Deobandi Books

فقہِ اسلامی

ن مضامی

11 - 14
دینی اصطلاحات کا اجماعی مفہوم
الشریعہ اکادمی گوجرانوالہ میں دورۂ تفسیر کا سلسلہ جاری ہے اور اسفار بھی اپنا حصہ وصول کرنے پر بضد ہیں۔ آج سبق پڑھا کر گھر آیا تو پنجاب یونیورسٹی سے ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر عبد الماجد ندیم نے فون پر دریافت کیا کہ آپ کہاں ہیں؟ میں نے جواب دیا کہ گھر پر ہوں۔ فرمانے لگے یہ کیا، آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ناں! میں نے عرض کیا کہ بحمد اللہ ٹھیک ہوں۔ کہنے لگے تو پھر گھر پر کیسے ہیں؟ ملک بھر سے احباب کے تقاضے جاری رہتے ہیں اور ہر دوست کا اصرار ہوتا ہے کہ ان کے ہاں تو لازماً حاضری دوں مگر اور جگہوں پر جانے میں احتیاط کروں اور عمر کے اس حصہ میں مصروفیات طے کرتے وقت اپنی صحت کا ضرور خیال رکھوں۔ بہرحال اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اگلے تعلیمی سال کو اسفار سے مکمل طور پر خالی رکھنے کی کوشش کروں گا، ان شاء اللہ تعالیٰ۔ بہت سے تعلیمی اور تحریری کام ادھورے پڑے ہیں، زندگی کا تو کبھی بھروسہ نہیں رہا لیکن اب اس بات کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اس لیے جی چاہتا ہے کہ جو ادھورے کام بہت زیادہ ضروری ہیں ان میں سے جتنے ہو سکیں نمٹا لوں۔ احباب سے دعا اور تعاون دونوں کی درخواست ہے۔
شعبان المعظم کے اسفار کے دوران مولانا کامران حیدر آف الشریعہ اکادمی کے ہمراہ ۱۰ مئی کو چنیوٹ اور ۱۱ مئی کو چناب نگر جانے کا اتفاق ہوا۔ ادارہ مرکزیہ دعوت و ارشاد چنیوٹ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ ادارہ ہے جہاں ختم نبوت کے حوالہ سے سالانہ پندرہ روزہ تربیتی کورس ہوتا ہے۔ اس کی دو نشستوں میں منکرین ختم نبوت کے مختلف گروہوں کے تعارف کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ کے ساتھ کم و بیش تین عشروں کی تحریکی رفاقت کی بعض یادداشتیں بیان کیں اور پرانی یادیں تازہ کیں۔ چناب نگر میں عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کا مرکز ہے، شعبان کے دوران وہاں بھی تین ہفتے کا تربیتی کورس ہوتا ہے جس میں اس سال ملک کے مختلف حصوں میں سے ایک ہزار کے لگ بھگ علماء کرام، فضلاء اور طلبہ شریک ہیں جنہیں مولانا اللہ وسایا کی راہنمائی میں ماہرین کی ایک ٹیم شب و روز پڑھا رہی ہے۔ دو نشستوں میں مجھے بھی کچھ معروضات پیش کرنے کا موقع ملا جن میں بین الاقوامی حلقوں اور اداروں میں قادیانیوں کی مسلسل مہم کی موجودہ صورتحال سے شرکاء کورس کو مختصرًا آگاہ کرنے کے علاوہ قادیانیوں کی علمی تلبیسات کے حوالہ سے بھی کچھ گفتگو کی جس کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔
بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آپ حضرات نے حضرت مولانا اللہ وسایا اور دوسرے فاضلین سے قادیانیوں کے ساتھ بحث و مباحثہ کے موضوعات میں لفظ ’’خاتم‘‘ اور ’’توفیّ‘‘ سے متعلق گفتگو سنی ہوگی۔ میں اس کے صرف ایک پہلو پر کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی زبان کے کسی بھی لفظ کے بارے میں اصول یہ ہے کہ اس کا ایک تو لغوی ور وضعی معنٰی ہوتا ہے جس کے لیے وہ وضع کیا جاتا ہے اور ابتداء میں بولا جاتا ہے، پھر جب وہ لفظ عام استعمال کے ذریعہ کسی مخصوص معنٰی پر زیادہ بولا جانے لگے یا کسی شعبہ میں اسے کسی خاص مفہوم کے لیے مخصوص کر لیا جائے تو وہ اس کا اصطلاحی معنٰی کہلاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ لفظ اس سے مختلف کسی مطلب کے لیے استعمال ہو تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بھی اس کا مصداق ہے۔
ہر اہم لفظ کو یہ تینوں معاملات پیش آتے ہیں۔ البتہ کوئی لفظ کسی مخصوص معنٰی کے لیے اصطلاحاً، عرفاً یا شرعاً متعین ہو جائے تو وہی اس کا اصل معنٰی طے ہو جاتا ہے، جبکہ اس لفظ سے کوئی اور معنٰی مراد لینے کے لیے قرینہ درکار ہوتا ہے اور قرینے کے بغیر اصطلاحی، شرعی اور عرفی معنٰی ترک نہیں کیا جا سکتا۔ پھر اگر کسی جگہ اس لفظ سے متبادل معنیٰ مراد لے لیا جائے تو اس سے اصطلاحی اور عرفی معنٰی منسوخ نہیں ہو جاتا بلکہ وہ بعینہ قائم رہتا ہے۔ مثلاً ’’صلاۃ‘‘ کا لغوی معنٰی دعا ہے مگر جب اسے شرعاً نماز کی مخصوص ہیئت کے لیے متعین کر لیا گیا تو یہ مطلقاً جب بھی بولا جائے گا اس سے مراد نماز ہی ہوگی۔ البتہ لفظ ’’صلاۃ‘‘ قرینہ کے ساتھ درود شریف کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے اور کسی جگہ دعا بھی اس سے مراد ہو سکتی ہے۔
قادیانیوں نے فریب کا یہ راستہ اختیار کیا کہ چونکہ ’’خاتم‘‘ کا لفظ اور معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے اس لیے ’’خاتم النبیین‘‘ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مراد لینا درست نہیں ہے۔ حالانکہ خود جناب نبی اکرمؐ نے ’’انا خاتم النبیین لا نبی بعدی‘‘ فرما کر اس کا معنٰی متعین کر دیا ہے۔ اور چونکہ آنحضرتؐ اللہ تعالیٰ کے رسول اور نمائندہ ہیں اس لیے آپؐ کے اس ارشاد سے خود کلام کے متکلم یعنی اللہ تعالیٰ کی منشا بھی طے ہوگئی ہے کہ خاتم النبیین کا معنٰی یہی ہے۔ میں تفصیل میں جائے بغیر صرف اس حوالہ سے گفتگو کر رہا ہوں کہ الفاظ و اصطلاحات کو اس قسم کی بحثوں میں الجھا کر شکوک و شبہات پیدا کرنا قادیانیوں کا خاص فن ہے اور ان کے ساتھ مسلمان مناظرین کو ’’خاتم‘‘ کے لفظ کے ساتھ ساتھ ’’توفیّ‘‘ کے لفظ کے حوالہ سے بھی اسی طرح کی صورتحال سے سابقہ پیش آتا ہے۔ جبکہ ان دونوں الفاظ کے حوالہ سے اصولی بات یہ ہے کہ ان کا متکلم اللہ تعالیٰ ہے اور جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے رسول کی حیثیت سے جو معنیٰ بیان فرما دیا ہے وہی ان الفاظ کا حتمی معنیٰ و مفہوم ہے جس سے انحراف منشاء خداوندی سے انحراف ہے۔
لفظی موشگافیوں کے اس گورکھ دھندے میں قادیانیوں کے دائرے سے ہٹ کر ’’ربوٰا‘‘ کے لفظ کے بارے میں بھی ملک کی اعلیٰ عدالتوں میں ہمیں واسطہ درپیش ہے اور مسلسل ستائیس سال سے یہ بے معنی تکرار جاری ہے کہ ’’ربوٰا‘‘ سے مراد کون سا سود ہے اور بینکوں کا سود اس میں شامل ہے یا نہیں ہے۔ حالانکہ قرآن کریم نے جب ’’ربوٰا‘‘ کو حرام قرار دیا اور سختی کے ساتھ اس سے منع کیا تو حضور نبی کریمؐ نے اس وقت تجارت اور قرض وغیرہ کے تمام شعبوں میں جو بھی سود جاری تھا اسے ختم کر دیا تھا اور سود کی کوئی قسم باقی نہیں رہنے دی تھی۔ مگر ہماری عدالتیں ابھی تک اس لفظی بحث میں الجھی ہوئی ہیں، اس خودساختہ الجھاؤ کے ذریعہ سودی نظام کے خاتمہ کو مسلسل مؤخر کیا جا رہا ہے اور قرآن و سنت کے ساتھ ساتھ دستور پاکستان کے تقاضے بھی نظر انداز کیے جا رہے ہیں۔
اسی طرح کی ایک اور بحث جناب جاوید احمد غامدی نے بھی چھیڑ رکھی ہے کہ ’’سنت‘‘ سے کیا مراد ہے؟ حالانکہ صحابہ کرامؓ سے لے کر اب تک امت کے نزدیک مجموعی طور پر سنت کا مفہوم متعین اور واضح ہے جسے امت سنت سمجھتی ہے اور اس پر عمل کرتی آرہی ہے لیکن غامدی صاحب سنت کے اس مفہوم کو مشکوک اور متنازعہ بناتے ہوئے اس کی نئی تعریف کرنے اور نیا مصداق طے کرنے پر مصر ہیں۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کیا ہو سکتا ہے کہ سنت کا چودہ سو سال سے امت میں اجماعی طور پر سمجھا جانے والا مفہوم مشکوک ہو جائے۔ جبکہ سنت کے نئے خودساختہ مفہوم کے لیے انہوں نے جو تانا بانا بُن رکھا ہے اس کا مقصد اس کے علاوہ اور کچھ نظر نہیں آرہا کہ ان کا یہ اختیار تسلیم کر لیا جائے کہ جس عمل کو چاہے وہ سنت قرار دیں اور جس کے بارے میں وہ چاہیں اس کے سنت ہونے سے انکار کر دیں۔
چناب نگر سے فارغ ہو کر لاہور حاضری ہوئی۔ قلعہ گوجر سنگھ میں حضرت مولانا محمد اجمل خانؒ کی یادگار جامعہ رحمانیہ کی سالانہ تقریب تھی۔ مولانا محمد امجد خان کے حکم پر دستار بندی میں شریک ہوا۔ اس کے بعد باغبان پورہ میں مولانا قاری جمیل الرحمان اختر کے زیر اہتمام جامعہ حنفیہ قادریہ کی سالانہ تقریب اور مسجد امن کی نو تعمیر عمارت میں نمازوں کے باقاعدہ آغاز کے پروگرام میں شرکت کی سعادت حاصل کی اور کچھ معروضات پیش کرنے کے بعد واپس گوجرانوالہ کی طرف روانہ ہوگیا۔
مجلہ/مقام/زیراہتمام: 
ہفت روزہ ترجمان اسلام، لاہور
تاریخ اشاعت: 
۱۸ مئی ۲۰۱۷ء
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 سود کے بارے میں حضرت عمرؓ کا ایک فیصلہ 1 1
3 اجتہاد کے راہنما اصول 2 1
4 کیا اجتہاد کا دروازہ بند ہو چکا ہے؟ 3 1
5 اجتہاد مطلق کا دروازہ کیوں بند ہے؟ 4 1
6 اسلام میں متعہ کا تصور 5 1
7 کیا نکاح کے لیے مرد و عورت کا باہمی ایجاب و قبول کافی ہے؟ 6 1
8 دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرۂ کار 7 1
9 تجدد پسندوں کا تصور اجتہاد 8 1
10 برصغیر کے فقہی واجتہادی رجحانات کا ایک جائزہ 9 1
11 فقہ حنفی پر ایک نظر 10 1
12 دینی اصطلاحات کا اجماعی مفہوم 11 1
13 دینی اصطلاحات کا اجماعی مفہوم اور لفظوں کی میناکاری 12 1
14 بھارتی سپریم کورٹ میں تین طلاقوں کا مسئلہ 13 1
15 ’’تجدید‘‘ اور ’’تجدد‘‘ میں بنیادی فرق 14 1
16 اجتہاد مطلق 3 4
17 عملی اجتہاد 3 4
18 متعۃ الحج 5 6
19 متعۃ النکاح 5 6
20 متعۃ الطلاق 5 6
21 پاکستان لاء کمیشن کی تجویز 5 6
22 1- اجتہاد کا مفہوم اور اس کی ضرورت 7 8
23 2- عمل اجتہاد کا تاریخی ارتقا 7 8
24 3- علما، دور جدید اور اجتہاد 7 8
25 4- دینی حلقوں کے لیے چند توجہ طلب پہلو 7 8
Flag Counter