سرگرمی کا ماحول پیدا نہیں ہو رہا۔ لیکن اس کے باوجود تنظیم اسلامی پاکستان اپنے امیر محترم حافظ عاکف سعید کی سربراہی میں اس کے لیے مسلسل متحرک ہے اور اس کے لیے مختلف شہروں میں سیمیناروں کا اہتمام کر رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی پرائیویٹ سیکٹر میں سود کی مختلف صورتوں کے خلاف احساس پیدا ہو رہا ہے جس کے تحت پنجاب کے مختلف شہروں میں پرائیویٹ سود پر پابندی کے قانون کی طرف لوگ متوجہ ہو رہے ہیں۔ اور بعض مقامات پر اس ایکٹ کے تحت پرائیویٹ سود خوروں کے خلاف مقدمات بھی درج ہوئے ہیں۔ گوجرانوالہ کے تھانہ سیٹلائیٹ ٹاؤن میں بھی گزشتہ دنوں اس سلسلہ میں ایک ایف آئی آر درج ہو چکی ہے۔
ہمارے خیال میں بیداری کے اس احساس کو بڑھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے دینی جماعتیں او رخطباء کرام زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکتے ہیں۔ جبکہ اس قسم کے مسائل پر رائے عامہ کو بیدار و منظم کرنے کی قومی سطح پر جس جدوجہد کی ضرورت ہے اس کے لیے باہمی رابطہ مہم اور مفاہمت و تعاون کا فروغ وقت کا ایک اہم تقاضا ہے۔
پرائیویٹ سود کی ممانعت کے لیے پنجاب اسمبلی نے اب سے آٹھ برس قبل ایک قانون منظور کیا تھا جو صوبے میں اس وقت سے نافذ ہے۔ ہم اس قانون کا متن علماء کرام اور دینی کارکنوں کی آگاہی کے لیے درج کر رہے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ اس قانون پر عملدرآمد کا ماحول پیدا کرنے کے لیے دینی جماعتیں اور کارکن کسی نہ کسی حد تک ضرور کردار ادا کریں گے۔
شخصی امتناع سودی قرض ایکٹ ۲۰۰۷ء
۲۰۰۷ء کا ایکٹ نمبر ۶ گورنمنٹ آف پنجاب ، غیر معمولی ، ۳۰ جون ۲۰۰۷ء یہ ایکٹ شخصی طور پر سود پر قرض دینے کی ممانعت سے متعلق ہے۔
نمبر: DAP. Logu. 3(11) 2003/934۔شخصی امتناع سودی قرض بل ۲۰۰۷ء چونکہ پنجاب اسمبلی نے ۱۲؍ جون ۲۰۰۷ء کو منظوری دے دی تھی، لہٰذا اب اسے پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے ایکٹ کے طور پر شائع کیا جارہا ہے۔
1- تمہید: چونکہ پنجاب میں سودی قرض کی ممانعت کا قانون بنانا پیش نظر ہے لہٰذا مندرجہ ذیل قانون بنایا گیا۔
2-مختصر عنوان ، دائرہ عمل اور ابتداء: ۱۔اس قانون کا نام شخصی امتناع سودی قرض ایکٹ ۲۰۰۷ء ہوگا۔
3- اس کا دائرہ عمل پنجاب کا سارا صوبہ ہوگا۔ ۳۔ اس پر فوری طور پر عمل درآمد ہوگا۔
تعریفات /اصطلاحات:اس ایکٹ میں مستعمل الفاظ کے درج ذیل مخصوص معنی ہوں گے اِلاَّ یہ کہ متن اور اس کے سیاق وسباق کا تقاضا ہو۔
(ا)گورنمنٹ: سے مراد پنجاب گورنمنٹ ہے۔
(ب)شخصی قرض دہندہ: سے مراد وہ شخص ہے جو سود پر لوگوں کو قرض دے۔ تاہم اس میں وفاقی یا صوبائی حکومت کی اجازت سے کام کرنے والے بنک ، مالیاتی کارپوریشن اور کوآپر یٹو سوسائٹیاں شامل نہیں ہوں گی۔
(ج)سود: سے مراد وہ رقم ہے جو قرض کے لیے دی گئی رقم سے زائد ہو اور اس کا مطالبہ کیا جارہا ہو، خواہ اسے سود کانام دیا گیا ہو یا نہ دیا گیا ہو۔
4- شخصی سودی قرض کی ممانعت:صوبہ پنجاب میں کسی شخص کو خواہ وہ انفرادی طور پر ہو یا اجتماعی طور پر سودی قرض دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔
5- سزا:جو شخص اس ایکٹ کی دفعہ ۳ محولہ بالا کی خلاف ورزی کرے گا (یعنی سود پر قرض دے گا) اسے ۱۰ سال تک کی قید یا پانچ لاکھ روپے جرمانہ یا دونوں پر مشتمل سزا دی جائے گی۔
6- ناقابل ضمانت جرم:اس ایکٹ کے تحت جرم کا ارتکاب ناقابل ضمانت اور ناقابل صلح ہے۔
7- دائرہ کار:اس ایکٹ کی دفعہ ۳ کی خلاف ورزی قابل دست اندازی پولیس جرم ہوگا حسب کریمنل پروسیجر کوڈ ۱۸۹۸ء (ایکٹ ۵آف ۱۸۹۸ء)کی سیکشن دفعہ (۳)کی ذیلی دفعہ (۱)۔
8- قواعد وضوابط:حکومت (پنجاب) اس ایکٹ پر عمل درآمد کے لیے (تفصیلی) قواعد وضوابط بناسکتی ہے۔
9- تنیخ:(اس ایکٹ کے نفاذ کی وجہ سے) پنجاب قرض دہندگی آرڈی ننس ۱۹۶۰ء (ڈبلیوپی آرڈی ننس ۲۴آف ۱۹۶۰ء) منسوخ سمجھا جائے گا۔
10- تحفظ:پنجاب قرض دہندگی آرڈی ننس ۱۹۶۰ء (ڈبلیوپی آرڈی ننس ۲۴ آف ۱۹۶۰) کی تنیخ سے قطع نظر، اس آرڈی ننس کے تحت یا اس کے حوالے سے جو کچھ بھی کیا گیا، جو ایکشن لیے گئے، جن حقوق وواجبات کا تعین کیا گیا، جو تعیناتیاں شامل کی گئیں، جو اختیارات تفویض کیے گئے، جو فیصلے کیے گئے اور جو (تفصیلی) قواعد و ضوابط وضع کیے گئے وہ سب اس ایکٹ کے تحت انجام دیے گئے متصورہوں گے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۲۰ جنوری ۲۰۱۶ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 ملکی سیاست اور مذہبی جماعتوں کا مخمصہ 1 1
3 نفاذ اسلام کے لیے ہوم ورک کی کمی 1 2
4 وقتی سیاسی فوائد کا حصول 1 2
5 دینی جماعتوں کے مابین اتحاد کی کمی 1 2
6 فرقہ وارانہ تشخص اور ترجیحات 1 2
7 مغربی فلسفہ کی یلغار اور دینی صحافت کی ذمہ داریاں 2 1
8 جنرل پرویز مشرف سے دینی جماعتوں کی توقعات 3 1
9 مولانا مفتی محمودؒ اور اکرم درانی 4 1
10 مذہبی طبقات اور دینی جدوجہد کے عصری تقاضے 5 1
11 موجودہ ملکی و علاقائی صورت حال میں علماء دیوبند کا’’مشترکہ موقف‘‘ 6 1
12 مشترکہ اعلامیہ 6 11
13 قراردادیں 6 11
14 قومی وملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت (۱) 7 1
15 قومی وملی تحریکات میں اہل تشیع کی شمولیت (۲) 8 1
16 مشترکہ دینی تحریکات اور حضرت امام اہل سنتؒ 9 1
17 نفاذ اسلام کی تحریکوں کا طریق کار 10 1
18 اسلامی نظام کی جدوجہد اور اس کی حکمت عملی 11 1
19 ہماری دینی تحریکات کی ناکامی کے اسباب 12 1
20 رپورٹ 1: آل پارٹیز قومی سنی کنونشن 12 19
21 ممتاز شخصیات 12 19
22 سربراہی اجلاس 12 19
23 سپریم کونسل کا اجلاس 12 19
24 کنونشن کی عمومی نشست 12 19
25 قراردادیں 12 19
26 شرکاء کے اعزاز میں استقبالیہ 12 19
27 رپورٹ (2) : لندن میں دینی تحریکات کا مشترکہ اجلاس 12 19
28 دینی تحریکات کی ناکامی کے اسباب 12 19
29 انتخابی سیاست اور نفاذ اسلام 13 1
30 سودی نظام کے خلاف دینی حلقوں کی مشترکہ مہم 14 1
31 دینی تحریکات کی کامیابی اور ناکامی 15 1
32 حالیہ اقدامات اور علماء کی فکرمندی 16 1
33 شخصی امتناع سودی قرض ایکٹ ۲۰۰۷ء 16 32
34 اور اب دینی سرگرمیوں پر پابندی ! 17 1
35 نفاذ شریعت کے لیے علماء اور وکلاء کی مشترکہ جدوجہد کی ضرورت 18 1
36 دینی تحریکات کی ناکامی کا ایک سبب 19 1
37 ختم نبوت کانفرنس چناب نگر ۲۰۱۶ء 20 1
38 وفاقی وزیر داخلہ کی خوش آئند باتیں 21 1
39 نفاذ اسلام کی جدوجہد اور اسلامی نظریاتی کونسل کے مسودات 22 1
40 فرزندِ جھنگویؒ اور جمعیۃ علماء اسلام 23 1
41 تحفظ ناموس رسالت کا قانون اور سیکولر عناصر کی مہم 24 1
42 تحفظ ناموس رسالتؐ قانون اور سینٹ آف پاکستان 25 1
43 آل پارٹیز تحفظ ناموس رسالت کانفرنس کے مطالبات 26 1
44 ’’شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار‘‘ 27 1
45 یوم پاکستان ۲۰۱۷ء 28 1
46 ’’اسلام کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟‘‘ 29 1
47 جمعیۃ العلماء اسلام کے صد سالہ عالمی اجتماع کے موقع پر چند گزارشات 30 1
48 جمعیۃ کے صد سالہ عالمی اجتماع کی کامیابی پر مبارکباد 31 1
49 غیر سودی بینکاری کا فروغ اور ہماری ذمہ داریاں 32 1
50 اسلامی قوانین کے تحفظ پر قومی سیمینار 33 1
Flag Counter