Deobandi Books

قادیانی شبہات کے جوابات جلد 1 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

3 - 123
	اسی مضمون کو الفاظ کی معمولی تبدیلی کے ساتھ دوسری جگہ بھی ذکر فرمایا گیا ہے۔ جس کو آج کل مرزائی آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کو جاری ثابت کرنے کے لئے بالکل بے محل پیش کردیا کرتے ہیں۔ حالانکہ اس آیت کا تعلق حضرت آدم علیہ السلام کے زمانہ سے ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
	’’ یا بنی آدم امایأتینکم رسل منکم یقصون علیکم آیاتی فمن اتقی واصلح فلا خوف علیھم ولاھم یحزنون۰ اعراف ۳۵‘‘{ اے اولاد آدم کی اگر آئیں تمہارے پاس رسول تم میں کے۔ کہ سنائیں تم کو آیتیں میری۔ تو جو کوئی ڈرے اور نیکی پکڑے تو نہ خوف ہوگا ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔}
	ان دونوں آیتوں میں ابتداء آفرینش کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ اور دونوں کا خلاصہ یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل اور نوع انسان کو حکم دیاکہ میں حضرت آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہوں اور حضرت آدم کے بعد انبیاء ورسل بکثرت ہوں گے اور لوگوں کے لئے ان کی اتباع کرنا ضروری ہوگا۔ اس جگہ رسل جمع کے صیغہ سے بیان فرمایا ہے اور انبیاء کی تحدیدو تعین نہیںکی۔ جس سے ثابت ہوا کہ حضرت آدم صفی اﷲ کے بعد کافی تعداد میں انبیاء کرام مبعوث ہوں گے۔
	بعد ازاں حضرت نوح وابراھیم علیہما الصلوٰۃ والسلام کا زمانہ آیا تو اس میں بھی یہی اعلان ہوا کہ ان کے بعد بھی بکثرت انبیاء ہوں گے۔
	’’ ولقد ارسلنا نوحاً وابراھیم وجعلنا فی ذریتہما النبوۃ والکتاب منہم مھتد وکثیر منہم فاسقون ثم قفینا علیٰ آثارھم رسلنا۰ حدید ۲۶‘۲۷‘‘{اور ہم نے بھیجانوح کو اور ابراھیم کو اور ٹھہرادی دونوں کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب پھر کوئی ان میں راہ پر ہے اور بہت ان میں نافرمان ہیں۔ پھر پیچھے بھیجیان کے قدموں پر اپنے رسول۔ }
	اس آیت کریمہ میں صاف فرمایا کہ حضرت نوح اور حضرت ابراھیم علیہم السلام پر نبوت کا دروازہ بند نہیں ہوگیا تھا ۔ بلکہ ان کے بعد بھی کافی تعداد میں انبیاء کرام تشریف لائے اور یہاںبھی ’’ رسل‘‘  کا لفظ فرمایا کوئی تحدیدو تعین نہیں فرمائی۔ علی ہذاالقیاس یہی سنت اﷲ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد بھی رہی اور بعینہ یہی مضمون ذیل کی آیت میں صادر ہوا۔
	’’ ولقد آتینا موسیٰ الکتاب وقفینا من بعدہ بالرسل ۰ بقرہ ۸۷‘‘{اور بیشک دی ہم نے موسیٰ کو کتاب اور پے درپے بھیجے اس کے پیچھے رسول۔}
	حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زمانہ میں بھی باب نبوت بند نہیں ہوا تھا اور ان کے بعد انبیاء کرام بکثرت آتے رہے۔ جس کو اﷲ تعالیٰ نے بالرسل کہہ کر ارشاد فرمایا۔
	صرف یہ تین آیتیں اس لئے ذکر کی گئیں کہ معلوم ہوجائے کہ اولوالعزم انبیاء کرام کے بعد سنت خدا وندی کیا کچھ چلتی رہی؟۔
	لیکن جب حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کی باری آئی تو اس مبشر’’ احمد‘‘ نے آکر دنیا کے سامنے یہ اعلان فرمایا کہ اب میرے بعد سلسلہ نبوت اس کثرت سے اور غیر محدود نہیں جیسے پہلے انبیاء کرام کے بعد ہوتا چلا آیا ہے۔ بلکہ میرے زمانہ میں نبوت میں ایک نوع کا انقلاب ہوگیا ہے۔ یعنی بجائے اس کے کہ الرسل کے لفظ سے انبیاء کرام کی آمد کو بیان کیا جاتا تھا اب واحد کا لفظ ’’ برسول‘‘ کہہ کر ارشاد کیا اور بجائے اس کے کہ حسب سابق غیر محدود اور غیر معین رسولوں کے آنے کا ذکر کیا جاتا ۔ طریق بیان کو بدل کر صرف ایک رسول کے آنے کی اطلاع دی اور اس کے اسم مبارک (احمد) کی بھی تعین فرمادی کہ کوئی شقی ازلی یہ دعویٰ نہ کرنے لگے کہ اس کا مصداق میں ہوں۔(جیسے آج کل مرزا قادیانی کی امت یہ ہانک دیا کرتی ہے کہ بشارت احمد کا مصداق مرزا قادیانی ہے۔)
	 ارشاد ہوا ہے:
	’’ اذ قال عیسیٰ بن مریم یا بنی اسرائیل انی رسول اﷲ الیکم مصدقا لما بین یدی من التوراۃ ومبشراً برسول یاء تی من بعدہ اسمہ احمد۰ صف ۶‘‘{ اور جب کہا عیسیٰ مریم کے بیٹے نے اے بنی اسرائیل میں بھیجا ہوا آیا ہوں اﷲ کا تمہارے پاس۔ یقین کرنے والا اس پر جو مجھ سے آگے ہے توریت ‘ اور خوشخبری سنانے والا ایک رسول کی جو آئے گا میرے بعد اس کا نام ہے احمد۔}
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter