Deobandi Books

ماہنامہ دار العلوم دیوبند شوال-ذيقعده 1437 ہجری مطابق جولائی-اگست 2016ء

ہ رسالہ

11 - 13
خیرالکلام فی کشف أوہام الأعلام (۹)

از: مولانا مفتی عمرفاروق لوہاروی
شیخ الحدیث دارالعلوم، لندن

درج ذیل حدیث کے مقاماتِ تخریج کی نشان دہی میں اور یہ کون سی
طویل حدیث کا جزء ہے؟ اس کی تعیین میں واقع ہونے والے اوہام

$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

باب الارْتدافِ علیٰ الدَّابّةِ․ حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو صَفْوَانَ، عَنْ یُونُسَ بْنِ یَزِیدَ، عَنِ ابْنِ شِہَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا-: أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَیٰ إِکَافٍ عَلَیْہِ قَطِیفَةٌ فَدَکِیَّةٌ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ وَرَائَہُ․ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب الارتداف علی الدابة، ص:۸۸۱، ۸۸۲، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”سوار کا جانور پر دوسرے کو اپنے پیچھے سوار کرنے کے بیان میں یہ باب ہے․․․․․ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گدھے پر، پالان پر سوار ہوئے، اس پر فَدَک کی بنی ہوئی روئیں دار چادر تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے اسامہ رضی اللہ عنہ کو سوار کیا۔“

(۱)علامہ ابن الملقّن رحمة اللہ علیہ کا وہم

علامہ ابن الملقّن رحمة اللہ علیہ (۷۲۳-۸۰۴ھ) ”التوضیح لشرح الجامع الصحیح“ میں فرماتے ہیں:

ہذا الحدیث سلف فی الحج․ (التوضیح، کتاب اللباس، باب الارتداف علی الدابة، ص:۲۱۹، ج:۲۸، وزارة الأوقاف: قطر)

”یہ حدیث کتاب الحج میں گزری۔“

بندہ کہتا ہے:

یہ علامہ ابن الملقّن رحمة اللہ علیہ کا وہم ہے؛ اس لیے کہ یہ حدیث کتاب الحج میں قطعاً نہیں گزری۔ ہاں! کتاب الحج کی ایک روایت میں بے شک وارد ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف بنے تھے؛ لیکن وہ حجة الوداع کے موقع کی بات ہے، عرفات سے مزدلفہ کے راستے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ردیف بنایا تھا:

حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِیلُ بْنُ جَعْفَرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِی حَرْمَلَةَ عَنْ کُرَیْبٍ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَیْدٍ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُم- أَنَّہُ قَالَ: رَدِفْتُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مِنْ عَرَفَاتٍ، فَلَمَّا بَلَغَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ الشِّعْبَ الأَیْسَرَ الَّذِی دُونَ المُزْدَلِفَةِ أَنَاخَ، فَبَالَ، ثُمَّ جَاءَ فَصَبَبْتُ عَلَیْہِ الوَضُوءَ، فَتَوَضَّأَ وُضُوءً خَفِیفًا، فَقُلْتُ: الصَّلاَةُ (الصلاةَ) یَا رَسُولَ اللَّہِ، قَالَ: الصَّلاَةُ أَمَامَکَ، فَرَکِبَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَی المُزْدَلِفَةَ، فَصَلَّی، ثُمَّ رَدِفَ الفَضْلُ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ غَدَاةَ جَمْعٍ ․․․․․ (صحیح بخاری، کتاب الحج، باب النزول بین عرفة وجمع، ص:۲۲۶، ج:۱، قدیمی: کراچی)

اور اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم قصواء اونٹنی پر سوار تھے، جیساکہ ”صحیح مسلم“ وغیرہ میں صراحتاً منقول ہے:

․․․․․ ثُمَّ رَکِبَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ حَتَّی أَتَی الْمَوْقِفَ، فَجَعَلَ بَطْنَ نَاقَتِہِ الْقَصْوَاءِ إِلَی الصَّخَرَاتِ، وَجَعَلَ حَبْلَ الْمُشَاةِ بَیْنَ یَدَیْہِ، وَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، فَلَمْ یَزَلْ وَاقِفًا حَتَّی غَرَبَتِ الشَّمْسُ، وَذَہَبَتِ الصُّفْرَةُ قَلِیلًا حَتَّی غَابَ الْقُرْصُ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ خَلْفَہُ، وَدَفَعَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَقَدْ شَنَقَ لِلْقَصْوَاءِ الزِّمَامَ، حَتَّی إِنَّ رَأْسَہَا لَیُصِیبُ مَوْرِکَ رَحْلِہِ، وَیَقُولُ بِیَدِہِ الْیُمْنَیٰ: ”أَیُّہَا النَّاسُ! السَّکِینَةَ السَّکِینَةَ“ کُلَّمَا أَتَیٰ حَبْلًا مِنَ الْحِبَالِ أَرْخَیٰ لَہَا قَلِیلًا، حَتَّی تَصْعَدَ، حَتَّی أَتَی الْمُزْدَلِفَةَ․․․․․ (الکتب الستة، صحیح مسلم، کتاب الحج، باب حجة النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم، حدیث: ۲۹۵۰، ص:۸۸۱، دارالسلام: الریاض)

جب کہ مبحوث عنہ حدیث میں مدینہ منورہ کا قصہ ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو گدھے پر ردیف بناکر حضرت سعد بن عُبَادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے، جیساکہ ”صحیح بخاری“ کی حسب ذیل مفصل روایت میں منقول ہے:

حَدَّثَنَا أَبُو الیَمَانِ قال: أَخْبَرَنَا شُعَیْبٌ، عَنِ الزُّہْرِیِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِی عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَیْرِ أَنَّ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُمَا- أَخْبَرَہُ أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ رَکِبَ عَلَی حِمَارٍ عَلَیٰ (علیہ) قَطِیفَةٌٍ فَدَکِیَّةٌٍ، وَأَرْدَفَ أُسَامَةَ بْنَ زَیْدٍ وَرَائَہُ یَعُودُ سَعْدَ بْنَ عُبَادَةَ فِی بَنِی الحَارِثِ بْنِ الخَزْرَجِ قَبْلَ وَقْعَةِ بَدْرٍ․ قَالَ: حَتَّی مَرَّ بِمَجْلِسٍ فِیہِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ، وَذَلِکَ قَبْلَ أَنْ یُسْلِمَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ، فَإِذَا فِی المَجْلِسِ أَخْلاَطٌ مِنَ المُسْلِمِینَ وَالمُشْرِکِینَ عَبَدَةِ الأَوْثَانِ وَالیَہُودِ وَالمُسْلِمِینَ، وَفِی المَجْلِسِ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَةَ، فَلَمَّا غَشِیَتِ المَجْلِسَ عَجَاجَةُ الدَّابَّةِ خَمَّرَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ أَنْفَہُ بِرِدَائِہِ ثُمَّ قَالَ: لاَ تُغَبِّرُوا عَلَیْنَا․ فَسَلَّمَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَیْہِمْ، ثُمَّ وَقَفَ فَنَزَلَ فَدَعَاہُمْ إِلَی اللَّہِ وَقَرَأَ عَلَیْہِمُ القُرْآنَ، وَقَالَ (فقال) عَبْدُ اللَّہِ بْنُ أُبَیٍّ ابْنُ سَلُولَ: أَیُّہَا المَرْءُ، إِنَّہُ لاَ أَحْسَنَ مِمَّا تَقُولُ إِنْ کَانَ حَقًّا فَلاَ تُؤْذِنَا (فلا توٴذنا) بِہِ فِی مَجْلِسِنَا، ارْجِعْ إِلَی رَحْلِکَ فَمَنْ جَائَکَ فَاقْصُصْ عَلَیْہِ․ فَقَالَ عَبْدُ اللَّہِ بْنُ رَوَاحَةَ: بَلَیٰ یَا رَسُولَ اللَّہِ، فَاغْشَنَا بِہِ فِی مَجَالِسِنَا، فَإِنَّا نُحِبُّ ذَلِکَ․ فَاسْتَبَّ المُسْلِمُونَ وَالمُشْرِکُونَ وَالیَہُودُ حَتَّی کَادُوا یَتَثَاوَرُونَ، فَلَمْ یَزَلِ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخَفِّضُہُمْ حَتَّی سَکَنُوا (سَکتوا)․ ثُمَّ رَکِبَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ دَابَّتَہُ، فَسَارَ حَتَّی دَخَلَ عَلَی سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ، فَقَالَ لَہُ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: یَا سَعْدُ، أَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالَ أَبُو حُبَابٍ یُرِیدُ عَبْدَ اللَّہِ بْنَ أُبَیٍّ قَالَ کَذَا وَکَذَا، قَالَ سَعْدُ بْنُ عُبَادَةَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، اعْفُ عَنْہُ وَاصْفَحْ عَنْہُ، فَوَالَّذِی أَنْزَلَ عَلَیْکَ الکِتَابَ لَقَدْ جَاءَ اللَّہُ بِالحَقِّ الَّذِی نَزَّلَ (أَنْزَلَ) عَلَیْکَ، وَلَقَدِ اصْطَلَحَ أَہْلُ ہَذِہِ البُحَیْرَةِ عَلَیٰ أَنْ یُتَوِّجُوہُ فَیُعَصِّبُوہُ بِالعِصَابَةِ، فَلَمَّا أَبَی اللَّہُ ذَلِکَ بِالحَقِّ الَّذِی أَعْطَاکَ اللَّہُ شَرِقَ بِذَلِکَ، فَذَلِکَ فَعَلَ بِہِ مَا رَأَیْتَ․ فَعَفَا عَنْہُ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ․ (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، باب قولہ ﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا﴾، ص:۶۵۵، ۶۵۶، ج:۲، کتاب المرضی، باب عیادة المریض راکبًا وماشیًا وردفًا علی الحمار، ص:۸۴۵، ۸۴۶، ج:۲، کتاب الأدب، باب کنیة المشرک، ص:۹۱۶، ج:۲، کتاب الاستئذان، باب التسلیم فی مجلس فیہ أخلاط من المسلمین والمشرکین، ص:۹۲۴، ۹۲۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)

(۲)علامہ عینی رحمة اللہ علیہ کے دو وہم

علامہ عینی رحمة اللہ علیہ (۷۶۲-۸۵۵ھ) ”عمدة القاری شرح صحیح البخاری“ میں مبحوث عنہ حدیث الباب کے متعلق فرماتے ہیں:

والحدیث طرف من حدیث طویل مضی فی الجہاد عن قتیبة وفی الطب عن یحیی بن بکیر وسیأتی فی الأدب والاستئذان․ (عمدة القاری، کتاب اللباس، باب الارتداف علی الدابة، ص:۷۶، ج:۲۲، داراحیاء التراث العربی: بیروت)

”او ریہ حدیث اس طویل حدیث کا جزء ہے، جو کتاب الجہاد میں قتیبہ اور کتاب الطب میں یحییٰ بن بکیر کے طُرُق سے گزرچکی اور عنقریب کتاب الأدب اور کتاب الاستئذان میں آئے گی۔“

بندہ کہتا ہے:

علامہ عینی رحمة اللہ علیہ کو یہاں دو وہم ہوگئے:

پہلا وہم یہ کہ انھوں نے مبحوث عنہ حدیث الباب کو کتاب الجہاد میں قتیبہ کے طریق سے مروی طویل حدیث کا جزء قرار دیا؛ حالاں کہ کتاب الجہاد میں قتیبہ کے طریق سے اتنا ہی حصہ مروی ہے، جتنا یہاں ہے؛ بل کہ لفظ ”فَدَکِیَّةٌ“ کتاب الجہاد کی حدیث میں نہیں ہے، جو حدیث الباب میں ہے۔ کتاب الجہاد میں منقول حدیث حسب ذیل ہے:

حَدَّثَنَا قُتَیْبَةُ، حَدَّثَنَا أبو صفوانَ، عَنْ یونسَ بنِ یزیدَ، عن ابنِ شہابٍ، عَنْ عُروةَ، عَن أسامة بنِ زیدٍ - رضی اللّٰہ عنہما - أنّ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم رَکِبَ عَلیٰ حمارٍ علیٰ اکافٍ عَلَیْہِ قَطِیْفَةٌ، وَأَرْدَفَ أسامةَ وَرَائَہُ․ (صحیح بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الردف علی الحمار، ص: ۴۱۹، ج:۱، قدیمی: کراچی)

دوسرا وہم یہ کہ انھوں نے حدیث الباب کے متعلق ذکر فرمایا کہ یہ اس طویل حدیث کا جزء ہے، جو کتاب الطب میں یحییٰ بن بکیر کے طریق سے گزرچکی؛ حالاں کہ یہ حدیث سرے سے کتاب الطب میں ہے ہی نہیں۔ ہاں کتاب المرضی، باب عیادة الریض راکبًا وماشیًا وردفًا علی الحمار، ص:۸۴۵، ۸۴۶، ج:۲، قدیمی: کراچی میں یحییٰ بن بکیر سے مطول مروی ہے۔

(۳)حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ کے تین اوہام

حافظ ابن حجرعسقلانی رحمة اللہ علیہ (۷۷۳-۸۵۲ھ) ”فتح الباری بشرح صیح البخاری“ میں مبحوث عنہ حدیث الباب کے متعلق فرماتے ہیں:

قولہ: ”رکب علی حمار“ ہو طرف من حدیث طویل تقدم أصلہ فی العلم، ویأتی بہذا السند فی الاستئذان ثم فی الرقاق․ (فتح الباری، کتاب اللباس، باب الارتداف علی الدابة، ص:۴۸۴، ج:۱۳، دارطیبة: الریاض)

”یہ اس طویل حدیث کا جزء ہے، جس کی اصل ”کتاب العلم“ میں گزرچکی اور اسی سند سے ”کتاب الاستئذان“ پھر ”کتاب الرقاق“ میں آ ئے گی۔“

بندہ کہتا ہے:

یہاں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کو تین وہم ہوئے ہیں:

پہلا وہم یہ ہے کہ انھوں نے حدیث الباب کے متعلق لکھا کہ یہ اس طویل حدیث کا جزء ہے، جس کی اصل کتاب العلم میں گزرچکی؛ حالاں کہ اس حدیث کی اصل کتاب العلم میں نہیں؛ بل کہ کتاب التفسیر، باب قولہ: ﴿وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْآ اَذًی کَثِیْرًا﴾، ص:۶۵۵، ۶۵۶، ج:۲ اور کتاب المرضی، باب عیادة المریض راکبًا وماشیًا وردفًا علی الحمار، ص:۸۴۵، ۸۴۶، ج:۲، قدیمی: کراچی میں گزری ہے اور کتاب الأدب، باب کنیة المشرک، ص:۹۱۶، ج:۲ نیز کتاب الاستئذان، باب التسلیم فی مجلس فیہ أخلاط من المسلمین والمشرکین، ص:۹۲۴، ۹۲۵، ج:۲، قدیمی: کراچی میں آئے گی۔

بندہ کا ناقص خیال یہ ہے کہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث الباب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حمار پر سوار ہونا اور ردیف بنانا مروی ہے، غالباً اس سے حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ کا ذہن کتاب العلم کی اس حدیث کی طرف چلا گیا، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف کے ساتھ رَحْل: کجاوے پر ہونا مروی ہے۔ رَحْل: کجاوہ، کا زیادہ اتر استعمال اونٹ کے لیے ہوتا ہے۔ اس سے بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کے ساتھ اونٹ پر سوار تھے؛ لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ نے ”کتاب الجہاد“ کی روایت کے پیش نظر ”کتاب العلم“ کی روایت کے ذیل میں لکھا ہے کہ اس وقت حضرت معاذ رضی اللہ عنہ گدھے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف تھے؛ اس لیے انھوں نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث الباب کے متعلق تحریر فرمادیا کہ یایہ اس طویل حدیث کا جزء ہے، جس کی اصل ”کتاب العلم“ میں گزرچکی؛ حالاں کہ حدیث الباب میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو ردیف بنانے کا ذکر ہے؛ جب کہ کتاب العلم والی حدیث میں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کا ردیف ہونا مروی ہے اور دونوں حدیثوں کا مضمون بھی مختلف ہے۔ حدیث الباب تو زیر نظر مضمون کے آغاز میں پڑھ لی، ذیل میں ”کتاب العلم“ والی حدیث پڑھیے:

حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاہِیمَ قَالَ: أنَا مُعَاذُ بْنُ ہِشَامٍ قَالَ: حَدَّثَنِی أَبِی عَنْ قَتَادَةَ قَالَ: ثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمُعاذٌ رَدِیفُہُ عَلَی الرَّحْلِ قَالَ: یَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ قَالَ: یَا مُعَاذُ، قَالَ: لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ ثَلاَثًا قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ یَشْہَدُ أَنْ لاَ إِلٰہَ إِلَّا اللَّہُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّہِ صِدْقًا مِنْ قَلْبِہِ إِلَّا حَرَّمَہُ اللَّہُ عَلَی النَّارِ قَالَ: یَا رَسُولَ اللَّہِ، أَفَلاَ أُخْبِرُ بِہِ النَّاسَ فَیَسْتَبْشِرُوا․ قَالَ: إِذًا یَتَّکِلُوا، وَأَخْبَرَ بِہَا مُعَاذٌ عِنْدَ مَوْتِہِ تَأَثُّمًا․ (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب من خص بالعلم قوما دون قوم کواہیة أنلا یفہموا، ص:۲۴، ج:۱، قدیمی: کراچی)

دوسرا وہم یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا کہ ویأتی بہذا السند فی الاستئذان․ ” اور اسی سند سے کتاب الاستئذان میںآ ئے گی۔“ یہاں یہ بات تو تسلیم ہے کہ حدیث الباب کی اصل کتاب الاستئذان میں ہے، جیساکہ ماقبل میں مذکور ہوا؛ لیکن کتاب الاستئذان میں حدیث الباب کی سند سے مروی نہیں ہے؛ البتہ حدیث الباب اسی سند سے کتاب الجہاد والسیر، باب الردف علی الحمار، ص:۴۱۹، ج:۱، قدیمی: کراچی میں گزرچکی ہے۔

حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث - جسے حافظ رحمہ اللہ نے غالباً حدیث الباب کی اصل ٹھہرالیا ہے - بھی کتاب الاستئذان میں ہے، لیکن اس کی سند کتاب العلم والی حدیث کی سند سے مختلف ہے اور حدیث الباب کی سند سے تو مختلف ہے ہی؛ چناں چہ کتاب الاستئذان والی حدیث یہ ہے:

حَدَّثَنَا مُوسَی بْنُ إِسْمَاعِیلَ قال: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ مُعَاذٍ - رضی اللّٰہ عنہما- قَالَ: أَنَا رَدِیفُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: یَا مُعَاذُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ - ثُمَّ قَالَ مِثْلَہُ ثَلاَثًا- ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللَّہِ عَلَی العِبَادِ؟ قُلْتُ: لاَ․ قَالَ: حَقُّ اللَّہِ عَلَی العِبَادِ: أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، فَقَالَ: یَا مُعَاذُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ العِبَادِ عَلَی اللَّہِ إِذَا فَعَلُوا ذَلِکَ؟ أَلَّا یُعَذِّبَہُمْ․ (صحیح بخاری، کتاب الاستئذان، باب من أجاب بلبیک وسعدیک، ص:۹۲۷، ج:۲، قدیمی: کراچی)

تیسرا وہم یہ ہے کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے حدیث الباب کی اصل کے ”کتاب الرقاق“ میں آنے کاذکر فرمایا ہے؛ حالاں کہ حدیث الباب کتاب الرقاق میں سرے سے ہے ہی نہیں۔ ہاں حضرت معاذ رضی اللہ عنہ والی حدیث - جس کو حافظ رحمہ اللہ نے غالباً حدیث الباب کی اصل خیال کرلیا ہے - کتاب الرقاق میں ہے؛ لیکن سند الگ ہے:

حَدَّثَنَا ہُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قال: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ قال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ - قَالَ: بَیْنَا أَنَا رَدِیفُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ إِلَّا آخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: یَا مُعَاذُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ (یَا) رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللَّہِ عَلَی عِبَادِہِ؟ قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ اللَّہِ عَلَی عِبَادِہِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ العِبَادِ عَلَی اللَّہِ إِذَا فَعَلُوہُ؟ قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ العِبَادِ عَلَی اللَّہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَہُمْ․ (صحیح بخاری، کتاب الرقاق، باب من جاہد نفسہ فی طاعة اللّٰہ، ص:۹۶۲، ج:۲، قدیمی: کراچی)

اور جس سند کے ساتھ حضرت مُعاذ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث کتاب الرقاق میں ہے، اسی سند سے یہ حدیث کتاب اللباس، باب ارداف الرجل خلف الرجل میں گزری ہے:

حَدَّثَنَا ہُدْبَةُ بْنُ خَالِدٍ قال: حَدَّثَنَا ہَمَّامٌ قال: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ قال: حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِکٍ عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ - رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ - قَالَ: بَیْنَا أَنَا رَدِیفُ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ لَیْسَ بَیْنِی وَبَیْنَہُ إِلَّا آخِرَةُ الرَّحْلِ، فَقَالَ: یَا مُعَاذُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ (یَا) رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ (یَا) رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ بنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ (یَا) رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ اللَّہِ عَلَی عِبَادِہِ؟ قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ اللَّہِ عَلَی عِبَادِہِ أَنْ یَعْبُدُوہُ وَلاَ یُشْرِکُوا بِہِ شَیْئًا، ثُمَّ سَارَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: یَا مُعَاذُ بْنَ جَبَلٍ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ (یَا) رَسُولَ اللَّہِ وَسَعْدَیْکَ، قَالَ: ہَلْ تَدْرِی مَا حَقُّ العِبَادِ عَلَی اللَّہِ إِذَا فَعَلُوہُ؟ قُلْتُ: اللَّہُ وَرَسُولُہُ أَعْلَمُ، قَالَ: حَقُّ العِبَادِ عَلَی اللَّہِ أَنْ لاَ یُعَذِّبَہُمْ․ (صحیح بخاری، کتاب اللباس، باب ارداف الرجل خلف الرجل وفی نسخة باب بلا ترجمة، ص:۸۸۲، ج:۲، قدیمی: کراچی)

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کے نزدیک کتاب العلم والی حدیث اور کتاب اللباس، کتاب الاستئذان، کتاب الرقاق وغیرہ والی حدیث ایک نہیں؛ بلکہ یہ دو الگ الگ حدیثیں ہیں۔ کتاب العلم والی حدیث لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللہ کی شہادت سے متعلق ہے اور کتاب اللباس، کتاب الاستئذان، کتاب الرقاق، کتاب الجہاد والسیر، کتاب التوحید والی حدیث حق اللّٰہ العباد وحق العباد علی اللّٰہ سے متعلق ہے۔ صاحب الجمع بین الصحیحین: امام حمیدی رحمة اللہ علیہ اور ان کے متبعین نے دونوں حدیثوں کو ایک ٹھہرایا ہے، اس کو حافظ ابن حجر رحمة اللہ علیہ نے وہم قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح الباری، کتاب الجہاد والسیر، باب اسم الفرس والحمار، ص:۱۲۸، ج:۷، کتاب الرقاق، باب من جاہد نفسہ فی طاعة اللّٰہ، ص:۶۶۸، ج:۱۴، ذار طیبة: الریاض․

(۴)شیخ الاسلام زکریا الانصاری اور علامہ قسطلانی رحمہما اللہ کا وہم

شیخ الاسلام زکریا الانصاری رحمة اللہ علیہ (ولادت راجح قول کے مطابق ۸۲۶، وفات: ۹۲۶ھ) ”منحة الباری بشرح صحیح البخاری المسمی ب”تحفة الباری“ میں مبحوث عنہ حدیث الباب کے متعلق فرماتے ہیں:

مرّ الحدیث فی کتاب العلم․ (منحة الباری، کتاب اللباس، باب الارتداف علی الدابة، ص:۱۴۷، ج:۹، الرشید: الریاض)

”یہ حدیث کتاب العلم میں گزری۔“

علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ (۸۵۱-۹۲۳ھ) ”ارشاد الساری لشرح صحیح البخاری“ میں فرماتے ہیں:

والحدیث سبق طویلاً فی العلم․ (ارشاد الساری، کتاب اللباس، باب الارتداف علی الدابة، ص:۶۳۲، ج:۱۲، العلمیة: بیروت)

”اور یہ حدیث کتاب العلم میں مطول گزری ہے۔“

بندہ کہتا ہے:

یہ ان حضرات کا وہم ہے۔ حدیث الباب کتاب العلم میں نہ مختصراً مذکور ہے اور نہ مطولاً۔ یہ وہم غالباً حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے اتباع میں ہوا ہے یا منشأ وہم وہی ہے جو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے تین اوہام میں سے پہلے وہم کے تحت مذکور ہوا۔ واللہ تعالیٰ اعلم

یہ کس سفر کا واقعہ ہے؟

$ ”صحیح بخاری“ میں ہے:

عَنْ أَبِی مُوسَی رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: کُنَّا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی سَفَرٍ، فَکُنَّا إِذَا عَلَوْنَا کَبَّرْنَا، فَقَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: أَیُّہَا النَّاسُ، ارْبَعُوا عَلَیٰ أَنْفُسِکُمْ، فَإِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، وَلَکِنْ تَدْعُونَ سَمِیعًا بَصِیرًا․ ثُمَّ أَتَی عَلَیَّ وَأَنَا أَقُولُ فِی نَفْسِی: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ، فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللَّہِ بْنَ قَیْسٍ، قُلْ: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ، فَإِنَّہَا کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ الجَنَّةِ․ أَوْ قَالَ: أَلاَ أَدُلُّکَ عَلَیٰ کَلِمَةٍ ہِیَ کَنْزٌ مِنْ کُنُوزِ الجَنَّةِ؟ لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ․ (صحیح بخاری، کتاب الدعوات، باب: الدعاء اذا علا عقبة، ص:۹۴۴، ج:۲، قدیمی: کراچی)

”حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے، جب ہم بلندی پر چڑھتے، تو تکبیر کہتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! اپنے اوپر نرمی کرو؛ اس لیے کہ تم کسی بہرے اور غائب کو نہیں پکارتے؛ بل کہ تم بخوبی سننے والے اور دیکھنے والے کو پکارتے ہو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، دراں حالے کہ میں اپنے دل میں لاحول ولا قوة الا باللّٰہ کہہ رہا تھا، تو آپ نے فرمایا: اے عبداللہ بن قیس! لاحول ولا قوة الا باللّٰہ کہو (کہتے رہو)؛ اس لیے کہ وہ جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، یا (راوی کو شک ہے کہ) آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا کلمہ نہ بتاؤں، جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے، وہ لاحول ولا قوة الا باللّٰہ ہے۔“

یہ کس سفر کا واقعہ ہے؟ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ ”فتح الباری“، کتاب الدعوات میں حدیث مذکور کے ذیل میں فرماتے ہیں:

قولہ: ”کنّا مع النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی سفر“ لم أقف علی تعیینہ․ (فتح الباری، کتاب الدعوات، باب: الدعاء اذا علا عقبة، ص:۱۹۱، ج:۱۱، دارالریان: القاہرة)

”میں اس سفر کی تعیین پر واقف نہ ہوسکا۔“

علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ ارشاد الساری، کتاب الدعوات میں حدیث مذکور کے ذیل میں فرماتے ہیں:

(قال: کنّا مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر) قال الحافظ ابن حجر: لم أقف علی تعیینہ․ (ارشاد الساری، ص:۳۸۱، ج:۱۳، العلمیة: بیروت)

بندہ کہتا ہے:

علامہ قسطلانی رحمة اللہ علیہ نے ”فتح الباری“ کے صرف اسی مقام پر نظر کی ہے۔ دراصل حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ کو ”کتاب الدعوات“ میں حدیث مذکور کی شرح کے وقت استحضار نہیں رہا کہ یہ واقعہ غزوئہ خیبر کے سفر کا ہے۔ جب آگے ”کتاب القدر“ میں یہ روایت دوبارہ آئی، تو استحضار ہوگیا؛ چناں چہ حافظ رحمة اللہ علیہ ”کتاب القدر“ میں فرماتے ہیں:

قولہ: ”کنّا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی غزاة“ تقدّم فی غزوة خیبر من کتاب المغازی بیانُ أنہا غزوة خیبر․ (فتح الباری، کتاب القدر، باب: لاحول ولاقوة الا باللّٰہ، ص:۵۰۹، ج:۱۱، دارالریان: القاہرة)

غزوئہ خیبر کے سفر سے مراد خیبر جاتے ہوئے نہیں؛ بل کہ خیبر سے واپسی کا سفر ہے؛ کیوں کہ مدینہ منورہ زادھا اللہ شرفاً سے خیبر جاتے ہوئے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں تھے، وہ تو حضرت جعفر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حبشہ سے فتح خیبر کے بعد خیبر آئے تھے۔ ”صحیح بخاری“، کتاب المغازی میں ہے:

عَنْ أَبِی مُوسَی الأَشْعَرِیِّ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ قَالَ: لَمَّا غَزَا رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ خَیْبَرَ أَوْ قَالَ: لَمَّا تَوَجَّہَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَی وَادٍ، فَرَفَعُوا أَصْوَاتَہُمْ بِالتَّکْبِیرِ: اللَّہُ أَکْبَرُ اللَّہُ أَکْبَرُ، لاَ إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: ارْبَعُوا عَلَیٰ أَنْفُسِکُمْ، إِنَّکُمْ لاَ تَدْعُونَ أَصَمَّ وَلاَ غَائِبًا، إِنَّکُمْ تَدْعُونَ سَمِیعًا قَرِیبًا، وَہُوَ مَعَکُمْ․ وَأَنَا خَلْفَ دَابَّةِ رَسُولِ اللَّہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَسَمِعَنِی وَأَنَا أَقُولُ: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ، فَقَالَ: یَا عَبْدَ اللَّہِ بْنَ قَیْسٍ، قُلْتُ: لَبَّیْکَ یَا رَسُولَ اللَّہِ، قَالَ: أَلاَ أَدُلُّکَ عَلَیٰ کَلِمَةٍ مِنْ کَنْزٍ مِنْ کُنُوزِ الجَنَّةِ، قُلْتُ: بَلَی یَا رَسُولَ اللَّہِ، فَدَاکَ أَبِی وَأُمِّی، قَالَ: لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ․ (صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، ص:۶۰۵، ج:۲، قدیمی: کراچی)

اس حدیث پاک کی شرح میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں:

قَوْلُہُ: ”أَشْرَفَ النَّاسُ عَلَی وَادٍ فَذَکَرَ الْحَدِیثَ إِلَیٰ قَوْلِ أَبِی مُوسَی فَسَمِعَنِی وَأَنَا أَقُولُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّہِ“ ہَذَا السِّیَاقُ یُوہِمُ أَنَّ ذَلِکَ وَقَعَ وَہُمْ ذَاہِبُونَ إِلَی خَیْبَرَ وَلَیْسَ کَذَلِکَ؛ بَلْ إِنَّمَا وَقَعَ ذَلِکَ حَالَ رُجُوعِہِمْ، لِأَنَّ أَبَا مُوسَیٰ إِنَّمَا قَدِمَ بَعْدَ فَتْحِ خَیْبَرَ مَعَ جَعْفَرٍ کَمَا سَیَأْتِی فِی الْبَابِ مِنْ حَدِیثِہِ وَاضِحًا، وَعَلَیٰ ہَذَا فَفِی السِّیَاقِ حَذْفٌ، تَقْدِیرُہُ: لَمَّا تَوَجَّہَ النَّبِیُّ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ إِلَیٰ خَیْبَرَ فحاصرہا فَفَتحہَا ففرغ فَرَجَعَ، أَشْرَفَ النَّاسُ إِلَخْ․ (فتح الباری، کتاب المغازی، باب غزوة خیبر، ص:۵۳۸، ج:۷، دارالریان: القاہرة)

(جاری)

$ $ $
Flag Counter