Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

8 - 142
(۱)  …  حضرت سیدنا ابوہریرہؓ
(وفات ۵۹ھ)
	نام‘ قبیلہ‘ وطن:حضرت ابوہریرہؓ قبیلہ دوس سے تھے۔ وطن یمن تھا۔ عرب میں کنیت کا بہت رواج تھا۔ فلاں کا باپ‘ فلاں کی بیٹی‘ فلاں کا بیٹا‘ فلاں کی ماں‘ کہتے تھے۔ کنیت نے اتنی وسعت اختیار کی کہ نابالغ بچے کی کنیت رکھ دی جاتی تھی۔ بسا اوقات اصل نام پر کنیت کا ایسا غلبہ ہوجاتا کہ اصل نام کا جاننے والا سوائے کسی قریبی تعلق والے کے کوئی نہ ہوتا۔ یہی حال حضرت ابوہریرہؓ کے نام کا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے الاصابہ فی تمیز الصحابہ میں آپ کے نام کے متعلق بیس اقوال درج کئے اور آپ کے والد کے نام میں پندرہ اقوال درج کئے۔ راحج قول وہ ہے جو محدث حاکم نے نقل کیا کہ آپ کا نام عبدالرحمن بن صخر معلوم ہوتا ہے۔ کنیت کا سلسلہ عرب میں اتنا بڑھا ہوا تھا کہ بسا اوقات ماں باپ کی جگہ دوسری چیزوں کو مضاف الیہ بناکر بھی کنیت رکھ دیتے تھے۔ جیسے ابو تراب (مٹی والا) ابوہریرہ(بلی والا)
	الاصابہ میں ترمذی کے حوالہ سے مذکور ہے کہ عبیداﷲ بن رافع نے حضرت ابوہریرہؓ سے پوچھا کہ آپ کی ابوہریرہؓ کنیت کیوں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میری ایک چھوٹی سی بلی تھی۔ رات کو درخت پر بیٹھا دیتا۔ دن کو بکریاں چراتا تو وہ ساتھ رہتی تھی۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک دن میں اپنی آستین میں چھوٹی بلی کو چھپائے جارہا تھا۔ آنحضرتﷺ نے پوچھا یہ کیا ہے۔ میں نے عرض کی کہ بلی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا! یااباہریرہؓ (اے بلی والے) اس کو لکھ کر استیعاب میں ہے:’’ وھذا اشبہ عندی ان یکون لنبیﷺ کناہ بذالک‘‘(میرے نزدیک زیادہ صحیح یہی ہے کہ آپﷺ نے ان کی کنیت مقرر فرمائی تھی)
دربار رسالتؐ میں حاضری
	۷ہجری میں اپنے وطن یمن سے مدینہ منورہ حاضر ہوئے۔ آپﷺ اس وقت فتح خیبر کے لئے تشریف لے گئے تھے۔ ابوہریرہؓ خیبر میں آپﷺ سے جاکر ملے۔ اس وقت ابوہریرہؓ کی عمر تیس سال سے زیادہ تھی۔ خیبر میں اسلام قبول کیا۔ غزوہ خیبر میں شرکت کی۔ یوں چار سال آپﷺ کی خدمت میں برابر حاضر باش رہے۔ یمن سے سفر کے دوران میں ابوہریرہؓ کا غلام گم ہوگیا تھا۔ خیبر میں آپ نے اسلام قبول کیا تو اچانک وہ غلام سامنے آگیا۔ آپﷺ نے فرمایا یہ تمہارا غلام ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ نے فرمایا :’’ھو حر لوجہ اﷲ۰‘‘ میں نے اﷲ تعالیٰ کے لئے اس کو آزاد کردیا۔
	والدین:حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ میں یتیمی میں پلا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل والد صاحب کا انتقال ہوگیا تھا۔ والدہ یمن سے کب مدینہ منورہ تشریف لائیں یہ تو معلوم نہ ہوسکا۔ البتہ یہ یقینی ہے کہ والدہ آپ کے ساتھ مسلمان نہ ہوئیں بلکہ آپ کی تبلیغ سے بعد میں اسلام لائیں۔ چنانچہ خود فرماتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں۔ ایک دن آنحضرتﷺ کے متعلق والدہ نے نازیبا کلمات کہہ دئیے۔ میرا کلیجہ شق ہوگیا۔ فوراً زخمی دل اور بوجھل قدموں سے روتا ہوا آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور والدہ کے ایمان کے لئے درخواست کی۔ آپﷺ نے فرمایا :’’اللھم اھد۰ام اباہریرہؓ۰‘‘ یا اﷲ ابوہریرہؓ کی والدہ کو ہدایت دے دے۔ حضرت ابوہریرہؓ یہ دعا سنتے ہی قبولیت کے یقین کے ساتھ گھر کو پلٹے۔ دروازہ بند تھا۔ آہٹ پاکر والدہ نے گھر سے آواز دی ابوہریرہؓ باہر رکے رہو۔ فرماتے ہیں کہ میں نے پانی کی آواز سے اندازہ کیا کہ والدہ غسل کررہی ہیں۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter