زبور اس قوم کو بخشی گئی لیکن نہ یہ مانی
یہ اپنی حمد کرتی تھی بجائے حمد ربانی
بڑی شوکت ملی اس قوم کو عہد سلیمان میں
عظیم الشان ہیکل ہوگئی تعمیر کنعاں میں
مگر یہ قوم اکثر راہ پر آکر پلٹتی تھی
نہ دینداری میں بڑھتی تھی نہ بے دینی سے ہٹتی تھی
اسے ایوبؑ وزکریاؑ ویحییٰؑ نے بھی سمجھایا
چلن اس قوم کا لیکن نہ ہرگز راہ پر آیا
ہو منزل گمرہی جن کی وہ کیونکر راہ پر آئیں
ملیں اس قوم سے پیغمبروں کو سخت ایذائیں
یہ جھٹلاتی رہی ہر اک نصیحت کرنے والے کو
بتاتی تھی اندھیرا موند کر آنکھیں اجالے کو
مسیح ابن مریم نے بہت اس کو ہدایت کی
مگر یہ آخری دم تک رہی منکر رسالت کی
یہ جھٹلاتی رہی انجیل کی سچی منادی کو
یہ سولی پر چڑھانے لے گئی اس پاک ہادی کو
خلیل اﷲ سے جو وعدہ کیا تھا حق تعالیٰ نے
وہ پورا کردیا ہر طرح سے اس ذات والا نے
وطن بخشا گیا اس کو نمونہ باغ جنت کا
مگر اس قوم میں جذبہ نہ تھا اس کی حفاظت کا
ملی اسحٰق کی اولاد کو شان حکومت بھی
متاع دنیوی بھی اور روحانی رسالت بھی
مگر اس قوم نے ٹھکرادیا ہر ایک نعمت کو
یہ بھڑکاتی رہی ہر دور میں اﷲ کی غیرت کو