Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

43 - 377
لیک خود باایں ہمہ برنقد حال
جست باید تخت اورا انتقال
تانہ گردد خستہ ہنگام لقا
کود کانہ حاجتش گردد روا
	پھر بلقیسؓ کی اقامت کے لئے ایک محل بنوایا۔ جس کا فرش شیشے کا تھا اور اس کے تلے ایک حوض جس میں مچھلیاں چھوڑی ہوئی ان شفاف شیشوں سے نمایاں ہوتی تھیں۔ جب بلقیسؓ آئیں تو سلیمان علیہ السلام نے کہا اہکذاعرشک یعنی کیا تمہارا بھی تخت ایسا ہی تھا۔ اس کے جواب میں اس خیال سے کہ اتنا بڑا اپنا تخت اس مدت قلیل میں صحیح وسالم کیونکر پہنچ سکتا ہے۔ بادی النظر میں یہ کہہ تو دیا کہ کانہ ہو یعنی یہ ہو بہو ویسا ہی ہے۔ مگر سلیمان علیہ السلام کے سوال کو سوچا کہ اس سے عقل کا امتحان مقصود ہے اور تخت کو غور سے دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ اپنا ہی تخت ہے۔ جو معجزے سے صحیح وسالم پہنچ گیا ہے اور فوراً کہہ دیں کہ ’’واوتینا العلم من قبلہا وکنا مسلمین‘‘ یعنی ہم کو تو اس معجزے سے پہلے ہی آپ کا برگزیدہ خدا ہونا معلوم ہوگیا تھااور تب ہی آپ کو مان گئے تھے۔ اس سوال وجواب کے بعد بلقیسؓ سے کہاگیا کہ اس محل میں جاؤ انہوں نے وہاں پانی خیال کر کے پائنچے اٹھا لئے، کہاگیا اس کی ضرورت نہیں شیشے کا فرش ہے اس وقت انہوں نے کہا ’’رب انی ظلمت نفسی واسلمت مع سلیمان ﷲ رب العالمین‘‘ یعنی میں نے بے شک اپنے نفس پر ظلم کیا کہ ایسے جلیل القدر نبی کے پاس آنے میں تاخیر کی جن کی سلطنت ظاہری کا یہ حال کہ پرند چرند جنات تک تابع فرمان اور سلطنت باطنی کی وہ کیفیت کہ محال کو تصرف باطنی اور معجزے سے واقع کر دکھاتے ہیں اور شفقت اور عزت بخشی گئی۔ یہ صورت کہ ایسا بے مثل وبے نظیر مکان آنے سے پہلے تیار کر رکھا غرض اس معذرت کے بعد اپنے قدیم ایمان کو اسلمت مع سلیمان ﷲ رب العالمین کہہ کر سلیمان علیہ السلام کی تسکین کردی۔
	اب دیکھئے کہ بلقیسؓ کا ایمان تخت دیکھنے کے وقت قرآن شریف سے ثابت ہے۔ جس پر وکنا مسلمین گواہی دے رہا ہے اور مرزاقادیانی کہتے ہیں کہ شیش محل کا عقلی معجزہ دیکھ کر انہوں نے ایمان لایا۔ افسوس کا مقام ہے کہ صرف اس غرض سے کہ کوئی عقلی معجزہ ثابت کر کے اپنے عقلی تدابیر کو معجزے قرار دیں اور نبی بن بیٹھیں۔ قرآن میں تصرف کر رہے ہیں کہ واقعات کی شکل بدل کر تحریف اور تفسیر بالرائے کرتے ہیں۔ پھر جہاں خود کو ضرورت ہوتی ہے تو فرماتے ہیں۔ تفسیر بالرائے کرنا مسلمان کا کام نہیں۔ اب ان کو کیا کہنا چاہئے۔ اس سے بڑھ کر قرآن میں کیا تصرف ہوگا کہ حق تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام کے معجزے کے باب میں فیکون طیراً باذن اﷲ فرماتا ہے کہ ان کی بنائی ہوئی چڑیاں پرندہ ہوجاتی تھیں اور وہ کہتے ہیں پرندہ نہیں ہوتی تھیں بلکہ جس مٹی سے وہ چڑیاں بناتے وہ اپنے حال پر رہتی تھیں یعنی پرند نہیں بنتی تھیں۔ کمامر!
	مرزاقادیانی (براہین احمدیہ ص۱۵۹ حاشیہ، خزائن ج۱ ص۱۶۶) میں جہاں وحی اور کتاب آسمانی کی ضرورت ثابت کرتے ہیں لکھتے ہیں کہ ’’جولوگ اپنی عقل کے زور سے خدا کی معرفت کا دعویٰ کرتے ہیں ان کا یہ خیال ہے کہ ہم نے اپنی ہی عقل کے زور سے خدا کا پتا لگایا ہے اور ہمیں انسانوں کو ابتداء میں یہ خیال آیا کہ کوئی خدا مقرر کرنا چاہئے اور ہماری ہی کوششوں سے وہ گوشہ گمنامی سے باہر نکلا وغیرہ پھر لکھتے ہیں کہ یہ اعتقادبت پرستوں کے اعتقاد سے کچھ نہیں۔

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter