Deobandi Books

ماہنامہ دار العلوم دیوبند محرم الحرام 1438 ہجری مطابق اکتوبر 2016ء

ہ رسالہ

8 - 9
خیرالکلام فی کشف أوہام الأعلام (۱۱)

 
از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن

 

غزوة (سریة) الرجیع نہ کہ غزوة (سریة) بئر معونة

$ حضرت زید بن الدَثِنَة رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) ”الاصابة فی تمییز الصحابة“ میں فرماتے ہیں:

وکان فی غزوةِ بئرِ معونةَ، فَأسَرَہُ الْمُشْرکون، وقَتَلَتْہُ قریشٌ بِالتَّنْعِیم․ (الاصابة، ص:۵۶۶، ج:۱، دارالفکر: بیروت)

”آپ رضی اللہ عنہ غزوئہ بئرمعونة میں شریک تھے، پس مشرکین نے آپ کو قیدی بنایا اور قریش نے آپ کو مقامِ تنعیم میں شہید کردیا“

بندہ کہتا ہے:

یہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کا وہم ہے، کیوں کہ یہ غزوئہ (سریہٴ) بئرمعونہ کا واقعہ نہیں ہے؛ بل کہ غزوة (سریة) الرجیع کا واقعہ ہے، جیساکہ ”صحیح بخاری“، کتاب الجہاد، باب ہل یستأسر الرجل الخ، ص:۴۲۷، ۴۲۸، ج:۱، کتاب المغازی، باب بلا ترجمة قبل باب شہود الملائکة بدرا، ص:۵۶۸، ج:۲ اور کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع الخ، ص:۵۸۵، ج:۲ وغیرہ کتب حدیث وسِیَر کی روایات سے واضح ہے۔

اور اہلِ سیرومغازی کی طرح حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ بھی دونوں غزوات: سرایا کو الگ الگ مانتے ہیں؛ چناں چہ صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة الرجیع ورعل وذکوان وبئر معونة وحدیث عضل والقارة وعاصم بن ثابت وخبیب وأصحابہ کے ذیل میں فتح الباری میں ہے:

﴿تنبیہ﴾: سیاق ہذہ الترجمة یوہم أن غزوة الرجیع وبئر معونة شيء واحد، ولیس کذلک کما أوضحتہ، فغزوة الرجیع کانت سریة عاصم وخبیب فی عشرة أنفس وہی مع عضل والقارة، وبئر معونة کانت سریة القراء السبعین وہی مع رعل وذکوان․ (فتح الباری، ص:۱۶۳، ج:۹، دارطیبة: الریاض)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمر میں بڑے ہیں یا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ؟

$ ملا علی قاری رحمة اللہ علیہ (وفات:۱۰۱۴ھ) ”مرقاة المفاتیح شرح مشکاة المصابیح“ میں تحریر فرماتے ہیں:

وکان صلی اللہ علیہ وسلم أسنّ منہ (أی من عمّہ وأخیہ من الرضاعة: حمزة بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ)․ (مرقاة المفاتیح، کتاب النکاح، باب المحرمات، الفصل الأول، حدیث عليّ رضی اللّٰہ عنہ، ص:۲۲۴، ج:۶، امدادیہ: ملتان)

”اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ سے عمر میں بڑے تھے۔“

بندہ کہتا ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے چچا حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ سے عمر میں بڑے ہونے کا قول وہم ہے؛ اس لیے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں علیٰ اختلاف القولین دو یا چار سال بڑے تھے۔ علامہ عزالدین ابن الاثیر جزری رحمة اللہ علیہ (۵۵۵- ۶۳۰ھ) وغیرہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دوسال بڑے ہونے کے قول کو ”اصح“ قرار دیا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) ”الاصابة فی تمییز الصحابہ“ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:

ولد قبل النبی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بسنتین وقیل: بأربع․ (الاصابة، ص:۳۵۳، ۳۵۴، ج:۱، دارالفکر: بیروت)

علامہ عزالدین ابن الاثیر جزری رحمة اللہ علیہ (۵۵۵-۶۳۰ھ) ”اسد الغابة فی معرفة الصحابة“ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:

وکان حمزة رضی اللّٰہ عنہ وأرضاہ أسنّ من رسول اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم بسنتین، وقیل: بأربع سنین، والأول أصح․ (اسد الغابة، ص:۶۷، ج:۲، العلمیة: بیروت)

علامہ ابن عبدالبر مالکی رحمة اللہ علیہ (اصح قول کے مطابق ۳۶۸-۴۶۳ھ) ”الاستیعاب فی معرفة الأصحاب“ میں حضرت حمزہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کے ترجمہ میں فرماتے ہیں:

کان أسنّ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم بأربع سنین، و ہذا لایصح عندی؛ لأن الحدیث الثابت أن حمزة و عبد اللّٰہ بن عبدالأسد أرضعتہما ثویبة مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم الا أن تکون أرضعتہما فی زمانین․

وذکر البکائی عن ابن اسحاق قال: کان حمزة أسنّ من رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وآَہ وسلم بسنتین․ (الاستیعاب، ص:۴۲۳، ۴۲۴، ج:۱، العلمیة: بیروت)

”مرقاة المفاتیح“ کی عبارت میں صیغہٴ صلاة وسلام: صلی اللہ علیہ وسلم، ”کَانَ“ کی ضمیر مرفوع متصل کے بعد ہونے کی بجائے ”مِنْہُ“ کی ضمیر مجرور متصل کے بعد ہوتا، یعنی وَکَانَ أسَنَّ مِنْہُ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ہوتا، تو کلام صحیح ہوتا کہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں بڑے تھے۔

حضرت علی نہیں، حضرت جعفررضی اللہ عنہما کے حوالے کی تھی

$شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی رحمہ اللہ (۱۳۰۵-۱۳۶۹ھ) فرماتے ہیں:

عربوں میں اَقوامِ یونان کی طرح دُختر کُشی کی بے ہودہ رسم، قدیم زمانے سے جاری تھی اور وہ اِس بے رحمی اور سفّاکی کے اِس درجہ خوگر ہوگئے تھے کہ اُن کے خیال میں یہ کوئی عیب بھی نہ رہا تھا۔ جس وقت قرآن نے دارِ آخرت کا ہول ناک منظر اُن کے سامنے اِن الفاظ میں پیش کیا:

وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُئِلَتْ  بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ (التکویر:۸،۹)

(اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ پر قتل کی گئی تھی؟)

تو اُن کو اپنی اولاد سے گزر کر غیروں کی اولاد کے ساتھ ایسا رشتہٴ محبت واُلفت پیدا ہوگیا کہ عُمرة القضا سے فارغ ہوکر، بہ وقت واپسی مدینہ طیبہ، حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی لڑکی پر تین صحابیوں کی نِزاع قائم ہوگئی۔ حضرت علی، حضرت جعفر اور حضرت زید رضی اللہ عنہم میں سے ہر ایک اُس کا حقِّ حضانت (پرورش) اپنے لیے ثابت کرتا تھا اور ایک جو دلیل پیش کرتا تھا، دوسرا اُس کو رَد کردیتا تھا، یہاں تک کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ قاعدئہ شرعی لڑکی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کرکے، حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کو أشبہتَ خَلقی وخُلُقی اور حضرت زید کو أنت أخونا ومولانا فرماکر تسلی دی۔ (مقالاتِ عثمانی، ص:۲۴۲،۲۴۳، دارالمولفین: دیوبند، طبع اوّل:۱۴۱۳ھ)

بندہ کہتاہے:

لڑکی کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیاتھا، اس نقل میں علامہ شبیراحمد عثمانی رحمہ اللہ کو وہم ہوا ہے۔ درحقیقت اس لڑکی کی خالہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں؛ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالہ کو بہ منزلہٴ امّ قرار دے کر لڑکی حضرت جعفررضی اللہ عنہ کے حوالے کی تھی، نہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے۔ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

․․․․․․ فَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، فَتَبِعَتْہُم ابْنَةُ حَمْزَةَ یَا عَمِّ یَا عَمِّ، فَتَنَاوَلَہَا عَلِیٌّ فَأَخَذَ بِیَدِہَا وَقَالَ لِفَاطِمَةَ: دُونَکِ ابْنَةَ عَمِّکِ حَمَلَتُہَا (حمّلیہا)․ فَاخْتَصَمَ فِیہَا عَلِیٌّ وَزَیْدٌ وَجَعْفَرٌ․ فَقَالَ عَلِیٌّ: أَنَا أَحَقُّ بِہَا وَہِیَ بِنْتُ عَمِّی․ وَقَالَ جَعْفَرٌ: بنتُ عَمِّی وَخَالَتُہَا تَحْتِی․ وَقَالَ زَیْدٌ: بنتُ أَخِی․ فَقَضَی بِہَا النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِہَا وَقَالَ: الخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الأُمِّ․ وَقَالَ لِعَلِیٍّ: أَنْتَ مِنِّی وَأَنَا مِنْکَ․ وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: أَشْبَہْتَ خَلْقِی وَخُلُقِی․ وَقَالَ لِزَیْدٍ: أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلاَنَا․ (صحیح بخاری، کتاب الصلح، باب کیف یکتب الخ، ص:۳۷۲، ج:۱، کتاب المغازی، باب عمرة القضاء، ص:۶۱۰، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”فتح الباری“ میں ہے:

قولہ: ”فقضی بہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم لخالتہا“ فی حدیث ابن عباس المذکور (فی ”شرف المصطفی“ لابی سعید وفی ”لاکلیل“ للحاکم) فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: جعفر أولیٰ بہا․ وفی حدیث علي عند أبی داود وأحمد أما الجاریة فلأقضی بہا لجعفر․ وفی روایة أبی سعید السکری: ادفعاہا الی جعفر فانہ أوسع منکم․ وہذا سبب ثالث․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب عمرة القضاء، ص:۵۷۸، ۵۷۹، ج:۷، دارالریان: القاہرة)

ملحوظہ:

دارالریان:القاہرة کی مطبوعہ (الطبعة الثانیة: ۱۴۰۹ھ/۱۹۸۸/) ”فتح الباری“ کے نسخہ میں کتاب الصلح کی روایت میں سقوط واقع ہوا ہے، جس کی وجہ سے کسی کو وہم ہوسکتا ہے، جو ”مقالاتِ عثمانی“ میں ہوا ہے؛ چناں چہ مذکورہ ”فتح الباری“ میں روایت اس طرح ہے:

․․․․ فاختصم فیہا عليٌّ وزیدٌ وجعفرٌ․ فقال عليّ: أنا أحقُّ بہا وہی ابنة عمّی وحالتُہا تحتی․ وقال زیدٌ: ابنة أخی․ فقضٰی بہا النبيُّ صلی اللہ علیہ وسلم لخالتہا وقال: الخالة بمنزلة الأمّ․․․ (فتح الباری، ص:۳۵۸، ج:۵، دارالریان: القاہرة)

یہاں وہی ابنة عمّی کے بعد وقال جعفرٌ: ابنة عمّی ساقط ہوگیا ہے۔

$$$
Flag Counter