Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 28 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

18 - 506
’’وٰاوینہما الیٰ ربوۃ ذات قرار ومعین‘‘ کو کشمیر بنا کر عیسیٰ علیہ السلام کی موت کے لئے بہت کچھ ہاتھ پاؤں مارے۔ مگر تحریف کی، معنی اس کلام پاک کے یہ ہیں۔ (اور ٹھکانا دیا ہم نے ان دونوں کو طرف ٹیلے صاحب آرام اور صاف چشمہ دار پانی والے کے) پس ابلیس نے مرزا کو سوجھائی کہ اسے کشمیر گھڑ دو کہ کشمیر میں پہاڑ بھی ہیں اور پانی بھی چشمہ دار ہیں اور آرام بھی ہے۔ بوجہ معتدل ہونے آب وہوا اور میوہ جات کے، جیسا کہ عرفی نے کہا ہے کشمیر کی تعریف میں   ؎
ہرسوختہ جانے کہ بکشمیر درآید
گر مرغ کباب ست کہ بابال وپرآید
	اگر مرزا انجیل متی باب دوم پڑھ لیتا تو اس مغالطے میں نہ پڑتا۔ وہاں لکھا ہے کہ: ’’جب دیار مشرق سے مجوسی حضرت مسیح کی زیارت کو آئے اور پادشاہ ہیرودیس کو خبر لگی کہ مسیح یہودیوں کا بادشاہ میرے ملک میں پیدا ہوا ہے تو اس نے آپ کے قتل کرنے کا منصوبہ باندھا اور بچوں کا قتل عام کر ڈالا۔ مگر بادشاہ کے منصوبہ پر خدا پاک کے فرشتے نے حضرت مسیح کے محافظ کو خواب میں اطلاع کردی اور حکم دیا کہ اٹھ اس لڑکے کو اس کی ماں کے ساتھ لے کر مصر کو چلا جا اور جب تک میں تجھے نہ کہوں وہیں رہنا۔ کیونکہ ہیرودیس اس بچے کو ہلاک کرنے کے لئے ڈھونڈھنے کو ہے۔ پس وہ شخص حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو لے کر مصر کو روانہ ہوگیا اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا اور جب ہیرودیس مرگیا تو پھر خواب میں ہدایت پاکر گلیل کے علاقہ کو روانہ ہوگیا اور ایک شہر میں جس کا نام ناصرت تھا جابسا۔‘‘ پس وہ ربوہ یا تو مصر میں کوئی مقام تھا یا خود ناصرت کو ربوہ کہا اور تفسیر کشاف میں ابوہریرہؓ سے منقول ہے کہ یہ ربوہ رملہ فلسطین ہے۔ دیکھو حسینی، قصبہ ناصرت جس کو مسیح مریم نے اپنی جائے قرار بنالیا تھا۔ دراصل ایک پہاڑی پر بسا تھا۔ (لوقا:۴،۲۹) اس میں ایک چشمہ آج تک موجود ہے۔ جو چشمۂ بتول کے نام سے مشہور ہے اور شاید ’’قد جعل ربک تحتک سریا‘‘ اسی طرف اشارہ ہو (بنادیا تیرے رب نے تیرے نیچے ایک چشمہ) تفسیر خازن میں ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ وہ ربوہ بیت المقدس ہے اور کعبؓ نے کہا کہ بیت المقدس بہت قریب ہے۔ سب زمینوں سے بطرف آسمان کے بقدر ۱۸میل کے اور تفسیر کبیر ص ۱۹۸ طبع مصر جز ۶ میں ہے ربوۃ اور رباوہ راکی تین حرکات سے ہے۔ بمعنی بلند زمین کے حضرت قتادہؒ اور ابوالعالیہؒ نے کہا کہ وہ ایلیاء ہے۔ بیت المقدس کی زمین۔ ابوہریرہ نے کہا ہے کہ وہ رملہ ہے۔ کلبی اور ابن زید نے کہا کہ یہ رملہ مصر میں ہے اور اکثر علماء نے کہا کہ وہ ربوۃ دمشق ہے اور مقاتل اور ضحاک نے کہا کہ نبی غوطۃ دمشق یعنی دمشق کی فراز زمین، تفسیر حسینی میں ہے کہ بی بی مریم اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ جس کو یوسف نجار کہتے تھے ماثان کا بیٹا بارہ سال اس ربوہ میں مقیم رہیں اور چرخہ کات کر اس کی مزدوری سے عیسیٰ علیہ السلام کو کھلاتی تھیں۔
	اب ایک اور حدیث سن لو اور گریباں میں سرڈال لو۔ سب لوگ اس بات کے قائل تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے زمین پر انتقال فرمایا ہے اور زمین پر آپ کی قبر موجود ہے۔ اگرچہ صحیح پتہ معلوم نہیں اور تورات شریف کے آخر باب میں لکھا ہے کہ کسی بشر کو موسیٰ علیہ السلام کی قبر کا پتہ نہ لگا۔ باوجودیکہ اس قبر کا پتہ لگ جانا کوئی بہت بڑی ضروری بات نہ تھی۔ تو بھی آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ مجھ کو اس قبر کا پتہ ہے اور بتلا دیا کہ بیت المقدس سے ایک پتھر کی مارپر راہ کے کنارے سرخ ریتی کے تلے ہے۔ صحیح مسلم میں فضائل موسیٰ میں (قبرہ الیٰ جانب الطریق تحت الکثیب الاحمر) پھر کیوں حضرت مسیح کی قبر کا پتہ آنحضرتﷺ نہ بتلادیتے۔ جس کا صرف پتہ ہی لوگوں کو نہ معلوم تھا۔ بلکہ جس کے وجود کا لوگوں کو گمان بھی نہیں ہوا تھا اور 
Flag Counter