Deobandi Books

تذکرہ خواجۂ خواجگان ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

73 - 251
پایا کہ رمضان المبارک کے بعد اس پر قانون سازی کریں گے۔ اس زمانہ میں پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب حنیف رامے تھے۔ جو خود سوشلسٹ اور ان کی اہلیہ شاہین رامے وہ کوئٹہ کے قادیانی جماعت کے امیر کی صاحبزادی تھیں۔ رمضان شریف ایک مہینہ کا وقفہ ملا۔ قادیانی لابی نے جناب بھٹو مرحوم اور قائد حزب اختلاف مولانا مفتی محمودؒ کے درمیان اتنی دوری کر دی کہ پھر یہ حضرات باہمی سرجوڑ کر نہ بیٹھ سکے۔ مثلاً تحریک ختم نبوت ۱۹۷۴ء کے دوران کے تمام قیدی رہا کرنے تھے۔ حنیف رامے نے نہ ہونے دئیے۔ حنیف رامے نے کہا کہ مولوی حلوہ کے بھوکے ہیں۔ مجلس عمل کے رہنما مولانا شاہ احمد نورانیؒ نے کہا کہ بھٹو صاحب کو مجبوراً یہ مسئلہ ماننا پڑا۔ بھٹو صاحبؒ نے جواب میں کہا کہ ان کی داڑھی میں جو ئیں ہیں۔ غرض قادیانیوں نے دونوں طرف سے اتنی غلطی فہمی پیدا کر دی کہ اس ترمیم پر قانون سازی نہ ہوسکی۔ یہی قادیانی چاہتے تھے۔ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ نے عید کے بعد مجلس عمل کے ذریعہ بھٹو صاحبؒ سے مذاکرات کی کوشش کی تو بھٹو صاحبؒ کے مشیران آڑے آگئے۔ چنانچہ سرے سے ملاقات نہ ہونے دی گئی۔ اس کش مکش میں اسمبلیاں ٹوٹیں۔ نئے الیکشن ۷۷ء کا اعلان ہوا۔ الیکشن میں دھاندلی کے بہانہ سے بھٹو صاحبؒ کے خلاف تحریک چلی تو نتیجہ میں بھٹو صاحبؒ کی حکومت کا دھڑن تختہ ہوگیا۔ جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ نوے دن کے لئے آئے اور ایک عشرہ کرسی صدارت کو رونق بخشتے رہے۔ اس دوران میں ہمارے مخدوم حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کا وصال ہوگیا۔ حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ عالمی مجلس کے امیر بنے۔ آپ کی سربراہی میں آل پارٹیز مرکزی مجلس عمل تحفظ ختم نبوت پاکستان قائم ہوئی۔ حضرت مولانا مفتی مختار احمد نعیمیؒ اس کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ سیکرٹری بنے۔ مولانا محمد شریف جالندھریؒ رابطہ سیکرٹری، اﷲ رب العزت کا نام لے کر مجلس عمل تحفظ ختم نبوت کے سٹیج سے حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ نے ملک بھر کا تبلیغی دورہ کیا۔ جگہ جگہ ختم نبوت کی کانفرنسیں منعقد ہوئیں۔ تمام مکاتب فکر ایک سٹیج پر براجمان ہوئے۔ فیصل آباد، کوئٹہ، کراچی، سیالکوٹ، لاہور کی عدیم المثال ختم نبوت کانفرنسوں کے بعد ’’۲۷؍اپریل ۱۹۸۴ء کو راولپنڈی چلو‘‘ کی کال دی گئی۔ حضرت مولانا محمد ضیاء القاسمیؒ نے پورے پنجاب کا دورہ کر کے پنجاب کو بیدار کر دیا۔ گوجرانوالہ سے کانفرنس کر کے پنڈی جاتے ہوئے آپ کو ڈنگہ جہلم کے قریب سے گرفتار کر کے بہاولپور جیل روانہ کردیا گیا۔ اس دوران میں ۲۰؍جنوری ۱۹۸۴ء کو حضرت مولانا تاج محمودؒ داغ مفارقت دے گئے۔ اس سانحہ نے حضرت قبلہ خواجہ خان محمد صاحبؒ کو مزید اس کام کے لئے متوجہ کردیا۔
	قارئین! یہ واقعہ ہے کہ ایک رات حضرت خواجہ خان محمد صاحبؒ نے فیصل آباد کارخانہ بازار میں ختم نبوت کانفرنس کی صدارت کی۔ اگلے روز گیارہ بجے کراچی پریس کانفرنس سے خطاب کیا۔ اسی رات کو کوئٹہ میں ختم نبوت کانفرنس کی صدارت۔ اگلے روز کہروڑپکا باب العلوم کے جلسہ کی صدارت۔ اسی شام کراچی سے حیدرآباد جاکر ختم نبوت کانفرنس کی صدارت فرمائی۔ ان دنوں کے آپ کے معمولات پر نظر ڈالیں تو لگتا ہے کہ ایک جرنیل جو اپنی فوجوں کو ہر محاذ پر منظم انداز میں آگے بڑھانے کے لئے درپے ہوتا ہے۔ یہی کیفیت حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحبؒ پر طاری تھی۔ نہ دن کا چین نہ رات کو آرام۔ محض رحمت عالمﷺ کی ختم نبوت کے دشمنوں کو نتھ ڈالنے کے لئے شب وروز ایک کئے ہوئے۔ فقیر راقم نہ مجلس کی تاریخ قلمبند کر رہا ہے۔ نہ تحریک ۱۹۸۴ء کی رپورٹننگ کر رہا ہے۔ مجھے تو محض حضرت قبلہؒ کے حوالہ سے ان داستانوں کو چھیڑنا پڑا ہے۔ 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter