نبوت سے انکار کرے یا جنگ بدر یا جنگ احد کی واقعیت سے انکار کرے۔ یا حضرت نوح علیہ السلام کی طوالت عمری کا انکار کرے یا مثلاً یوں کہے کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بھائی نہ تھے۔ یا حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے نہ تھے۔ یا مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ ان کے بھائیوں نے کوئی بدسلوکی نہیں کی تھی تو بظاہر یہ سارے اقوال ایسے ہیں کہ ایک ظاہر بین انسان ان کی تردید کرنے کو ایک لایعنی فعل اور فضول کام قرار دے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اقوال کی رو سے تکذیب کلام اﷲ لازم آتی ہے۔ مثلاً کلام اﷲ میں حضرت یونس علیہ السلام کی نبوت کا اقرار ہے اور قائل اس سے انکار کرتا ہے۔ پس اس سے تکذیب باری تعالیٰ لازم آتی ہے۔ اسی طرح حیات مسیح علیہ السلام کے انکار سے تکذیب باری تعالیٰ، تکذیب رسولﷺ، تکذیب صحابہؓ، تکذیب مجددین امت بلکہ تکذیب جمیع اولیاء امت کا اقرار کرنا پڑتا ہے۔ اس کے قبول کر لینے کے بعد اسلام میں پھر کوئی عقیدہ کوئی بات بھی قابل اعتبار نہیں رہتی۔ اس واسطے میں نے عوام الناس بالخصوص سائنس زدہ انگریزی تعلیم یافتہ حضرات کے سامنے مسئلہ کی حقیقت الم نشرح کرنی ضروری سمجھی۔
العارض بندہ ابوعبیدہ۔ بی اے