Deobandi Books

ختم نبوت کے متفرق رسائل ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

7 - 132
’’سنت نبویہ میں قتل مرتد کا کوئی اسوہ نہیں ملتا‘‘ اس کے جواب میں ہم بجز اس کے کیا کہیں کہ ہمارے نبی کریمﷺ کے دین اور آپﷺ کی احادیث میں دخل دینا ہی ان کی اصولی غلطی اور خوامخواہ دخل درمعقولات ہے۔ ان کو چاہئے کہ وہ اپنے مہدی‘ مسیح‘ نبی‘ میکائیل‘ عیسیٰ‘ موسیٰ‘ ابراھیم‘ آدم‘ مرد‘ عورت‘ حاملہ‘ حائضہ‘ غرض ہررنگی مقتدأ کی عبارات اور اس کے ادھیڑ بن میں لگے رہیں اور احکام اسلامیہ کو ان لوگوں کے سپرد کریں جو اس کے اہل ہیں۔
خلفائے راشدینث اور قتل مرتد
	اس بحث میں سب سے پہلے افضل الناس بعد الانبیاء خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیق اکبرؓ  کا عمل ملاحظہ فرمائیے۔ 
	۱…… شیخ جلال الدین سیوطیؒ تاریخ الخلفاء میں حضرت عمرؓ سے نقل کرتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ کی وفات ہوئی اورمدینہ کے اردگرد میں بعض عرب مرتد ہوگئے تو خلیفہ وقت صدیق اکبرؓ  شرعی حکم کے مطابق ان کے قتل کے لئے کھڑے ہوگئے اور عجب یہ کہ فاروق اعظمؓ جیسا اسلامی سپہ سالار اس وقت ان کے قتل میں بوجہ نزاکت وقت تأمل کرتا ہے۔ لیکن یہ خدا کی حدود تھیں جن میں مساہلت سے کام لینا صدیق اکبرؓ کی نظر میں مناسب نہ تھا۔ اس لئے فاروق اعظمؓ کے جواب میں بھی یہی فرمایا: ’’ھیھات ھیھات مضی النبیﷺ وانقطع الوحی واﷲ لا جاھد ھم ما استمسک السیف فی یدی۰ تاریخ الخلفاء ص۶۱ فصل فی ما وقع فی خلافتہ۰‘‘ ’’ہیہات ہیہات آنحضرتﷺ کی وفات ہوگئی اور وحی منقطع ہوگئی۔ خدا کی قسم میں ضرور ان سے اس وقت تک جہاد کرتا رہوں گا جب تک میرا ہاتھ تلوار پکڑسکے گا۔‘‘یہاں تک کہ فاروق اعظمؓ کو بھی بحث کے بعد حق واضح ہوگیا اور اجماعی قوتوں سے مرتدین پر جہاد کیا گیا اور ان میں سے بہت سے تہ تیغ کردئیے گئے۔
	۲……حوالئی مدینہ سے فارغ ہوکر صدیق اکبرؓ مسیلمہ کذاب کی طرف متوجہ ہوئے جو نبوت کا دعویٰ کرنے کی وجہ سے باجماع صحابہؓ مرتد قرار دیا گیا تھا۔ چنانچہ ایک لشکر حضرت خالدؓ کی سرکردگی میں اس کی طرف روانہ کیا جس نے مسیلمہ کذاب کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ (فتح الباری‘ تاریخ الخلفاء ص۶۳ فصل فی ما وقع فی خلافتہ‘ طبع اصح المطابع کراچی) اس واقعہ سے یہ بھی ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کے بعد ہر مدعی نبوت مرتد ہے۔ اگرچہ وہ کسی قسم کی نبوت کا دعویٰ کرے یا کوئی تاویل کرے۔ کیونکہ مسیلمہ کذاب جس کو صدیق اکبرؓ نے قتل کرایا ہے وہ آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت کا منکر نہیں تھا۔ بلکہ اپنی اذان میں اشھد ان محمداً رسول اﷲ۰ کا اعلان کرتا تھا۔ (تاریخ طبری ج۱ حصہ دوم ص۱۰۰‘ اردو نفیس اکیڈمی لاہور)پھر جس جرم میں اس کو مرتد ‘واجب القتل‘ سمجھا گیا وہ صرف یہ تھا کہ آپﷺ کی نبوت کو ماننے کے باوجود اپنی نبوت کا بھی دعویٰ کرتا تھا۔ جیسا کہ مرزا قادیانی کا بعینہ یہی حال ہے۔ 
	۳…… پھر ۱۲ہجری میں بحرین میں کچھ لوگ مرتد ہوگئے تو آپؓ نے ان کو قتل کے لئے علاء ابن الحضرمیؒ  کو روانہ کیا۔ 		         (تاریخ الخلفاء ص۶۳)
	۴…… اسی طرح عمان میں بعض لوگ مرتد ہوگئے تو ان کے قتل کے لئے عکرمہؓ ابن ابی جہل کو حکم فرمایا۔ 				              (تاریخ الخلفاء ص۶۳)
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter