مرزائیت پر اکہترسوالات ۴۱۴تا۴۴۴
الکاویۃ علے الغاویۃ
حصہ اوّل
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
’’الحمد ﷲ وحدہ۰ والصلوٰۃ علیٰ من لا نبی بعدہ۰ وعلیٰ الہ واصحابہ اجمعین الی یوم الدین وبعد فیقول العبد العاصی محمد عالم عفی عنہ بن عبدالحمید الوتیر الآسی عفا اﷲ عنہما لیقل من یؤمن باﷲ ورسولہ الحمد ﷲ رب العالمین ای التراب علیﷲ راس المولمین الرحمن الرحیم من الرھام ای ذلک التراب علیہ کالرھام۰ ثم لیتوجہ الیٰ مالک ناصیۃ فیقول مالک یوم الدین اے ماللاہ یارب یقصد دینک۰ فلیقل مخاطباً لذلک البدع ایاک نعبد ای تنصر منک ایاک نستعین فلقینا منک تعباونصبا۰ ثم لیتوجہ الیٰ اﷲ تعالیٰ بالنیابۃ عن البدع اہدنا الصراط المستقیم۰ الذی فیہ الموانع کالکوماء صراط الذین انعمت علیہم وانزلت علیہم النوم من الغفلۃ غیر المغذوب علیہم ای ہم لیسوا ممن غذب علیہم فی شئی ولا الضالین من الدألان ثم لیعتقد ان الصلوٰۃ علیٰ النبے وعبادۃ لہ کما لا حمد لللّٰہ والصلوۃ علیہ فمن یہدہ اﷲ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ فلیستمع ما اقول ولیصنع لما القی علیہ وھو انہ‘‘
مرزائی تعلیم کے متعلق علمائے اسلام کی تصانیف سے جو مجھے حاصل ہوا ہے اس کو ترتیب دے کر آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی جرأت کرتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ اس کو بنظر استحقار نہ دیکھیںگے اور اگر اس سے کچھ فائدہ ہوا تو مؤلف کو دعائے خیر سے یاد فرمائیںگے اور اگر کہیں سقم یانقص نظر آئے گا تو اس کی تصحیح سے بندہ کو مطلع کر کے ممنونیت کا تمغہ حاصل کریںگے۔
میں اس موقعہ پر اس رسالہ کا نام بھی آپ کو تشریحاً بتانا چاہتا ہوں کہ اس کو کاویہ تصور کیاگیا ہے۔ جو عموماً ٹین سازوں کے پاس ہوا کرتا ہے اور جس سے ٹانکے لگایا کرتے ہیں۔ علی الغاویہ سے یہ مطلب ہے کہ جن گمراہ کن لوگوں نے مسلمانوں میں تفریق بین المسلمین کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ ان کے سینہ پر یا ان کے دل میں جو اتحاد بین المسلمین کو دیکھ کر حسد اور کینہ کا گھاؤ پڑ گیا ہے۔ اس پر علاج بالکیّ کے طریق پر یہ رسالہ داغ دینے کا کام دیتا ہے اور بس۔ کیونکہ جب انسان علاج سے تنگ آجاتا ہے تو حسب دستور قدیم ’’اخرالدواء الکیّ‘‘ پر عمل پیرا ہوجاتا ہے۔ مگر آج کل چونکہ برف سے یہ طریق علاج کیا جاتا ہے تو آپ بھی اس کو کیّ بارد ہی تصور کریں۔ ’’رب اشرح لی صدری ویسرلی امری‘‘
۱… مرزاقادیانی کون تھے ان کے تاریخی حالات کیا ہیں؟
قادیانی نبی کی تاریخ مختصر یہ ہے کہ اس کی ولادت ۱۲۶۰ھ مطابق ۱۸۴۰ء میں ہوئی اور وفات بمقام لاہور احمدیہ بلڈنگس ۲۶؍مئی۱۹۰۸ء (۱۳۲۶ھ) کو بروز منگل بتقریب میلہ بھدر کالی آناً فاناً تقریباً ایک گھنٹہ میں ہی ہوئی۔ جس کی وجہ بقول بعض بند ہیضہ تھا اور بقول بعض درد گردہ کا دورہ تھا۔ اس وقت کے بالمقابل مخالفت اور تردید کرنے والوں کا خیال ہے کہ حضرت صوفی پیر جماعت عالی شاہ صاحبؒ کی بددعا کا نتیجہ ہے کہ جھٹ پٹ اس فتنہ سے نجات ملی۔ بہرحال کچھ بھی ہو وفات فوری ہوئی۔ پھر لاش ریل پر لاد کر بٹالہ ضلع گورداسپور میں اتاری گئی۔ جو موٹروں وغیرہ کے ذریعے اٹھوا کر قادیان کے بہشتی مقبرہ کے ایک کونہ میں برسر جوہڑ دفن کی گئی اور اب تک وہیں موجود ہے۔ مگر پہلے کی نسبت اس میں کچھ تبدیلی واقع ہوگئی ہے۔ جس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے