ان دونوں کاموں کے لیے انسان کو ’’علم‘‘ کی ضرورت ہی اس لیے کہ جب تک اُسے یہ معلوم نہ ہو کہ اس کائنات کی حقیقت کیا ہے ؟ اس کی کونسی چیز کے کیا خواص ہیں ؟ ان سے کس طرح فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے ؟ اس وقت تک وہ دُنیا کی کوئی بھی چیز اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کر سکتا، نیز جب تک اسے یہ معلوم نہ لو کہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے ؟ وہ کون سے کاموں کو پسند اور کن کو ناپسند فرماتا ہے ؟ اس وقت تک اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارنا ممکن نہیں ،
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ تین چیزیں ایسی پید اکی ہیں جن کے ذریعہ اسے مذکورہ باتوں کا علم حاصل ہوتا رہے ، ایک انسان کے حواس، یعنی آنکھ ، کان ، مُنہ اور ہاتھ پاؤں ، دوسرے عقل اور تیسرے وحی، چنانچہ انسان ک بہت سی باتیں اپنے حواس کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیں ، بہت سی عقل کے ذریعہ اور جو باتیں ان دونوں ذرائع سے معلوم نہیں ہو سکتیں اُن کا علم وحی کے ذریعے عطا کیا جاتا ہے ،
علم کے ان تینوں ذرائع میں ترتیب کچھ ایسی ہے کہ ہر ایک کی ایک خاص حد اور مخصوص دائرہ کار ہے ، جس کے آگے وہ کام نہیں دیتا ، چنانچہ جو چیزیں انسان کو اپنے حواس سے معلوم ہو جاتی ہیں اُن کا اعلم نِری عقل سے نہیں ہو سکتا، مثلاً ایک دیوار کو آنکھ سے دیکھ کر آپ کو یہ علم ہو جاتا ہے کہ اس کا رنگ سفید ہ، لیکن اگر آپ اپنی آنکھوں کو بند کر کے صرف عقل کی مدد سے اس دیوار کا رنگ معلوم کرنا چاہیں تو یہ نا ممکن ہے ، اسی طرح جن چیزوں کا علم عقل کے ذریعہ حاصل ہوتا ہے وہ صرف حواس سے معلوم نہیں ہو سکتیں ، مثلاً آپ صرف آنکھوں سے دیکھ کر یا ہاتھوں سے چُھو کر یہ پتہ نہیں لگا سکتے کہ اس دیوار کو کسی انسان نے بنایا ہے ، بلیہ اس نتیجے تک پہنچنے کے لیے عقل کی ضرورت ہے ،
غرض جہاں تک حواسِ خمسہ کام دیتے ہیں وہاں تک عقل کوئی رہنمائی نہیں کرتی ، اور جہاں حواس خمسہ جواب دیدیتے ہیں وہیں سے عقل کا کام شروع ہوتا ہے ، لیکن اس عقل کی رہنمائی بھی غیر