Deobandi Books

حکمت

ن مضامی

11 - 11
تقابلِ ادیان و مسالک ۔ تقاضے اور آداب
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں سالانہ دورۂ تفسیر کے دوران ’’تعارفِ ادیان و مذاہب‘‘ کے موضوع پر بھی چند محاضرات ہوتے ہیں۔ اس سال اس سلسلہ میں طلبہ کے سامنے کی جانے والی تمہیدی گفتگو کا خلاصہ نذرِ قارئین ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ ہمارے ہاں ’’تقابلِ ادیان‘‘ کے عنوان سے مختلف مدارس اور مراکز میں کورسز ہوتے ہیں جن میں ادیان و مذاہب کے درمیان چند اعتقادی اختلافات پر مباحثہ و مناظرہ کی تربیت دی جاتی ہے جو اپنے مقاصد کے اعتبار سے انتہائی ضروری ہے اور اس کی افادیت سے انکار نہیں ہے۔ مگر میری طالب علمانہ رائے میں یہ اس وسیع تر موضوع کے لحاظ سے انتہائی محدود اور جزوی سا دائرہ ہے جبکہ اس عنوان پر اس سے کہیں زیادہ وسیع تناظر میں گفتگو کی ضرورت ہوتی ہے۔
تقابلِ ادیان سے پہلے تعارفِ ادیان
اس سلسلہ میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ تقابل سے پہلے تعارف ضروری امر ہے کہ جس گروہ سے آپ اختلاف کر رہے ہیں اس کا کم از کم اجمالی تعارف تو آپ کے سامنے ہو کہ
1- اس کا آغاز کب ہوا تھا اور اس کی مختصر تاریخ کیا ہے؟
2- آپ کے ساتھ اس گروہ کے اختلافات کا بنیادی دائرہ کیا ہے؟
3- بڑے بڑے مختلف فیہ مسائل کون سے ہیں؟
4- اس گروہ کے ساتھ آپ کے سماجی اور معاشرتی تعلقات کی نوعیت کیا ہے؟
5- اور اعتقادی اختلافات سے ہٹ کر آپ دونوں کے درمیان سیاسی، معاشرتی اور سماجی تنازعات کیا ہیں؟
اس مجموعی تناظر سے آگاہی کے بغیر چند اختلافی مسائل پر مباحثہ کرنا مناظرے کے ماحول میں تو یقیناً فائدہ مند ہوتا ہے لیکن آج کے عالمگیر ماحول (Global Environment) میں اس گروہ کے صحیح معاشرتی مقام کی پہچان اور اس کے ساتھ معاملات و تنازعات کے تعین میں اس سے کوئی راہنمائی نہیں ملتی۔ مثلاً مسیحیت کے بارے میں دیکھ لیجئے کہ اس مذہب کے ساتھ اعتقادی مباحث میں (۱) توحید یا تثلیث (۲) کفارہ (۳) ابنیت مسیح (۴) حضرت عیسٰی علیہ السلام کا زندہ آسمانوں پر اٹھایا جانا وغیرہ مسائل یقیناً اہمیت رکھتے ہیں لیکن عملی معاملات میں اس سے کہیں زیادہ اہم امور یہ ہیں کہ
1- جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے دور میں مسیحی مسلم تعلقات کی نوعیت کیا تھی؟
2- رومیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں کا تناظر کیا تھا؟
3- صلیبی جنگوں کا مقصد اور نتیجہ کیا تھا؟
4- خلافتِ عثمانیہ اور صلیبیوں کی کشمکش کا ماحول کیا تھا؟
 5- بہت سے مسلمان ممالک پر چند مسیحی ممالک نے نوآبادیاتی قبضہ کیسے کر لیا تھا؟
6- مسلمانوں کے علوم و معارف کو تشکیک کا نشانہ بنانے کے لیے استشراق کی علمی و فکری تحریک کے اہداف و نتائج کیا تھے؟
7- اور اس وقت دنیا بھر میں مسلمانوں اور مسیحیت کے باہمی تعلقات و تنازعات کی صورتحال کیا ہے؟ وغیر ذلک۔
اعتقادی مباحث تو مسیحی دنیا نے ایک عرصہ سے ترک کر رکھے ہیں اور انہوں نے مسلمانوں کے مقابلہ میں بہت سے دیگر ذرائع اور اسباب اختیار کیے ہوئے ہیں جو ہمارے تعلیمی موضوعات سے ہی خارج ہیں۔ یہی صورتحال یہودیت، ہندوازم، سکھ مت اور بدھ مت کے بارے میں بھی ہے۔ یہ وہ مذاہب ہیں جو آج کی موجود دنیا میں ہمارے معاصر ہیں اور ان کے ساتھ دنیا کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کو ہر وقت مسائل درپیش رہتے ہیں۔
مسلمانوں کے داخلی مذاہب کا معاملہ
اسی طرح مسلمانوں کے داخلی مذاہب کا معاملہ بھی ہے۔ دنیا بھر میں مسلمان کہلانے والی پونے دو ارب کے لگ بھگ آبادی کو جس گروہ بندی کا سامنا ہے اور جن حصوں بخروں میں وہ اس وقت نہ صرف تقسیم بلکہ باہم برسرِ پیکار ہے اس کے پورے تناظر میں ہم اگر کہیں بات کرتے بھی ہیں تو وہ چند اعتقادی مباحث تک محدود ہوتی ہے۔ مجھے اس کی اہمیت و ضرورت سے کسی درجہ میں بھی انکار نہیں ہے لیکن یہ صرف ایک جزوی سا پہلو ہے جو ناکافی ہے۔ یہاں میں مثال کے لیے قادیانیت کا حوالہ دوں گا کہ ان کے ساتھ ہمارے اعتقادی مباحث میں (۱) ختم نبوت یا اجرائے نبوت (۲) رفع و نزول عیسیٰ علیہ السلام (۳) صدق و کذب مرزا جیسے مسائل یقیناً بنیادی اور مرکزی نوعیت کے ہیں جن کا علماء و طلبہ کو پڑھانا ضروری ہے۔ لیکن
1- قادیانی گروہ کا تعارف و پس منظر،
2- اس کے دو گروہوں میں فرق،
3- تحریک آزادی میں اس گروہ کا کردار،
4- پاکستان کے قیام اور تقسیم پنجاب میں اس کا کردار،
 5- بین الاقوامی اداروں میں اس کی اسلام او رپاکستان کے خلاف مسلسل سرگرمیاں،
6- اور عالمی سطح پر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ اس کا اشتراک عمل وغیرہ
بھی کم اہمیت کے امور نہیں ہیں جن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے۔ حالانکہ اس حوالہ سے نہ صرف قادیانیت بلکہ ختم نبوت کا انکار کرنے والے دیگر معاصر گروہوں مثلاً بہائیت، ذکری مذہب اور نیشن آف اسلام وغیرہ سے بھی اسی درجہ کی آگاہی ضروری ہے۔
اختلاف کے مسلمہ آداب
تیسرے نمبر پر میں توجہ دلانا چاہوں گا کہ اختلافات پر بحث و مباحثہ میں اختلافات کی درجہ بندی اور اختلاف کے مسلمہ آداب کا ہمارے ہاں عام طور پر لحاظ نہیں رکھا جاتا۔
1- بعض اختلافات کفر و اسلام کے ہوتے ہیں مثلاً مسیحیت، یہودیت، ہندو ازم، سکھ مت، قادیانیت، بہائیت، نیشن آف اسلام وغیرہ۔
2- بعض اختلافات حق و باطل کے ہیں مثلاً خوارج، روافض، معتزلہ وغیرہ کے ساتھ، جن کا دائرہ پہلے دائرے سے یقیناً مختلف ہے۔
3- بعض اختلافات خطا و صواب کے ہیں جیسا کہ احناف، شوافع، حنابلہ، مالکیہ اور ظواہر کے فقہی اختلافات، ان کا درجہ محض صواب و خطا کا ہے اور حق و باطل کے معرکہ کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
4- اس سے نیچے اختلافات کا ایک بہت بڑا دائرہ اولٰی اور غیر اولٰی کا ہے جسے صواب و خطا میں تقسیم کرنا بھی درست نہیں ہوتا۔
لیکن ہمارے مناظرانہ مباحث میں یہ سب دائرے اس طرح خلط ملط ہو گئے ہیں کہ بسا اوقات اولٰی غیر اولٰی کے مسائل میں ہم حق و باطل کے لہجے میں بات کر رہے ہوتے ہیں اور خطا و صواب کا معرکہ تو کبھی کبھی کفر و اسلام کی باقاعدہ جنگ بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں ان معاملات میں بے احتیاطی اور لاپروائی کے ایسے معاملات سامنے آتے ہیں کہ میرے جیسے کمزور لوگوں کو ایمان خطرے میں محسوس ہونے لگتا ہے۔ ایک بڑے خطیب صاحب جووفات پا چکے ہیں، اللہ ان کی مغفرت فرمائیں، آمین۔ وہ ایک بار کسی عوامی جلسہ میں مادۂ تولید کے پاک یا ناپاک ہونے کے اختلافی مسئلے پر اپنے مخالف فریق کے وہ لتے لے رہے تھے کہ ان کے قریب بیٹھے مجھے شرم آرہی تھی۔ انہوں نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں لتاڑنے کی خوب مہارت دکھائی۔ جلسہ سے فارغ ہونے پر جب کھانے کے لیے بیٹھے تو میں نے پوچھ لیا کہ حضرت! منی کے پاک ہونے کا یہ موقف، جسے آپ نے موضوع بحث بنایا ہوا تھا، متقدمین میں سے بھی کسی کا ہے؟ فرمایا کہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے عرض کیا کہ یہ حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور حضرت امام سفیان ثوریؒ کا موقف ہے۔ اس پر وہ چونکے۔ میں نے گزارش کی کہ کسی فقہی مسئلہ پر طعن و تشنیع کا توپ خانہ گاڑتے وقت یہ بھی دیکھ لینا چاہیے کہ اس کا رخ کدھر ہے؟
ایسے مسائل میں خاص طور پر اساتذہ سے ہماری گزارش ہوتی ہے کہ اختلافات سکھاتے وقت ادب الاختلاف بھی پڑھایا کریں تاکہ ہمارے نوجوان علماء کو معلوم ہو کہ کس سے کس درجہ میں اختلاف کرنا ہے اور کس لہجے میں کرنا ہے۔ ’’ادب الاختلاف‘‘ پر متقدمین اور متاخرین علماء نے بہت کچھ لکھا ہے جسے باقاعدہ پڑھنے اور پڑھانے کی ضرورت ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں دو سال قبل کراچی کے ایک فاضل دوست ڈاکٹر سید عزیر الرحمان نے ماہنامہ ’’تعمیرِ افکار‘‘ کا پونے چھ سو کے لگ بھگ صفحات پر مشتمل ضخیم نمبر شائع کیا ہے جو مسلکی اور فقہی اختلافات کی حدود و قیود اور آداب کے تقریباً تمام اہم پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ میرے خیال میں اعتقادی اور فقہی علوم پڑھانے والے اور ان مباحث کی تربیت دینے والے تمام مدرسین اور اساتذہ کو لازماً یہ رسالہ پڑھنا چاہیے جسے زوار اکیڈمی پبلیکیشنز ، اے 18/4 ناظم آباد 4 کراچی (فون 36684790) سے طلب کیا جا سکتا ہے۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
روزنامہ اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۴ جون ۲۰۱۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 خاموش ذہنی ارتداد اور ہمارا طرزِ افتاء 1 1
3 نعمتوں کی ناشکری پر عذاب الٰہی کا ضابطہ 2 1
4 علمی وفکری مباحث اور جذباتی رویہ 3 1
5 قدرتی آفات ۔ اسباب و عوامل اور ہماری ذمہ داری 4 1
6 اسلام کا قانون ازدواج اور جدید ذہن کے شبہات 5 1
7 عقل کی حدود اور اس سے استفادہ کا دائرہ کار 6 1
8 سانحہ لال مسجد اور شریعت وحکمت کے تقاضے 7 1
9 دین کے مختلف شعبوں میں تقسیم کار کی اہمیت 8 1
10 ہم آہنگی کی حکمت عملی ۔ ماضی اور حال کے تجربات کی روشنی میں 9 1
11 مذہبی ہم آہنگی اور باہمی رواداری کے تقاضے 10 1
12 تقابلِ ادیان و مسالک ۔ تقاضے اور آداب 11 1
14 مرد کے لیے چار شادیوں کی اجازت 5 6
15 حضور ﷺ کی چار سے زیادہ بیویاں 5 6
16 عورت کے لیے چار شادیوں کی اجازت کیوں نہیں؟ 5 6
17 تقابلِ ادیان سے پہلے تعارفِ ادیان 11 12
18 مسلمانوں کے داخلی مذاہب کا معاملہ 11 12
20 اختلاف کے مسلمہ آداب 11 12
21 آفات کون لاتا ہے؟ 4 5
22 قدرتی آفات کیوں آتی ہیں؟ 4 5
23 قدرتی آفات آنے پر ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ 4 5
Flag Counter