Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

27 - 377
بعد کے زمانوں میں جو لوگوں نے اس قسم کے خوارق دکھلائے اس وقت تو کوئی تالاب بھی موجود نہ تھا۔‘‘
	دعا کا ذکر نہ ہونے سے مرزاقادیانی جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ عجائب جس کا ذکر حق تعالیٰ بطور اعجاز بیان فرماتا ہے وہ معجزات نہ تھے تو اس لحاظ سے فطرتی قوت بھی ثابت نہ کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ اس کا بھی ذکر اس آیۂ شریفہ میں نہیں ہے۔ پھر اپنی رائے سے ایک غیر مذکور چیز کو ثابت کرنا اور خدائے تعالیٰ کی خبر کو نہ ماننا کس قسم کی بات ہے۔ اگر معجزے کے لئے یہ شرط ہے کہ وضو کر کے دورکعت نماز پڑھ کر وقت خاص میں دعا کی جائے اور اس کی قبولیت کے لئے حضّار مجلس آمین آمین اس وقت تک کہتے رہیں کہ آثار اجابت ظاہر ہوجائیں تو اس آیہ شریفہ میں دعا کرنا بھی باقتضاء النص مقدر سمجھا جاسکتا ہے۔ جس کو اصول الشاشی پڑھا ہوا شخص بھی جانتا ہے۔
	پھر اگر وہ کام فطرتی طور پر ہوتے تھے تو ان پر ایمان لانے کی کیا ضرورت مثلاً اگر کہا جائے کہ ایک نجار صندوق میں قفل نصب کرتا ہے یا کسی کے ذریعے سے فلاں کام کرتا ہے تو کیا اس قسم کی خبر کی نسبت یہ کہا جائے گا کہ تم اس پر ایمان لاؤ ہر گز نہیں۔ حالانکہ یہاں حق تعالیٰ صاف فرماتا ہے کہ جو لوگ ہماری باتوں پر ایمان لاتے ہیں وہ اس کو آیت یعنی نشانی قدرت کی سمجھتے ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ خدائے تعالیٰ کے کلام پر ایمان لانا منظور نہیں۔ جب ہی تو حیلے اور بہانے ہورہے ہیں۔ ورنہ وہ خود (براہین احمدیہ ص۴۹۵ حاشیہ در حاشیہ نمبر۳، خزائن ج۱ ص۵۸۸،۵۸۹) میں لکھتے ہیں۔
	’’واصل تام کو مجمع الاضداد ہونا پڑا کہ وہ کامل طور پر روبخدا بھی ہو اور پھر کامل طور پر روبخلق بھی۔ پس وہ ان دونوں قوسوں، الوہیت اور انسانیت میں ایک وتر کی طرح واقع ہے۔ جو دونوں سے تعلق کامل رکھتا ہے… جب کامل تزکیہ کے ذریعے سے انسان کامل سیرالی اﷲ سے سیر فی اﷲ کے ساتھ متحقق ہو جائے اور اپنی ہستی ناچیز سے بالکل ناپدید ہوکر اور غرق دریائے بیچون وبیچگون ہوکر ایک جدید ہستی پیدا کرے۔ جس میں بیگانگی اور دوئی اور جہل اور نادانی نہیں ہے اور صبغتہ اﷲ کے پاک رنگ سے کامل رنگینی میسر ہے۔‘‘ اب دیکھئے کہ مرزاقادیانی خود اپنے ذاتی تجربے کی خبر دیتے ہیں کہ اولیاء اﷲ وقت واحد میں روبخلق وروبخدا ہوتے ہیں اور یہ باتفاق جمیع اہل اسلام مسلم ہے کہ انبیاء کا رتبہ بہ نسبت اولیاء اﷲ کے بدر جہا بڑھا ہوا ہے۔ تو اسی نسبت سے ان کی حضوری بھی اولیاء کی حضوری سے بڑھی ہوئی ہوگی اور ظاہر ہے کہ اس حضوری میں درخواست واجابت فوراً ہوسکتی ہے۔ پھر جب حق تعالیٰ ان معجزات کی خبر دیتا ہے تو اتنا تو حسن ظن کر لیتے کہ جس طرح ہم نے کسی مقام میں لکھا ہے کہ وقت واحد میں ہم روبحق اور روبخلق رہتے ہیں۔ اسی طرح عیسیٰ علیہ السلام بھی ہوںگے۔ مگر اس تحریر کے وقت وہ بات مرزاقادیانی کے حافظے سے نکل گئی۔ اگر واقع میں ان کی ایسی حالت ہوتی تو بھول نہ جاتے۔ اب غور کیا جائے کہ آپ تو انبیاء کے ساتھ بھی حسن ظن نہیں رکھتے اور شکایت یہ کہ اپنی نبوت کا حسن ظن نہیں کیا جاتا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی عیسیٰ علیہ السلام کو تقرب الٰہی میں اپنے برابر بھی نہیں سمجھتے۔
	مرزاقادیانی کی تقریر کا ماحصل یہ ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کا دعا کرنا ثابت نہیں۔ باوجود اس کے یہ عجائبات صادر ہوتے تھے تو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ بغیر دعا کے خلاف عقل معجزات ان سے کیونکر صادر ہوگئے۔ اس لئے بہتر یہ ہے کہ وہ معجزات انہیں کے اقتداری افعال ٹھہرائے جائیں اور مرزاقادیانی اس پر اس قدر اڑے ہیں کہ کتنی ہی حدیثیں جو اس باب میں وارد ہیں 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter