کے پیش نظر وہاں خرچ ہو جاتے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ سے کچھ روز قبل یحییٰ خان ڈھاکہ گئے۔ مجیب الرحمن وغیرہ سے مذاکرات کے لئے طرح ڈالی، تو مجیب نے پہلی شرط یہ لگائی کہ ایم ایم احمد قادیانی یہ مشرقی پاکستان کا قاتل ہے۔ اس کو ڈھاکہ سے چلتا کرو۔ تب آپ سے مذاکرات کرنے یا نہ کرنے پر سوچا جاسکتا ہے۔ یہ تفصیلات احتساب قادیانیت جلد اوّل میں حضرت مولانا لال حسین اخترؒ کے بیان میں موجود ہیں جو آپ نے مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد اس کی انکوائری کے لئے جب حمود الرحمن کمیشن بنا تھا۔ اس میں آپ نے دیا تھا۔ ایم۔ایم احمد قادیانی نے ایک بار سالانہ وفاقی بجٹ بھی پیش کیا تھا۔ غرض منصوبہ بندی کا چیئرمین، کابینہ کا سینئر وزیر، گویا یحییٰ خان کی آنکھوں کا تارا تھا۔ یحییٰ خان کو جتنی اخلاق باختگی کی لت پڑی ہوئی تھی۔ اس کے لئے خام مال ربوہ سے ایم۔ ایم احمد قادیانی کے ذریعہ سے ملتا تھا۔ پانچوں گھی میں، سر کڑاھی میں۔ ایم۔ ایم احمد قادیانی کے پاؤں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ چنانچہ یحییٰ خان ایک بار ایران کے دورہ پر جانے لگے تو ایم۔ ایم احمد قادیانی کو قائم مقام صدر پاکستان بنا کر گئے۔ اسلم قریشی نے کسی اخبار میں قادیانی عقائد پڑھے تھے۔ اگلے دن لفٹ میں اسلم قریشی نے اس پر حملہ کر کے اسے زخمی کر دیا۔ پاکستان کی صدارت کی کرسی پر بیٹھنے کی بجائے اسے سٹریچر پر ڈال کر ہسپتال لے جایا گیا۔ اسلم قریشی گرفتار ہوگئے۔ اس پر مارشل لاء کے تحت کیس چلا۔ تب راجہ ظفر الحق صاحب وکالت کرتے تھے۔ ان کو مجلس تحفظ ختم نبوت نے وکیل کیا۔ مولانا محمد رمضان علویؒ، مولانا قاری محمد امینؒ، مولانا محمد عبداﷲؒ اسلام آبادی کیس کے لئے راجہ صاحب سے رابطہ میں رہتے۔ مولانا محمد شریف جالندھریؒ نے کیس لڑنے میں جان کھپا دی۔ اس واقعہ سے پہلے نہ اسلم قریشی کو مجلس جانتی تھی نہ اس کا کسی سے رابطہ تھا۔ وقوعہ کے بعد خبر ہوئی تو مجلس نے اپنا فرض سمجھا کہ قانونی امداد اسے مہیا کی جائے۔ تاکہ قادیانیت کا عفریت اس مسلمان کو زندہ نہ نگل لے۔ خیر اسلم قریشی کو پندرہ سال کی سزا ہوئی۔ جنرل موسیٰ خان گورنر تھے۔ اپیل ان کے پاس گئی تو حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ نے اس میں تخفیف کرادی۔ اڑھائی سال بعد یہ رہا ہوگیا۔ رہا ہونے کے بعد اب ملازمت سے یہ فارغ ہوا تو مجلس نے سوچا کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان ہے۔ قادیانیت کے خلاف اسے معلومات ہیں تو سیالکوٹ میں مجلس کا اسے مبلغ بنادیا۔
اس نے پورے ضلع میں قادیانیت کے خلاف تبلیغ کر کے عوام کو نیا شعور دیا۔ چنانچہ قادیانی اس کے نام سے خار کھانے لگے۔ ۱۷؍فروری ۱۹۸۳ء کو اسلم قریسی معراجکے ضلع سیالکوٹ میں تقریر کے لئے گیا۔ واپس نہ آیا تو ان کے اغواء کا کوشش بسیار کے بعد ۲۳؍فروری ۱۹۸۳ء کو جاکر کیس درج ہوا۔ اس کیس نے ایسی پیچیدگی اختیار کی کہ اس کو اغواء کرنے میں قادیانیوں کا ہاتھ ہے۔ مثلاً:
۱… معراجکے قادیانی جماعت کے سربراہ کو تفتیش کے لئے پولیس نے بلایا تو اس نے جیب سے ڈاکٹر کا نسخہ نکال کر دے دیا کہ میں دل کا مریض ہوں۔ مجھے کچھ ہوا تو پولیس ذمہ دار ہوگی۔
۲… ڈی۔آئی۔جی، ایس۔پی نے ایک میٹنگ میں کہا کہ چار دنوں بعد اسلم قریشی آپ کو مل جائے گا۔
۳… ہمیں ایک خط ملا کہ ساہیوال میں فلاں قادیانی کے مکان کے تہہ خانہ میں اسلم قریشی ہے۔ اس زمانہ میں آئی۔جی سپیشل برانچ میاں عبدالقیوم تھے۔ ان سے رابطہ کیا۔ چار دنوں بعد انہوں نے کہا کہ اس مکان میں تو تہہ خانہ ہی نہیں۔ ہمیں یقین ہوگیا کہ ہمیں خط کے ذریعہ غلط بریف کیاگیا۔ لیکن معلوم کیا تو پتہ چلا کہ تہہ خانہ ہے۔ بلدیہ کے ریکارڈ سے اس مکان کا نقشہ حاصل کیا۔