Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

9 - 10
مولانامحمد قاسم  ڈیرہ غازیخان
مولانامحمد قاسم  ڈیرہ غازیخان

اس گھما گھمی کے دور میں عموماً ہر روز کسی نہ کسی مسجد سے اسپیکر سے یہ آواز گونج رہی ہوتی ہے کہ پھر کوئی ہم سے جدا ہوگیا۔ رخصت ہونے والے بعض ایسے ہوتے ہیں جن کا سن کر دل سخت صدمے سے دوچار ہوجاتا ہے۔ چند مہینوں سے سرزمین ڈیرہ غازی خان سے کچھ ایسی ہی شخصیات داغ مفارقت دے رہی ہیں جن کے خلاء کو پُر کرنے کی دور دور تک امید نظر نہیں آتی۔ انہی شخصیات میں سے ایک علم وعمل کے پیکر مجسمہٴ شرافت‘حاملِ زہد وتقویٰ‘ سراج العلماء حضرت مولانا محمد قاسم بھی ہیں۔ جنہوں نے علمی خاندان میں آنکھ کھولی‘ لیکن اپنے متبحر عالم دین والد سے زیادہ عرصہ فیض یاب نہ ہو سکے۔ کیونکہ یہ ابھی سن رشد کو نہ پہنچے تھے کہ ان کے والد گرامی حضرت مولانا حفیظ اللہ  چوٹی زیرین کے مقام پرانتقال کرگئے۔ تین بھائیوں ‘ تین بہنوں اور بیوہ ماں کا بوجھ ان کے ناتواں کندھوں پر آن پڑا۔ رہائش کے لئے مکان نہیں اور گزراوقات کے لئے کوئی ذریعہ نہیں‘ ان ناگفتہ بہ حالات کے باوجود انہوں نے کنبے کو بھی احسن طریقے سے سنبھالا اور علمی سفر بھی جاری رکھا۔ درسِ نظامی کی ابتدائی تعلیم کے لئے کبھی چوٹی زیریں کا سفر کرتے اور کبھی گدائی میں معروف عالم دین مولانا احمد بخش مرحوم کے پاس پہنچ جاتے‘ علم دین کے حصول میں ہر قسم کی رکاوٹوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ علمی منازل طے کرتے ہوئے جامعہ قاسم العلوم ملتان میں موقوف علیہ کے بعد دورہ حدیث کے لئے جامعہ خیر المدارس میں علامہ محمد شریف کشمیری کے حلقہ درس میں علوم دینیہ کی تکمیل کی۔ سند فراغت کے بعد بلاک نمبر:۷ ڈیرہ غازیخان میں مدرسہ رحیمیہ عابدیہ کے نام سے دینی مدرسے کی بنیاد رکھی‘ اپنے علمی وروحانی فیض سے ڈیرہ غازیخان کے خواص وعام کو فیضیاب کرنا شروع کیا۔ جامع مسجد اخونداں میں امامت وخطابت کرتے رہے‘ زندگی کے آخری حصے میں بلاک نمبر: ۱۸ نزد گورچانی منزل میں مدرسہ رحیمیہ کا از سر نو اجراء کیا اور یوں فرید آباد کالونی میں مستقل قیام پذیر ہوگئے۔ مولانا مرحوم تقویٰ وطہارت اور اپنی سادگی میں اسلاف کا نمونہ تھے‘ دور سے یوں معلوم ہوتاتھا کہ یہ ایک دیہاتی سادہ لوح شخص ہے‘ مگر جب کوئی ان کے قریب جاتا تو ان کی علمی اور شستہ گفتگو آدمی کو ورطہٴ حیرت میں ڈال دیتی۔ مسلک حقہ دیوبند پر سختی سے کاربند رہنے کی وجہ سے بعض روشن خیال مولوی انہیں سخت مزاجی اور دقیانوسیت کا طعنہ بھی دیتے‘ مگر وہ لومة لائم کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے موقف پر ڈٹے رہے‘ اپنے لواحقین اوردوست احباب کو ہمیشہ دینی علوم پڑھنے پڑھانے کی ترغیب دیتے اپنی اولاد میں سے کسی کو بھی سکول وکالج نہ جانے دیا اور سب کو قرآن پاک کا حافظ‘ قاری اور عالم بنایا ۔ بچپن میں خود قرآن پاک حفظ نہ کر سکے ‘ شادی کے بعد جوانی میں قرآن پاک حفظ کیا‘ تراویح خود پڑھانے میں بڑی خوشی محسوس کرتے‘ ان کی انتھک کوششوں اور ذاتی خواہش کی وجہ سے ان کی اولاد: بیٹے‘ بیٹیوں‘ پوتے‘ پوتییوں‘ نواسے ‘ نواسیوں میں پچاس سے زائد حفاظ اور علماء دین موجود ہیں۔ حج کے ایام جونہی قریب ہوتے‘ ان کی حالت دیدنی ہوتی اور ہر سال حج کی ہرممکن کوشش کرتے کہ کسی طرح حج پر پہنچ جائیں۔ پہلا حج انہوں نے بحری جہاز کے ذریعے ۱۲۰۰/ روپے میں کیا۔ بس پھر تو زندگی میں بے شمار حج اور عمرے کئے۔ ایک دفعہ گھر کا چھوٹا موٹا سامان بیچ کر بھی حج کیا۔ ایک دفعہ عمرہ پر تشریف لے گئے تو جدہ ایئرپورٹ پر چیکنگ کے دوران مولانا صاحب کے ہمراہ مستورات کو کہا گیا کہ وہ مرد افسر کے سامنے چہرہ دکھولیں۔ مولانا صاحب نے انکار کردیا اور کہا کہ: ہم عمرہ کمے لئے جارہے ہیں‘ میں مستورات کی بے پردگی نہیں ہونے دوں گا ۔ڈیوٹی پر مامور آدمی نے کہا: اس طرح تو آپ کو واپس پاکستان بھیج دیا جائے گا‘ مولانا نے فرمایا کہ: میں واپس تو جاسکتا ہوں مگر بے پردگی نہیں کراسکتا‘ چنانچہ کافی تکرار کے بعد مولانا کو احرام کے ساتھ ہی واپس پاکستان بھیج دیا گیا ۔ عمرہ پر لاگت کا اتنا بڑا مالی خسارہ برداشت کیا‘ مگر پردہ جیسے اسلامی شعار پر آنچ نہ آنے دی۔ زہد وتقویٰ کا یہ حال تھا کہ ایک دفعہ شاہ جمال اپنے رشتہ داروں کے ہاں تشریف لے گئے‘ ایک بڑھیا نے چٹائی ہدیةً پیش کی تو فوراً پوچھا کہ حلال مال سے بنی ہوئی ہے یا حرام سے؟ کیونکہ دیہات کی عورتوں کی عادت ہوتی ہے وہ غیروں کی کھجوروں سے چھڑیاں کاٹ کر چٹائیاں بنا لیتیں ہیں اور احتیاط نہیں کرتیں‘ جب بتایاگیا کہ یہ ہماری ذاتی کھجوروں کی چھڑیوں سے بنی ہوئی ہے تو پھر وہ چٹائی قبول کی۔ ان کا روحانی تعلق یوں تو حضرت تھانوی کے سلسلے سے تھا‘ لیکن شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے اپنی بیعت کا واقعہ یوں سنایا کرتے تھے کہ:
طالب علمی کے دور میں حضرت مدنی مظفر گڑھ تشریف لائے تو میں بھی اپنے والد مرحوم کے ساتھ ان کے جلسے میں پہنچا ‘ حضرت مدنی نے بیان کے بعد لوگوں کو بیعت کرنا شروع کیا تو میں بھی ان کی بیعت ہوگیا ۔ڈاکٹر عبد المجید کے خلیفہٴ مجاز تھے‘ صاحب کرامت بزرگ تھے۔ہم نے بارہا تجربہ کیا کہ جو بھی ان کے ساتھ اپنا روحانی تعلق قائم کرتا وہ حج ضرور کرتا‘ ان کے متعلقین‘ لواحقین دوست احباب میں سے ایک بھی ایسا نہیں جس نے حج کی سعادت حاصل نہ کی ہو ۔ مولانا مرحوم صوفی مزاج ہونے کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور بیباکی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ وفات سے سات آٹھ ماہ قبل انہوں نے بے دینوں کے خلاف ایک پمفلیٹ شائع کیا جس پر حکومت نے ان پر دہشت گردی ایکٹ: ایکٹ‘ اے ‘ ٹی‘ اے کے تحت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے‘ پریس مالک کمپوزنگ مین اور تقسیم کنندہ کو گرفتار کرلیا گیا۔ مولانا کے خلاف گرفتاری کے لئے چھاپے شروع ہوئے‘ مگر گرفتاری کے موضوع پر جب ان سے بات ہوتی تو ایسا لگتا جیسے وہ اس پیرانہ سالی میں پھر سے جوان ہوگئے ہوں‘ انہیں گرفتاری کا ذرہ برابر خوف نہیں تھا‘ پولیس کوشش کے باوجود ان کی گرفتاری میں ناکام رہی اور یوں بالآخر مقدمہ خارج کردیا گیا ۔ مولانا مرحوم کو دینی مدارس قائم کرنے کا بے حد شوق تھا‘ رحیمیہ عابدیہ‘ جامعہ قاسمیہ حفیظ العلوم کے علاوہ بنین وبنات کے بیسیوں مدارس ان کی سرپرستی میں چل رہے ہیں‘ جن سے لاتعداد علماء قراء وحفاظ فیضیاب ہوکر ملک کے مختلف علاقوں میں دینی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ جس طرح ان کی زندگی قابل رشک تھی‘ اسی طرح ان کی وفات بھی قابل رشک تھی‘ کیونکہ رمضان المبارک جیسے مقدس مہینے میں ساتویں روزے کو دن تین بجے وفات ہوئی اور افضل الایام جمعة المبارک دس بجے دن تدفین ہوئی‘ نماز جنازہ صبح آٹھ بجے ہائی سکول نمبر:۱ کے وسیع وعریض میدان میں ادا کی گئی‘ نماز جنازہ جامعہ خیر المدارس درجہ قرآن کے مدرس استاذ القراء قاری عبد الرحیم صاحب نے پڑھائی۔ جنازہ گاہ میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی‘ مبصرین کی رائے کے مطابق ۲۵۰۰۰/ ہزار افراد نماز جنازہ میں شریک ہوئے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کواپنی جوار رحمت میں جگہ دے ۔ آمین․ امام احمد نے سچ کہا تھا کہ ہمارے اور ہمارے مقابل کی سچائی کا فیصلہ ہمارے جنازے کریں گے۔
مولانا مفتی محمد اسماعیل کی المناک شہادت
دہشت گردی کے آسیب نے پچھلے چند سالوں میں ایسی قیمتی جانیں لی ہیں کہ ان کا بدل آنا شاید ناممکن ہو۔ ملک وملت کے نہ جانے کتنے عظیم سرمائے اس افسوس ناک درندگی کا شکار ہوئے‘ کتنے گھرانوں کے روشن چراغ گل ہوئے‘ کتنے بچوں کے سرسے باپ کا سایہ اٹھا‘ کتنی سہاگن اپنے سہاگ سے مرحوم ہوگئیں‘ اور ان واقعات کاایسا لامتناہی تسلسل ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا۔ حال ہی میں ایک تازہ المناک حادثہ ۲۵/ ذو القعدہ ۱۴۲۸ھ بمطابق ۶/دسمبر۲۰۰۷ء جمعرات کے دن کراچی شہر کے قلب میں واقع جامع مسجد طیبہ چاند بی بی روڈ میں پیش آیا ‘ جہاں حضرت مفتی محمد اسماعیل کوسفاک قاتلوں نے بربریت کا نشانہ بناکر انتہائی بے دردی سے شہید کردیا ۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ جو حضرات مولانا مفتی محمد اسماعیل شہید سے واقف ہیں‘ انہیں کبھی اس حقیقت میں ایک فیصد بھی شک نہیں رہا کہ مفتی اسماعیل ہرقسم کی سیاسی سرگرمیوں اور فرقہ واریت سے کوسوں دورانتہائی خاموشی کے ساتھ دین اور علم دین کی خدمت انجام دے رہے تھے‘ کسی قسم کی فرقہ وارانہ عصبیت سے ان کے ادنیٰ تعلق کا تو سوال ہی کیا تھا؟ان کی پوری زندگی فرقہ واریت کے خلاف دین کی بنیادی تعلییمات کے فروغ کے لئے وقف تھی اور وہ کبھی کسی سے ذاتی ‘ گروہی‘ جماعتی یا مسلکی عداوت میں ملوث نہیں ہوئے‘ لیکن دہشت گردی کے جنون نے ایسے بے ضرر انسان کو بھی نہیں بخشا اور ملک وملت کو ایک ایسے جواں سال عالم سے محروم کردیا جو مستقبل کے افق پر امید کے روشن چراغ تھے‘ جن کی صلاحیتوں کے تصور سے اپنے عہد کے افلاس اور قحط الرجال کے احساس میں کمی آتی تھی‘ اور جن کے بارے میں ظالم قاتلوں کو یہ نہیں معلوم کہ انہوں نے ایسے بے ضرر عالم دین کو درندگی کا نشانہ بناکر خود اپنی شقاوت وبدبختی پر مہر ثبت کی ہے۔ حضرت مولانا مفتی محمد اسماعیل  نے کل بتیس (۳۲) سال عمر پائی‘ وطن عزیز کے معروف اور ممتاز دینی ادارہ جامعہ دار العلوم کراچی ۱۴ سے تعلیم کا آغاز کرتے ہوئے ۱۹۹۹ء میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے تحت امتحان میں شرکت کرکے نمایاں کامیابی کے ساتھ سند فراغت حاصل کی۔ اس کے بعد اسلامی فقہ میں خصوصی مہارت (اسپیشلایزیشن) حاصل کرنے کے لئے فقہ وافتاء کی تربیت حاصل کی‘ اور پورے زمانہٴ طالب علمی میں اپنے تمام اساتذہٴ کرام کے منظور نظر رہے۔ مولانا مفتی محمد اسماعیل شہیدعلوم اسلامی کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آراستہ تھے‘ اسلامی علوم کی تکمیل کے بعد انہوں نے میٹرک اور انٹر کامرس بھی امتیازی نمبرات سے پاس کیا۔ اسلامی علوم کی تکمیل اور عصری علوم پر معتد بہ عبور حاصل کرنے کے بعد آپ دین متین کی ترویج واشاعت کی طرف متوجہ ہوئے‘ اور ”مدرسہ حسینیہ“ میں تعلیم وتدریس کی خدمات انجام دینی شروع کیں اور اپنی کمسنی کے باوجود گراں قدر خدمات اس انداز سے انجام دیں کہ آپ کے ہم عصروں میں اس کی مثال نہیں ملتی اور تدریس کے اس ابتدائی سال میں مشکوٰة شریف کے علاوہ دیگر کئی اہم کتابیں آپ کے زیر درس رہیں‘ تدریس کے ایک سال پورا ہونے کے بعد آپ کے مشفق استاذ حضرت مولانا محمد یوسف کرخی صاحب مدظلہ نے اپنے قائم کردہ مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن میں درس نظامی کی تدریس کے لئے آپ کو منتخب فرمایا۔ نوعمری ہی میں تدریس کے مراحل طے کرتے ہوئے مفتی محمد اسماعیل وہاں کے مقبول ترین استاذ شمار ہونے لگے‘ آپ کی بے پناہ صلاحیتوں اور اعلیٰ خصوصیات کو دیکھ کر حضرت مولانا محمد یوسف کرخی صاحب مدظلہم نے آپ کو ناظم تعلیمات کے منصب پر فائز کردیا‘ چنانچہ آخر وقت تک اپنے فرائض اس طرح انجام دیے کہ خود آپ کے استاذ محترم نے آپ کو ادارے کا ”روح رواں“ قرار دیا۔
ساتھ ہی آپ نے فتویٰ نویسی کا سلسلہ بھی محنت اور تحقیق کے ساتھ جاری رکھا ، کئی اہم تحقیقی فتاویٰ کے علاوہ آپ نے انگریزی میں بھی فتاویٰ تحریر فرمائے۔
مفتی محمد اسماعیلتدریسی خدمات کے ساتھ ساتھ افراد سازی کی خدمت بھی انجام دیتے رہے‘ اور مختصر مدت میں اپنے ہم عصروں میں سے کئی افراد کو اپنا ہم خیال بناتے ہوئے ان کے تعاون اور اہل علم کے مشورے سے 51-Bکورنگی نمبر: ۶ میں ایک دینی ادارہ کی بنیاد رکھی جو ”معہد عمار بن یاسر“ کے نام سے آج بھی علاقہ والوں کو دینی علوم سے آراستہ کررہا ہے۔ مفتی صاحب نے دیکھا کہ علاقے والوں کا رجحان عصری علوم کی طرف زیادہ ہے تو آپ نے دینی ماحول میں عصری علوم کے حصول کے لئے ایک اور ادارہ ”اقراء ندوة الاطفال“ کے نام سے قائم فرمایا۔
مذکورہ بالا دونوں اداروں کی تعلیمی خدمات کے ساتھ ساتھ آپ کو خدمت خلق کا بھی زبردست شغف تھا‘ مثلاً: غریب اور ضرورت مند مریضوں کی طبی سہولیات کی فراہمی کے لئے میڈیکل سینٹر اور میٹرنٹی ہوم کے قیام کے لئے ایک رفاہی ادارہ ”عزم خدمت ٹرسٹ“ کے نام سے قائم کیا اور اپنی شہادت تک ان تینوں اداروں کی ذمہ داریاں محض اخلاص اور للہیت کی بنیاد پر انجام دیتے رہے‘ رب کریم سے امید ہے کہ وہ انشاء اللہ ان اداروں کو مفتی صاحب کے لئے تاقیامت صدقہٴ جاریہ اور نجات کا باعث بنائے گا۔ مفتی محمد اسماعیل کی شدید خواہش تھی کہ انہیں باضابطہ طور پر امامت وخطابت کی خدمت کا بھی موقع ملے‘ اس کے لئے وہ کوشش بھی کرتے رہے‘ اس سال رمضان المبارک سے چند روز قبل محکمہٴ اوقاف حکومت سندھ کے زیر انتظام جامع مسجد طیبہ چاند بی بی روڈ میں ان کا اعزازی بنیاد پر تقرر ہوا اور یکم نومبر ۲۰۰۷ء سے باقاعدہ امامت اور خطابت کے فرائض انجام دینا شروع کردیے۔ چند ہی دنوں میں مسجد کے لوگ مفتی صاحب کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ ان سے مانوس ہونے لگے اور نمازیوں کی اکثریت آپ کے پاس آکر مسئلے مسائل معلوم کرتی اور دینی اور علمی معاملات میں آپ سے راہنمائی حاصل کرتی رہتی تھی۔ مفتی صاحب کا معمول یہ تھا کہ صبح مدرسہ عربیہ تعلیم القرآن میں تدریس کے لئے جاتے‘ تدریس سے فارغ ہوکر ظہر کی نماز کے لئے مسجد پہنچتے اور عشاء کی نماز پڑھا کر واپس کورنگی اپنی رہائش گاہ آجاتے اور اس دوران فرصت کے اوقات میں مطالعہ میں مشغول رہتے۔ چنانچہ ۶/دسمبر بروز جمعرات عصر کی نماز کے بعد مسجد کی پہلی منزل پر واقع کمرہ میں مغرب کی نماز کا انتظار کررہے تھے‘ عینی شاہدین کے مطابق اس دوران دہشت گردوں نے آپ کو کمرہ سے نکال کر نیچے مسجد کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑا کرکے آپ پر پے در پے گولیاں چلائیں‘ موقع پر موجود لوگوں نے مفتی صاحب کو زخمی حالت میں ٹھیلے میں لٹاکر چند گز کے فاصلے پر واقع سول ہسپتال لے گئے وہ اس وقت تک ہوش میں تھے اور وہاں موجود لوگوں کے مطابق مفتی صاحب مسلسل کلمہ طیبہ کا ورد کرتے رہے اور ہسپتال پہنچ جانے کے بعد خود اپنے گھر کا ٹیلی فون نمبر ہسپتال کے ذمہ داروں کو دیا تاہم آپریشن تھیٹر میں داخل کئے جانے کے بعد دوران آپریشن تقریباً رات پونے ایک بجے شہادت کا اعلیٰ مقام حاصل کرکے اپنی جان اللہ کے سپرد کردی ۔ مفتی صاحب کے جسم پر اٹھارہ گولیاں شمار کی گئیں‘ درندگی اور بربریت کا یہ اندھا دھند مظاہرہ کرنے والوں کو کیا پتا کہ انہوں نے آن کی آن میں کیسی شخصیت کو ملک وملت سے چھین لیا ہے۔ مفتی محمد اسماعیل اگرچہ شہرت اور نام و نمود کے رائج الوقت اسالیب سے بیگانہ رہے‘ لیکن اس نوعمری میں ایسے علم وفضل اور سیرت وکردار کے حامل تھے اور ان میں ایسی مقناطیسی کشش تھی کہ وہ علمی حلقوں کے علاوہ اپنے حلقہ ٴ احباب میں بڑے ہی مقبول اور ہر دل عزیز تھے‘ جب ان کا چہرہ ایک نو شگفتہ پھول کی طرح چشم تصور میں آتا ہے تو عقل حیران ہوتی ہے کہ صلح وآشتی اور امن واخوت کا یہ پیکر جس کی ایک ایک ادا ہر ایک کے لئے محبت کا پیغام تھی اور جس کے شفاف سینے پر کسی کی عداوت یا بغض کا کوئی ادنیٰ سادھبہ نہیں تھا‘ پھر انہیں کیوں قتل کیا گیا؟ یہی وجہ ہے کہ ان کی شہادت پر علاقے کے لوگوں کو جہاں غم لاحق ہوا ‘ وہاں ان کے اساتذہ وطلبہ اور ساتھیوں کا اضطراب دیدنی تھا‘ شہر کے معززین اور اہل علم حضرات آتے رہے اور پس ماندگان سے ہمدردی اور افسوس کا اظہار کرتے رہے۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب (جنہوں نے حضرت شہید کا نکاح پڑھایا تھا) نے ان کی شہادت پر انتہائی رنج وغم کا اظہار فرماتے ہوئے ورثاء کو تسلی دی اور رفع درجات کی دعا فرمائی۔نیز ان حضرات کے علاوہ دار العلوم کراچی اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے دیگر اکابر اساتذہ کرام نے بھی مختلف مواقع پر ورثاء سے تعزیت کا اظہار فرمایا۔ مولانا نے اپنے سوگوار والدین اور بھائیوں اور بہنوں کے علاوہ بیوہ اور تین بچے اپنے پیچھے چھوڑے‘ بچوں میں سب سے بڑی بیٹی ہے جس کی عمر ساڑھے تین سال ہے‘ اس سے چھوٹے دوبیٹے ہیں‘ آخری بیٹا صرف ایک مہینہ پانچ دن کا تھا کہ ظالم قاتلوں نے باپ کے پُرشفقت سائے سے ان معصوموں کو محروم کردیا۔ آپ کی مختصرسی زندگی ہر اس شخص کے لئے ایک سبق ہے جو اپنی عمر کے لمحات سے کام لینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ شہید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں اور آپ کے پسماندگان کو صبر جمیل اور اجر جزیل سے سرفراز فرمائیں۔ آمین․
آخری سطور میں حضرت شہید کی شہادت کے پس منظر سے متعلق ایک اہم چیز کی وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں وہ یہ ہے کہ مفتی اسماعیل کی شہادت کے بعد اگلے روز بعض اخبارات نے ان کی شہادت کو قدیمی مسجد آرام باغ کے تنازع کا نتیجہ قرار دیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہید کا قدیمی مسجد سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی اس تنازع میں ان کا کسی قسم کا کوئی کردار ودخل تھا اور مذکورہ طیبہ مسجد ہر قسم کے تنازع اور فساد سے پاک ہے اور کبھی اس مسجد میں کسی قسم کا کوئی فتنہ وتنازع پیدا نہیں ہوا۔ بہرحال ان کی شہادت ‘ دشمنان اسلام کی ایک اور بزدلانہ کارروائی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ ان کے قتل کے پیچھے انہیں بدکرار لوگوں کا ہاتھ ہے جنہوں نے اس سے قبل جید علماء کرام اور بزرگوں کو شہید کیا۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , محرم الحرام ۱۴۲۹ھ فروری۲۰۰۸ء, جلد 70, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: قہر الٰہی سے بچنے کا راستہ
Flag Counter