Deobandi Books

ہفت روزہ ضرب مؤمن 13 تا 19 جون 2014

ہ رسالہ

7 - 8
پھر ادھرنہیں آنا!
ہمارے دوست مسٹرکلین کئی دنوں سے نظر نہیں آرہے تھے۔ ہمیں فکر لاحق ہوگئی کہیں ان کے دشمنوں کی طبیعت ناساز نہ ہوئی ہو، اس لیے ہم نے سوچا،ان کا حال احوال معلوم کرلیتے ہیں۔ ویسے ایک دفعہ جب ہم نے اسی طرح مزاج پرسی کی تھی۔ آپ کے دشمنوں کی طبیعت تو خراب نہیں؟ مسٹر موصوف نے کہا تھا: ’’جب آپ صحیح سالم میرے سامنے بیٹھے ہیں تو اور کون سے دُشمن کی طبیعت خراب ہوگی۔‘‘ خیر! تو ہم ان کے در دولت پر حاضر ہوئے۔ یہ جان کر ہماری جان میں جان آئی کہ موصوف ماشاء اللہ تندرست اور حسبِ مزاج تحقیق و مطالعہ کی سرگرمی میں مصروف ہیں۔ ہم نے ان کے مطالعے میں مخل ہونے پر معذرت چاہی۔ یہ جاننے کی کوشش کی کہ آج کل کس’’ سبجیکٹ‘‘ پر ’’ریسرچ‘‘ فرمارہے ہیں۔
موصوف نے کان پر دھری پنسل سے اپنے سامنے پڑی انگریزی کی کتاب کی ایک عبارت پر نشان لگائی، پھر کتاب بند کرکے ہمیں شرفِ کلام بخشا اور فرمانے لگے: ’’مجھے ایک آئیڈیا سوجھا ہے۔ تاریخ میں جتنے بڑے واقعات پیش آئے ہیں، ان کے وقوع کے دوران کہا جانے والا کوئی ایک ایسا جملہ، قول، یا شعر ایسا ہوتا ہے جو بعد کے ادوار کے لوگوں کے لیے ان واقعات کے پورے پس منظر و پیش منظر کی بہت حد تک وضاحت کرتا ہے۔

مثلاً ہندوستان کی تاریخ میں انگریزوں اور ٹیپو سلطان کے درمیان معرکہ آرائی میں دو جملے بہت مشہور ہوئے۔ ایک جملہ تو وہ ہے جو آپ ملا لوگ آج بھی نوجوانوں کو جذباتیت کی تعلیم دیتے ہوئے یاد دلاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے انگریزوں کے خلاف آخری معرکے سے پہلے کہا تھا: ’’ شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے۔‘‘ اور ایک جملہ وہ ہے جو اس وقت کے انگریز جرنیل نے ٹیپو کی لاش پر کھڑے ہوکر کہا تھاــ: ’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔‘‘ اسی طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد جب سلطنت برطانیہ کی شکست و ریخت ہوئی اور خود انگلینڈ کا وجود بھی خطرے سے دوچار ہوا تو اس وقت چرچل نے ایک جملہ کہا تھا: ’’جو بہت سے مورخین کے نزدیک برطانیہ کے شکستہ وجود کو بکھرنے سے بچانے کا باعث بنا۔ وہ جملہ تھا: ’’اگر برطانیہ کی عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تودنیا کی کوئی طاقت اسے ختم نہیں کر سکتی۔‘‘ مسٹر کلین نے کہا: ’’میں تاریخ کی کتابوں سے اس طرح کے جملے تلاش کرکے جمع کر رہا ہوں جو فیصلہ کن اہمیت کے حامل قرار دیے جاسکتے ہیں۔‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’یہ بہت اہم اور بڑا علمی کام ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اس سے آنے والی نسلوں میں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کا جوہر پیدا ہوجائے۔ تاریخ کا یہ ’’تاریخی جملہ‘‘ بھی کسی دور میں غلط ثابت ہوجائے کہ ’’تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا۔‘‘
مسٹر کلین نے کہا: ’’ملاجی! ایسا کریں،اس حوالے سے کچھ مواد آپ بھی تلاش کریں۔ انگریزی اور اردو لٹریچر سے ایسے جملے میں تلاش کرتا ہوں، عربی اور فارسی کی کتابوں سے آپ کچھ جملے نکال کر لے آئیں۔ یہ ہماری اور آپ کی مشترکہ کاوش ہوگی۔ ہوسکتا ہے اس کی ایک کتاب بن جائے اور کچھ رائلٹی بھی مل جائے۔‘‘ وہ کیا کہتے ہیں: ’’روٹی تو کسی طور کماکھائے مچھندر!‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’روٹی کما کھانے کی فکر’’ مچھندر ‘‘کو تو ہوتی ہے’’ قلندر‘‘ کو نہیں، اس لیے اس پہلو کوایک طرف رکھتے ہوئے ہمیں آپ سے اتفاق ہے کہ اس موضوع پر کام ہونا چاہیے۔ ہم آپ کو عربی اور فارسی کتابوں سے ایسے جملے ضرور تلاش کرکے دیں گے مگر…!!! اس ’’مگر‘‘ پر ہم ایک لمحے کے لیے رُک گئے تاکہ معلوم کرسکیں کہ مسٹر کلین ہماری بات توجہ سے سن بھی رہے ہیں یا حسب ِعادت ہمیں باتوں میں لگاکر خود ’’غور و فکر‘‘ میں مشغول ہوگئے ہیں۔‘‘
مسٹر کلین نے خلاف توقع بے تابی کے سے انداز میں پوچھا: ’’مگر کیا؟‘‘ ہم نے عرض کیا: ’’…خوش قسمتی سے ایک تازہ فیصلہ کن جملہ آج ہی تاریخ کے صفحے پر رقم ہوا ہے جو ہمارے نزدیک بہت سے تاریخی جملوں پر بھاری ہے۔‘‘ مسٹر کلین نے سوالیہ نگاہوں سے ہماری طرف دیکھا۔ ہم نے سامنے پڑے ہوئے اخبار کی ایک سرخی ان کے آگے کردی۔ جس میں لکھا تھا: ’’پھر ادھر نہیں آنا۔‘‘ یہ چونکہ ایک کالمی سرخی تھی۔ کسی ستم ظریف سب ایڈیٹر نے یہ سرخی جمائی اور آگے پیچھے کوئی وضاحتی جملہ نہیں لگایا تھا، اس لیے مسٹر کلین نے جلدی سے اخبار اٹھایا اور خبر پڑھنے لگے: ’’افغان طالبان نے نامعلوم مقام پر امریکی فوجی قیدی… کو امریکیوں کے حوالے کرتے ہوئے اس کے کان میں کہا: ’’پھر ادھر( افغانستان) نہیں آنا۔‘‘
مسٹر کلین نے جھنجھلاہٹ کے عالم میں اخبار ایک طرف رکھ دیا۔ کہنے لگے: ’’ملاجی! دل کے بہلانے کو یہ تو خیال اچھا ہے، مگر امریکیوں کو کون روک سکتا ہے افغانستان واپس آنے سے۔ آپ نے نہیں نہیں سنا؟ ابھی پچھلے ہفتے ہی امریکی صدر ااوباما افغانستان آئے تھے۔ انہوں نے وہاں اپنی کامیابی کا اعلان بھی کیا۔‘‘ ہم نے خلاف مزاج زور دار قہقہہ لگایا اور کہا: ’’ویسے یہ بھی ایک تاریخی جملہ ہے: ’’امریکی صدر اوباما نے رات 3 بجے بگرام ایربیس کا خفیہ دورہ کرکے وہاں موجود فوجیوں سے خطاب کیا اور دعویٰ کیا کہ ہم نے القاعدہ کو شکست دی ہے۔‘‘ ہم نے دیکھا کہ ہمارے قہقہہ لگانے سے مسٹر کلین تھوڑے سے جزبر ہوئے ہیں۔ ان سے کوئی بات بھی نہیں بن پارہی، اس لیے اس سے پہلے کہ وہ ہمیں ’’پھر ادھر نہیںآنا‘‘ کا تاریخی جملہ کہیں، ہم نے ان سے معذرت چاہی اورسیڑھیاں اترکر اپنے گھر کی راہ لی۔ ٭٭٭
Flag Counter