Deobandi Books

معیشت

ن مضامی

6 - 11
سود سے متعلق وفاقی شرعی عدالت کا سوال نامہ
وفاقی شرعی عدالت نے اب سے دس برس قبل بینک انٹرسٹ کو رِبٰوا (سود) قرار دے کر ملک میں رائج تمام سودی قوانین کو ختم کرنے اور متبادل نظام و قوانین تجویز کر کے انہیں نافذ کرنے کا حکومت کو آرڈر جاری کیا تھا جس کے خلاف سپریم کورٹ کے شریعت اپلیٹ بینچ میں اپیل دائر کی گئی تو اس نے بھی چند جزوی ترامیم کے ساتھ اس فیصلے کو برقرار رکھا۔ مگر جب اس کے بارے میں نظر ثانی کی اپیل دائر کی گئی تو فیصلہ صادر کرنے والے جج صاحبان فارغ ہو چکے تھے اور نئے ججوں پر مشتمل شریعت اپلیٹ بینچ نے فیصلے کی سماعت میں چند فنی کمزوریوں کا حوالہ دے کر اس کی از سرِ نو سماعت کا حکم صادر فرما دیا تھا۔
اس از سرِ نو سماعت کا آغاز اب دس سال کے بعد ہو رہا ہے جس کے تحت یہ کیس پھر سے وفاقی شرعی عدالت کے سپرد کر دیا گیا ہے اور اس نے 21 اکتوبر کو سماعت کا آغاز کر کے ملک بھر کے علماء کرام اور دینی اسکالرز کے لیے چودہ سوالات پر مشتمل ایک سوال نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اس کا جواب 5 نومبر تک وفاقی شرعی عدالت کو بھجوانا ضروری ہے کیونکہ اس روز سے اس کیس کی سماعت باقاعدہ شروع کی جا رہی ہے۔
سوال نامہ درج ذیل ہے:
ربا (انٹرسٹ) سے متعلق قوانین پر
وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے نظر ثانی کے حوالے سے
فقہاء، ماہرین اور عام پبلک کے لیے تیار کیا گیا سوالنامہ
1- تفاسیر کی روشنی میں ’ربا‘ کی مستند تعریف کیا ہے؟ کیا ربا، سود (Usuary) اور انٹرسٹ (Interest) میں کوئی فرق ہے؟ کیا ربا کا اطلاق اس انٹرسٹ پر بھی ہوتا ہے جو بنک اور مالیاتی ادارے تجارتی اور پیداواری مقاصد کے لیے دیے گئے قرضوں پر وصول کرتے ہیں؟
2-  قرض کی تعریف کیا ہے؟ کیا قرض اور ادھار (Loan) مترادف اصطلاحات ہیں؟ قرآن میں قرض کا لفظ کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟
3- کیا بیع (Sale) جس کو قرآن میں حلال قرار دیا گیا ہے اس کا کوئی تعلق بنکوں کے سود پر مبنی لین دین کے معاملات سے ہے اور کیا ان پر بیع کا اطلاق کیا جا سکتا ہے؟
4- ربا الفضل کیا ہے؟ اور موجودہ زمانے کے بنکوں کے لین دین پر اس کا اطلاق کس طرح ہو سکتا ہے؟
5- ربا کی حرمت کی علت کیا ہے؟ اور قرآن و سنت اور مختلف مکاتب فکر کے علماء کی رائے میں اس کے اخلاقی اور قانونی مضمرات کیا ہیں؟ کیا الحکم یدور مع العلۃ وجوبًا و عدما کے فقہی قاعدہ کا اطلاق ربا کے مسئلے پر بھی ہو سکتا ہے؟
6- آئین پاکستان میں ہے کہ وفاقی شرعی عدالت کسی قانون کے اسلام کے مطابق ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ قرآن و سنت کی بنیاد پر کرے گی۔ بنا بریں قرآن و سنت کے صریح احکام کی موجودگی میں کسی معاملے کے اسلامی یا غیر اسلامی ہونے کے بارے میں ہم عصر علماء کی رائے کی کیا اہمیت ہے؟
7-  کیا سود کی حرمت کا اطلاق اسلامی ریاست کے غیر مسلم شہریوں پر بھی ہوتا ہے؟ کیا اس کا اطلاق غیر مسلم حکومتوں سے لیے گئے قرضوں پر بھی ہوگا جب کہ غیر ممالک کی پالیسیوں اور بین الاقوامی مالیاتی قوانین پر حکومت پاکستان کا کوئی کنٹرول نہیں ہے؟
8- قرض کے معاملات میں کرنسی کی قیمت کم ہونے (Devaluation) اور کرنسی کی قیمت خرید کم ہونے یعنی افراطِ زر (Inflation) کی بناء پر (Indexation) کے جائز یا ناجائز ہونے کے حوالے سے ہم عصر علماء کی تحقیقات کی روشنی میں آپ کی رائے کیا ہے؟
9- قرآن میں مذکور ’راس المال‘ کا کیا مطلب ہے؟ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ افراطِ زر کی وجہ سے کاغذی کرنسی کی ویلیو کم ہو جاتی ہے۔ اگر کسی شخص نے کسی سے قرض لیا ہو اور کافی مدت بعد اسی مقدار میں کرنسی واپس کرے تو افراطِ زر کی وجہ سے قرض دینے والے کو نقصان ہوگا۔ اگر وہ مقروض سے مطالبہ کرے کہ وہ اس نقصان کو پورا کرنے کے لیے اسے اصل زر سے زائد ادائیگی کرے تو کیا یہ ربا ہوگا؟
10- کیا معاصر اسلامی بنک متعین منافع دینے کے لیے مضاربہ اور مشارکہ وغیرہ کی جو شکلیں استعمال کر رہے ہیں کیا وہ مقاصد شریعت کے مطابق ہیں؟ اور کیا انہیں سود کا صحیح اسلامی متبادل سمجھا جا سکتا ہے؟
11- اسلامی تمویل کے مقاصد کیا ہیں؟ کیا اسلامی تمویل کے جدید طریقوں سے یہ مقاصد پورے ہو رہے ہیں؟
12- مطالبات زر پر چھوٹ یعنی بلوں پر ڈسکاؤنٹ دینے کا شرعی متبادل کیا ہے؟ موجودہ اسلامی بنک جس طرح یہ ڈسکاؤنٹ دے رہے ہیں کیا وہ شریعت کے مطابق ہے؟
13- بنک حسابات جاریہ (Current accounts) سے جو ترجیحی سلوک کرتے ہیں کیا وہ مطابق شریعت ہے؟
14- اگر انٹرسٹ پر مبنی معاملات اور قوانین کو غیر اسلامی قرار دے دیا جائے تو ماضی میں بیرونی ممالک سے جو قرضے لیے گئے تھے اور مسلم و غیر مسلم ممالک سے جو مالی معاہدے کیے گئے تھے ان کے بارے میں کیا طریقہ اختیار کیا جانا چاہیے؟
اس سلسلہ میں گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں پاکستان شریعت کونسل کے امیر مولانا فداء الرحمن درخواستی نے کونسل کے سرکردہ راہ نماؤں کے ساتھ مشاورت کے بعد اعلان کیا ہے کہ پاکستان شریعت کونسل اس کیس میں عملی طور پر شریک ہوگی اور اس کے لیے پروفیسر ڈاکٹر احمد خان کی سربراہی میں پانچ رکنی کمیٹی قائم کر دی گئی ہے جو اس کا طریق کار اور دیگر تفصیلات طے کرے گی۔ اس کمیٹی میں مولانا محمد رمضان علوی، مفتی محمد سیف الدین گلگتی، حافظ سید علی محی الدین اور جناب صلاح الدین فاروقی شامل ہیں۔ یہ کمیٹی 31 اکتوبر جمعرات کو بعد نماز مغرب جامعہ رحمانیہ ماڈل ٹاؤن اسلام آباد میں اپنا اجلاس کر رہی ہے جس میں راقم الحروف بھی شریک ہوگا۔ جبکہ تمام مکاتب فکر کے سرکردہ علماء کرام پر مشتمل مشترکہ فورم ’’ملی مجلس شرعی پاکستان‘‘ نے 29 اکتوبر کو جامعہ القادسیہ لاہور میں منعقدہ ایک بھرپور اجلاس میں فیصلہ کیا ہے کہ ملی مجلس شرعی اس کیس میں باقاعدہ فریق بنے گی اور عدالتی چارہ جوئی کے ساتھ ساتھ رائے عامہ کو منظم کرنے اور پرجوش عوامی تحریک چلانے کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
جامعہ القادسیہ کے اجلاس میں ملی مجلس شرعی کے سربراہ مولانا مفتی محمد خان قادری اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ مولانا حافظ محمد سعید کے علاوہ تنظیم اسلامی پاکستان کے حافظ عاکف سعید، صاحبزادہ سلطان احمد علی، علامہ خلیل الرحمن قادری، مولانا حافظ عبد الغفار روپڑی، مولانا میاں محمد اسلم ندیم، مولانا حافظ محمد نعمان، حافظ شبیر احمد ایڈووکیٹ، علامہ محمد توقیر عباس، مولانا امیر حمزہ، حافظ مسعود احمد، حافظ عاطف وحید، سید مظفر شاہ اور راقم الحروف کے علاوہ ممتاز دانش ور جناب اوریا مقبول جان اور اسپین سے تشریف لانے والے جناب عمر عبد اللہ اڈیلو نے بھی شرکت کی جو سونے کی بنیاد پر درہم و دینار کی کرنسی کو رواج دینے کی کوشش کر رہے ہیں اور سود کے ساتھ ساتھ کاغذی کرنسی کے خاتمہ کے لیے بھی مہم مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے ملائیشیا کے ایک صوبے میں عملی منصوبے کا بھی آغاز کر دیا ہے جو کامیابی کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے۔
اجلاس میں طے پایا کہ سودی نظام کے خلاف عدالتی جنگ لڑنے کے ساتھ ساتھ تحریک ختم نبوت کی طرز پر زبردست عوامی جدوجہد کا پروگرام بھی مرتب کیا جائے گا اور تمام دینی و سیاسی جماعتوں کی قیادت کو اعتماد میں لے کر ملک کو سودی نظام سے نجات دلانے کی تحریک چلائی جائے گی۔ اس مقصد کے لیے راقم الحروف کو کنوینر کی ذمہ داری سونپ کر ایک رابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے جس میں مولانا امیر حمزہ، حافظ عاکف سعید، جناب اوریا مقبول جان، علامہ خلیل الرحمن قادری، جناب فرید پراچہ، صاحبزادہ سلطان احمد علی، سید مظفر شاہ، حافظ عبد الغفار روپڑی، علامہ توقیر عباس اور جناب قاری محمد یعقوب شیخ شامل ہیں۔
راقم الحروف نے اس کمیٹی کا اجلاس 2 نومبر ہفتہ کو ظہر کے بعد قرآن اکیڈمی ماڈل ٹاؤن لاہور میں طلب کر لیا ہے جس کے بعد ہم اس سلسلہ میں مزید تفصیلات قارئین کی خدمت میں پیش کر سکیں گے، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ملک بھر کے احباب سے درخواست ہے کہ اس کار خیر میں ہمہ جہت تعاون کے لیے تیاری کے ساتھ ساتھ دعاؤں کا بھی اہتمام کریں۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۳۱ اکتوبر ۲۰۱۳ء
Flag Counter