Deobandi Books

یاد دلبراں ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

3 - 142
سمجھا جائے۔ کسی بھی بزرگ کے انتقال پر فوری طبیعت آمادہ ہو، فرصت مل جائے تو مضمون لکھا گیا۔ فرصت نہ ملی یا طبیعت صدمہ سے اتنی نڈھال ہوئی کہ اسے آئندہ پر موقوف رکھا گیا تو موقوف رکھنا باالکلیتہ عدم مضمون نویسی کا باعث بن گیا۔ پھر کسی پرچہ نے نمبر نکالنے کے لئے تقاضہ کیا تو کچھ لکھنے کی سبیل پیدا ہوگئی۔ ورنہ معاملہ ٹھپ ہوگیا۔
	۴…	لیکن یہ سوال اپنی جگہ اب بھی قائم ہے کہ فقیر نے لولاک میں ان حضرات پر تعزیتی مضامین کیوں نہ لکھے؟ حالانکہ ان مرحومین کے احترام ومقام اور نسبت کا تقاضہ تھا کہ مضمون لکھا جائے۔ اس میں بھی ایک انتظامی اصول کا دخل ہے۔ وہ یہ کہ ماہنامہ لولاک کے ایڈیٹر مخدوم ومحترم حضرت صاحبزادہ طارق محمود صاحب مرحوم ومغفور تھے۔ جس شخصیت کے وصال پر وہ تعزیتی شذرہ یا مضمون لکھ دیتے تو جماعتی تقاضہ پورا ہوجاتا۔ اس پر فقیر باالکل کچھ نہ لکھتا کہ چلو ضرورت پوری ہوگئی۔ ہاں اگر صاحبزادہ صاحب مرحوم کے مضمون میں مزید کچھ لکھنا جماعتی نقطۂ نظر سے ضروری ہوتا تو فقیر اس جماعتی ضرورت کے پیش نظر وقت نکال کر ضرور ’’مکھیاں‘‘ مارتا۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ سے پوری صورتحال پر تفصیلی روشنی پڑ سکتی ہے۔ وہ یہ کہ:
	رمضان المبارک کی عید کی رخصت پر فقیر اپنے گاؤں تھا کہ حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمی صاحب مرحوم کے سانحہ ارتحال کی خبر ملی۔ جب دفتر حاضر ہوا تو حضرت مرحوم پر بلامبالغہ بیسیوں صفحات پر مشتمل اپنی یاداشتوں کو قلمبند کیا اور رات کی تنہائی میں خوب محو ہوکر مضمون لکھا۔ صبح کو لولاک کی منتظمہ کے ساتھی نے بتایا کہ حضرت قاسمیؒ صاحب مرحوم پر صاحبزادہ طارق محمود صاحبؒ کا تفصیلی مضمون آگیا ہے۔ میں نے حضرت مولانا عزیزالرحمن صاحب جالندھری دامت برکاتہم سے صورتحال عرض کی کہ فقیر نے بھی مضمون لکھا ہے۔ حضرت صاحبزادہ صاحبؒ نے بھی۔ تو اب کیا کرنا ہے؟ حضرت مولانا عزیزالرحمن جالندھری مدظلہ نے فرمایا کہ صاحبزادہ مرحوم کا مضمون چھاپ دیں۔ ان کا ایسے فرمانا سو فیصد درست تھا۔ اس لئے کہ فقیر کی نسبت حضرت صاحبزادہ مرحوم کے مضامین جاندار ہوتے تھے اور وہ لولاک کے ایڈیٹر بھی تھے۔ ان کا حق فائق تھا۔ فقیر نے ایک سیکنڈ ضائع کئے بغیر اپنے مضمون کو چاک کر کے ردی کے سپرد کیا اور دوسرے کام میں لگ گیا۔
	کچھ عرصہ بعد صاحبزادہ صاحب مرحوم سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ آپ نے حضرت قاسمی صاحب مرحوم پر مضمون نہیں لکھا تو صورتحال عرض کی۔ بہت سٹ پٹائے کہ حضرت ناظم اعلیٰ صاحب دامت برکاتہم کا فیصلہ سوفیصد درست تھا۔ میرا ہی مضمون اس شمارہ میں شائع ہوتا یہ تو ساری اعتماد اور جماعتی اصول کی باتیں ہیں۔ لیکن آپ نے مضمون چاک کیوں کیا؟ رکھا رہتا پھر کسی موقع پر شائع ہوجاتا۔ کسی اور رسالہ میں شائع کردیتے۔ پہلی دفعہ جو مضمون لکھا جائے وہ ضائع ہوجائے تو دوسری بار ایسا لکھا بھی نہیں جاسکتا۔ مضمون پھاڑنے کی آپ نے غلطی کی۔ مجھے بھی احساس ہوا کہ دوسرے کاموں کے سر پر سوار ہونے کے باعث یہ سوچ نہ سکا۔ جلدی میں ضائع کر دیا۔ پھر نہ کسی پرچہ نے نمبر نکالا نہ کسی نے مطالبہ کیا۔ مضمون رہ گیا۔
	ان تفصیلات کے بعد گذارش ہے کہ جن حضرات کا اوپر تذکرہ کیا یا مزید حضرات جن پر ’’فراق یاراں‘‘ میں مضامین شامل نہیں ہیں۔ ان پر فقیر کچھ نہیں لکھ سکا۔ یا لکھا تو وہ لولاک کے علاوہ کسی اور پرچہ میں شامل ہوئے۔ جب کہ ’’فراق یاراں‘‘ صرف لولاک میں شائع شدہ فقیر کے مضامین کا مجموعہ ہے۔ اپنے دور کے بزرگ، رفقائ، اکابر واصاغر جن کی صحبتوں کا شرف اور 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter