Deobandi Books

احتساب قادیانیت جلد 21 ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

1 - 377
بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
عرض مرتب
الحمدلللّٰہ وکفٰی وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفیٰ اما بعد! 
	قارئین! لیجئے ’’احتساب قادیانیت‘‘ کی اکیسویں جلد پیش خدمت ہے۔ یہ جلد حضرت مولانا انوار اﷲ خان حیدرآبادیؒ کی رد قادیانیت پر کتب کے مجموعہ پر مشتمل ہے۔ نزہۃ الخواطر نامی کتاب کئی جلدوں پر مشتمل حضرت مولانا سید عبدالحئی  ؒ نے عربی میں تالیف کی تھی۔
	جو سنین کی ترتیب سے پہلی صدی سے چودہ صدیوں تک برصغیر کے علماء کے جستہ جستہ حالات پر مشتمل ہے۔ اس کی بعض جلدوں کا اردو میں بھی ترجمہ ہوا۔ نزہۃ الخواطر کی آٹھویں جلد کا ترجمہ مولانا انوار الحق قاسمی نے کیا اور اس کا نام رکھا۔ ’’چودھویں صدی کے علماء برصغیر‘‘ اس میں مولانا انوار اﷲ خان حیدرآبادیؒ ہمارے ممدوح کے حالات یہ درج ہیں۔
	’’محترم فاضل علامہ انوار اﷲ بن شجاع الدین بن قاضی سراج الدین عمری حنفی حیدرآبادی، مشہور علماء میں سے تھے۔ ۴؍جمادی الثانی۱۲۶۴ھ قندھار میں پیدا ہوئے۔ جو کہ ارض دکن کے ناندیڑ علاقہ کی ایک بڑی آبادی تھی۔ اس بستی میں رہ کر قرآن مجید حفظ کیا اور اپنے علاقہ کے اساتذہ کرام کے علاوہ شیخ عبدالحلیم انصاری لکھنویؒ سے درسی کتابیں پڑھیں۔ پھر ان کے صاحبزادہ شیخ عبدالحئی لکھنویؒ سے حیدرآباد شہر میں تابع رہے۔ علم تفسیر شیخ عبداﷲ یمنیؒ سے پڑھی اور تصوف وسلوک میں ان کے والد سے حصول سبق کے بعد اجازت حاصل کی اور دوسرے بہت سے علوم وفنون میں عالم بنے اور حکومت سے وظیفہ حاصل کیا۔ لیکن تھوڑے عرصہ کے بعد اسے قلیل سمجھا۔ ۱۲۹۴ھ میں حج کو روانہ ہو گئے اور شیخ کبیر الحاج امداد اﷲ مہاجر مکیؒ سے ملاقات کی اور ان سے بیعت حاصل کی اور آخر میں اجازت حاصل کر لی۔ ۱۲۹۵ھ میں صاحب دکن کے خاص استاد بنائے گئے۔ جن کا نام محبوب علی خانؒ جو چھٹے نظام تھے، ۱۳۰۱ھ میں خان بہادر کا لقب دیاگیا تھا۔ دوسری مرتبہ حج مبارک ادا کیا اور ۱۳۰۵ھ میں تیسری بار حج ادا کیا۔ پھر مدینہ منورہ میں تین سال تک اقامت کی ۱۳۰۸ھ میں حیدرآباد واپس لوٹ آئے اور ولی عہد امیر عثمان علی خانؒ کے معلم مقرر کئے گئے۔ صاحب دکن امیر محبوب علی خانؒ کا ۱۳۲۹ھ میں انتقال ہوا اور امیر عثمان علی خانؒ ساتویں نظام بنائے گئے تو انہوں نے مولانا کو صدارت اور احتساب کا عہدہ بخشا اور یہ واقعہ۱۳۳۰ھ کا ہے۔ ۱۳۳۲ھ میں وزارت اوقاف کا بھی عہدہ بخشا، اور ان کا لقب نوا ب فضیلت جنگ رکھا گیا۔ اس طرح انہیں بڑی وجاہت اور مسائل شرعیہ اور امور دینیہ میں پورا پورا اختیار مل گیا اور بہت سی اصلاحات قائم کیں۔ جن سے اپنے ملک اور اس کے باشندوں کو بڑا فائدہ پہنچایا۔ یہ اپنے زمانہ کے تمام عقلی اور نقلی علوم میں تنہا مالک بن گئے۔ بہت عبادت گذار اور ہمیشہ ہی پڑھانے اور ذکر واذکار اور کتابوں کے مطالعہ اور تصنیف میں مشغول رہتے۔ بدعتوں اور خواہشمندوں کے بڑے سخت مخالف تھے۔ ۱۲۹۳ھ میں حیدرآباد شہر میں انہوں نے ایک نظامیہ مدرسہ کی بنیاد رکھی اور تالیف وتصنیف کے علم میں اشاعۃ العلوم کے نام سے ایک علمی ادارہ کی بنیاد رکھی۔ آپ لانبے قد اور مونڈھوں اور سینوں کے چوڑے مضبوط اور قوی مردوں میں سے تھے۔ رنگ کے سپید لیکن سرخی مائل۔ بڑی آنکھوں اور گھنی ڈاڑھی والے، اپنے کھانے اور لباس کے معاملہ میں کم تکلف کرتے، آخر زندگی تک بدنی ریاضت میں پابندی کرنے والے تھے۔ اپنی آمدنی مال وتنخواہ کے بارے میں بہت پرہیز گار، بہت ہی بردبار اور تواضع کے مالک تھے۔ بیماروں کی عیادت کرتے اور جنازوں میں حاضر ہوتے۔ بہت ہی انعام ونیکی کرنے والے، نہ تو اپنا مال جمع رکھتے اور نہ ہی اس کا اہتمام 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 بسم اﷲ الرحمن الرحیم! 1 1
Flag Counter