Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

34 - 377
تو اکثر کہتا کہ اگر میں چاہوں تو اس گھانس کو ابھی سونا بنادوں۔ آخر خالد بن عبداﷲ قسری نے اس کو قتل کیا۔‘‘ غرض مرزاقادیانی کی تقریر سے ظاہر ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء جو معجزات دکھلاتے تھے وہ دراصل عمل مسمریزم تھا۔ جو مکروہ اور قابل نفرت ہے۔ یہاں یہ امر محتاج بیان نہیں کہ جو لوگ ایسے قبیح کام کر کے ان کو معجزہ من جانب اﷲ بتائیں وہ کس قسم کے آدمی سمجھے جائیںگے۔ حالانکہ حق تعالیٰ ان کی فضیلت کی تصریح فرماتا ہے۔ ’’تلک الرسل فضلنا بعضھم علیٰ بعضٍ منہم من کلم اﷲ ورفع بعضھم درجاتٍ واتینا عیسیٰ ابن مریم البینات وایدناہ بروح القدس (بقرہ:۲۵۳)‘‘ {وہ سب رسول فضیلت دی ہم نے ایک کو دوسرے سے اﷲ نے بعضوں سے کلام کیا اور بعضوں کے درجے بلند کئے اور دیں ہم نے عیسیٰ بن مریم کو نشانیاں صریح اور قوت دی ہم نے روح القدس سے۔}
	اب اس کلام کے سننے کے بعد بھی کیا کسی مسلمان کو جرأت ہوسکتی ہے کہ ان معزز حضرات میں سے کسی کی توہین وتذلیل کرے۔ حق تعالیٰ فرماتا ہے ’’وﷲ العزۃ ولرسولہ وللمؤمنین ولکن المنافقین لا یعلمون (منافقون:۸)‘‘ {یعنی اﷲ کو عزت ہے اور اس کے رسول کو اور مسلمانوں کو لیکن یہ بات منافق لوگ نہیں جانتے۔}
	مرزاقادیانی (ازالۃ الاوہام ص۱۳۹، خزائن ج۳ ص۱۷۰) میں فرماتے ہیں۔ ’’افسوس ہماری قوم میں ایسے لوگ بہت ہیں جو بعض حقائق ومعارف قرآنیہ اور دقائق آثار نبویہ کو جو اپنے وقت پر بذریعہ کشف والہام زیادہ تر صفائی سے کھلتے ہیں۔ محرمات اور بدعات ہی میں داخل کر لیتے ہیں۔‘‘ خود ہی غور فرمائیں کہ جب حقائق قرآنیہ یہ ہوں کہ حق کی حقیقت باطل یعنی معجزے کی حقیقت مسمریزم اور عزت کی حقیقت ذلت اور نبی معزز کی حقیقت ذلیل وغیرہ ثابت ہورہی تو تھوڑی الٹ پلٹ میں اسلام کی حقیقت کفر اور کفر کی حقیقت اسلام ثابت ہو جانے کو کیا دیر لگے گی اور تعجب نہیں کہ اسی قسم کا خیال پختہ بھی ہوگیا ہو۔
	افسوس ہے کہ مرزاقادیانی کو جس قدر مسمریزم سے خوشی اعتقادی اور اس پر وثوق ہے۔ خدائے تعالیٰ کی قدرت پرنہیں۔ اگر عقل کی راہ سے بھی دیکھا جائے تو خدائے تعالیٰ کا اس مردے کو زندہ کرنا جس قدر اطمینان بخش ہے مسمریزم کی بدنما کارروائی سے نہیں ہوسکتا۔ مگر مرزاقادیانی کی عقل اسی کی مقتضیٰ ہوئی۔ سرسید احمد خاں صاحب بھی اس مردے کے زندہ ہونے کو نہیں مانتے۔ چنانچہ (تفسیر القرآن ص۱۲۵،۱۲۶ حصہ اوّل) میں لکھتے ہیں کہ ’’بنی اسرائیل میں ایک شخص مارا گیا تھا اور قاتل معلوم نہ تھا۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دل میں یہ بات ڈالی کہ سب لوگ جو موجود ہیں اور انہیں میں قاتل ہے۔ مقتول کے اعضاسے مقتول کو مارے جو لوگ درحقیقت قاتل نہیں وہ بسبب یقین اپنی بے جرمی کے ایسا کرنے میں کچھ خوف نہ کریںگے۔ مگر اصل قاتل بسبب خوف اپنے جرم کے جو ازروئے فطرت انسان کے دل میں اور بالتخصیص جہالت کے زمانے میں اس قسم کی باتوں سے ہوتا ہے۔ ایسا نہیں کرنے کا اور اسی وقت معلوم ہوجائے گا اور وہی نشانیاں جو خدا نے انسان کی فطرت میں رکھی ہیں۔ لوگوں کو دیکھا دے گا۔‘‘ خاں صاحب تو خدا کا نام تبرکاً لیا کرتے ہیں تاکہ مسلمانوں میں بھی اپنا نام رہے۔ اس لئے ان کا صفت احیائے موتیٰ سے انکار کرنا بے موقع نہیں۔ مگر مرزاقادیانی سے حیرت ہے کہ اس مسئلے میں وہ بھی ان کے ہم خیال ہوگئے اور صرف اتنی اصلاح کی کہ مردے کی حرکت مسمریزم کی وجہ سے تھی۔ خاں صاحب کی رائے مرزاقادیانی سے کم نہ تھی۔ مگر چونکہ وہ فن تاریخ میں مہارت رکھتے تھے ان کو معلوم تھا مسمریزم کا اس وقت وجود ہی نہ تھا۔ اس لئے اس رائے کو پسند نہیں کیا۔ مرزاقادیانی نے دیکھا کہ جو لوگ خلاف قرآن وحدیث حسن ظن سے اپنی بات کو مان لیںگے ان پر خلاف تاریخ مان لینا کیا دشوار ہے۔ غرض ان لوگوں نے قرآن کو کھلونا بنالیا ہے۔ اس کی کچھ پروا نہیں کہ خدا کے کلام کو بگاڑنا اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter