Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الاول 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 16
***
محنت وریاضت
فقیہ ابواللیث سمر قندی 
بھلائی کے دروازے
حضرت معاذ  بن جبل سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیا میں تمہیں خیر کے ابواب نہ بتاؤں؟ میں نے عرض کیا ضرور بتائیں ۔ ارشاد فرمایا روزہ ڈھال ہے ۔ صدقہ برہان ہے۔ بندے کا آدھی رات کی عبادت کرنا ہر گناہ کو ختم کر دیتا ہے ۔
حضرت ابوعبیدہ  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ روزہ ڈھال ہے جب تک اسے توڑنہ ڈالے، یعنی غیبت وغیرہ کرکے اسے بے جان نہ بنالے۔
آخرت کا توشہ
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں، چار چیزیں آخرت کا توشہ ہیں ، روزہ نفس کی صحت ہے ۔ صدقہ آدمی او ردوزخ کے درمیان آڑہے اور نماز بندہ کے لیے اپنے رب کے قرب کا ذریعہ ہے اور ندامت کے آنسو گناہوں کو دھو ڈالتے ہیں۔
طاعت کی بنیاد
فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ طاعت کی بنیاد تین چیزیں ہیں، خوف ، امیدورجا اور محبت، خوف کی علامت حرام کاموں کو ترک کرنا ہے اور طاعت وفرماں برداری کی رغبت امیدور جا کی علامت ہے ۔ ذوق وشوق اور دھیان میں رہنا محبت کی علامت ہے۔
معصیت کی بنیاد
معصیت کی بنیاد بھی تین چیزیں ہیں، تکبر، حرص اورحسد ۔ شیطان نے کبر کااظہار کیا کہ سجدے کا حکم ملا، مگر انکار کیا، اسی وجہ سے مردود اور لعنتی بنا، حرص کا ظہور حضرت آدم علی نبینا وعلیہ السلام سے ہوا کہ جنت میں ہمیشہ رہنے کے لیے شجر ممنوعہ کا استعمال کرلیا۔ جس پر وہاں سے نکلنا پڑا اور حسد حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے قابیل نے کیا کہ اپنے بھائی کو قتل کر ڈالا تو دوزخ میں ڈال دیا گیا۔ لہٰذا ہر کسی پر واجب ہے کہ گناہوں سے بچے اور طاعت میں لگنے کی محنت کرے اور یہ کہ طاعت بھی خالص الله تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو ۔ حدیث شریف میں ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص چالیس دن تک اخلاص کے ساتھ الله تعالیٰ کی عبادت کرتا ہے تو اس کے دل سے حکمت کے چشمے پھوٹتے ہیں اور زبان پر جاری ہوتے ہیں۔
نفرت کا بیج بونے والے اور محبت کا بیج بونے والے
کہتے ہیں کہ تین طرح کے آدمی لوگوں کے قلوب میں اپنے لیے نفرت کا بیج بوتے ہیں اور ان کی ناراضگی حاصل کرتے ہیں اور اپنی بنی بنائی عمارت کومسمار کر لیتے ہیں ۔ ایک وہ شخص جو لوگوں کی عیب چینی میں مشغول ہے۔ دوسرا خود پسند آدمی۔ تیسراریا کار۔ اور تین طرح کے آدمی لوگوں کے قلوب میں اپنے لیے محبت کا بیج بوتے ہیں اور عافیت حاصل کرتے ہیں ۔ آسمانوں پر ان کا مرتبہ اونچا ہوتا ہے، ایک اچھے اخلاق والا آدمی ، دوسرا مخلص شخص ، تیسرا تواضع والا۔
حساب ہونے سے پہلے اپنا حساب کر لو
حضرت عمر  فرماتے ہیں ، حساب ہونے سے پہلے پہلے اپنا محاسبہ آپ کر لو، اس سے تمہارے حساب میں آسانی پیدا ہو گی اور وزن ہونے سے پہلے اپنا وزن کرتے رہو اور بڑی پیشی کے لیے تیاری میں لگے رہو کہ اس دن کوئی چھپنے والا چھپ نہیں سکے گا۔
حضرت یحییٰ بن معاذ فرماتے ہیں کہ لوگ تین قسم کے ہیں، ایک وہ جن کو آخرت کی فکر میں کسب معاش سے دلچسپی نہیں۔ دوسرے وہ جو کسب دنیا کی وجہ سے آخرت سے غافل ہیں ، تیسرے وہ جو دونوں میں لگے ہوئے ہیں، پہلی قسم کے لوگ فائزین عابدین ( کامیاب عبادت گزار) کے درجہ والے ہیں ، دوسری قسم ہالکین ( ہلاک ہونے والے ) کی ہے ۔ تیسری قسم مخاطرین (خطرہ والے) کی ہے کہ احتیاط نہ ہوئی تو ہلاکت کا خطرہ ہے۔
چار چیزوں کی قدر
حاتم زاہد سے منقول ہے کہ چار چیزوں کی قدر چار قسم کے لوگ ہی پہچانتے ہیں۔
جوانی کی قدر بوڑھے لوگ پہچانتے ہیں۔
عافیت کی قدر مصائب میں مبتلا لوگ پہچانتے ہیں۔
او رصحت کی قدر بیماروں کو محسوس ہوتی ہے۔
اور زندگی کی قدر کا احساس مرنے والے کو ہوتا ہے۔
فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ یہ مضمون دراصل ایک حدیث سے لیا گیا ہے ،رسول الله صلی الله علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں ” پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔جوانی کو بڑھاپے سے پہلے ، صحت کو بیماری سے پہلے ، تونگری کو ناداری سے پہلے، فرصت کو مصروفیت سے پہلے، زندگی کو موت سے پہلے۔“ لہٰذا انسان کو چاہیے کہ اپنی زندگی کی قدر پہچانے ، ہر آنے والی گھڑی کو غنیمت سمجھے اور سوچتا رہے کہ خدا معلوم آنے والی گھڑی کیسی ہو گی؟ ذرا مرنے والوں کی ندامت کا بھی تصور کیا کرے کہ وہ دو رکعت کی مقدار یا صرف لا الہ الا الله کہنے کی مقدار کی تمنا کرتے ہیں اور تجھے وہ مقدار آج حاصل ہے، لہٰذا حسرت وندامت کا وقت آنے سے پہلے پہلے الله کی عبادت میں خوب محنت کرے۔
عمل کی بنیاد
حاتم  سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے عمل کی بنیاد کس چیز کو بنایا ہے فرمایا چار چیزوں کو، ایک یہ کہ میرا رزق مقرر ہے، جو میرے سوا کسی کو نہیں مل سکتا۔ جیسا کہ کسی دوسرے کا رزق مجھے نہیں ملتا۔ اس بات پر میں نے خوب یقین بٹھالیا ہے۔ دوسری یہ کہ میرے ذمہ کچھ فرائض ہیں جو میرے سوا کوئی دوسرا ادا نہیں کر سکتا ، لہٰذا میں ان کی ادائیگی میں مشغول ہوں ۔ تیسری یہ کہ میرا یقین ہے کہ میرا رب ہر وقت مجھے دیکھ رہا ہے ، لہٰذ ا میں اس سے حیاء رکھتا ہوں۔ چوتھی چیز یہ کہ میں جانتا ہوں کہ میرے پاس ایک مدت ہے، جو چلی جارہی ہے، لہٰذا میں اس سے بھی پہلے کچھ کر لینا چاہتا ہوں ۔ فقیہ رحمہ الله فرماتے ہیں کہ موت کی طرف سبقت کا مطلب ہے اعمال صالحہ کے ذریعہ اس کی تیاری کرنا۔ الله تعالیٰ کے روکے ہوئے کاموں سے رکنا اور اس کے سامنے عاجزی کرتے رہنا کہ اس توفیق پر قائم رکھے اور خاتمہ بالخیر ہو جائے۔
دنیا کا ثواب عبادت میں حلاوت اور لذت ہے
کسی دانا کا قول ہے کہ آدمی کو عبادت کی لذت تب حاصل ہوتی ہے کہ حسن نیت کے ساتھ اس میں شروع ہو،ا سے الله کا احسان سمجھے خوف وخشیت کے ساتھ عمل کرے۔ اخلاص کے ساتھ پیش کرے کیوں کہ جب حسن نیت کے ساتھ شروع ہو گا اور اس علم کے ساتھ کہ الله تعالیٰ نے اسے عمل کی توفیق بخشی تو الله تعالیٰ کا احسان جانے گا اور شکر بھی کرے گا۔ جس پر الله تعالیٰ کی طرف سے مزید عنایت ہو گی کہ اس نے ﴿لئن شکرتم لازید نکم﴾۔شکر کرو گے تو مزید انعام پاؤگے۔فرمایا ہے ﴿لئن کفرتم ان عذابی لشدید﴾ اگر ناشکری کی تو میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے۔تو جب عمل خوف وخشیت سے ہو گا تو الله تعالیٰ کی طرف سے ثواب ملے گا کہ اس کا فرمان ہے ﴿ ان الله لا یضیع اجر المحسنین﴾․ 
الله پاک نیکوکار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔
اور دنیا کا ثواب یہی ہے کہ طاعت وعبادت میں حلاوت ولذت حاصل ہونے لگے اور آخرت کا ثواب جنت ہے اور اخلاص کے ساتھ پیش کرے گا تو الله تعالیٰ قبول فرمائیں گے، جس کی علامت یہ ہے کہ اسے اس سے بھی کسی بڑے عمل کی توفیق مل جاتی ہے۔
دھوکہ کی علامت
کہتے ہیں کہ دھوکہ میں مبتلا ہونے کی علامت تین چیزوں میں ہے۔ اتنا مال جمع کرلے، جسے چھوڑ کر مرے گا۔ گناہوں کی کثرت، جواسے ہلاک کر دے گی۔ ایسے اعمال کو چھوڑ بیٹھنا ،جو نجات کا ذریعہ ہیں۔
توجہ الی الله
توجہ الی الله کی علامت بھی تین چیزیں ہیں، دل میں فکروسوچ رکھے ، زبان ذکر کے لیے اور بدن خدمت کے لیے وقف ہو۔
خود فریبی کی علامتیں
کہتے ہیں کہ فریب خوردہ آدمی کی تین علامتیں ہیں، اول یہ کہ شہوتوں کی طرف جلد بازی کرتا ہو اور ٹھوکرکھانے کی پروا نہ کرے۔ دوسری یہ کہ توبہ کو لمبی لمبی امیدوں کے سہارے ٹالتا رہے۔ سوم یہ کہ عمل کے بغیر ہی اجر آخرت کا امیدوار بنا رہے۔
شیطان کا مذاق کرنا
کسی دانا کا مقولہ ہے کہ جو شخص تین چیزوں کا دعویٰ تین چیزوں کے بغیر کرتاہے تو یقین جانو کہ شیطان اس کے ساتھ مذاق کرتا ہے۔
جو شخص ذکر الله کی حلاوت کا دعویٰ کرتا ہے اور حُبّ دنیا بھی رکھتا ہے۔
جو شخص اپنے نفس کو ناراض کیے بغیر اپنے خالق کو راضی کرنے کا مدعی ہے۔
جو شخص لوگوں کی تعریف وثنا بھی چاہتا ہے او رپھر اخلاص کا دعویٰ بھی کرتا ہے۔
عمل مقبول نہ ہونا
ابونضرہ فرماتے ہیں کہ جو شخص چار چیزوں کے باوجود کسی بھلائی میں اضافہ نہیں کرسکا۔ معلوم ہوتا ہے کہ اس کا یہ عمل بھی مقبول نہیں، پہلی یہ کہ جو شخص ماہ رمضان کے روزے رکھتا ہے اور مزید کسی نیکی میں ترقی نہیں کرتا، یہ بھی اس کے نامقبول ہونے کی علامت ہے ۔ دوسری یہ کہ جو حج فرض ادا کرتا ہے اور کسی بھلائی میں آگے نہیں بڑھتا، یہ بھی اس کے نامقبول ہونے کی علامت ہے۔ تیسری یہ کہ جو شخص جہاد کرکے لوٹا ہے، پھر کسی بھلائی میں اضافہ نہیں کر پایا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ اس کا جہاد بھی مقبول نہیں ۔ چوتھی یہ کہ جو شخص بیماری سے صحت یاب ہوا اور کسی بھلائی میں آگے نہیں بڑھا ،یہ اس بات کی علامت ہے کہ بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ نہیں بنی۔
چارچیزیں عمل کی درستی کے لیے
کہتے ہیں کہ عاقل شخص کو چار چیزیں درکار ہیں، جن سے ان کے اعمال درست ہوں گے او رمحنت ضائع نہ ہو گی ۔ ایک علم جو اس کے لیے حجت بنے، دوسرا تو کل کہ عبادت میں دل جمعی میسرآئے اور لوگوں سے کوئی امید وابستہ نہ ہو، تیسرا صبر کہ اس کا عمل مکمل ہو ، چوتھا اخلاص کہ اس کے ساتھ ا جر پاسکے۔
استقامت
حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ جو شخص بھی اس خیر یعنی جنت کا طالب ہو گا وہ خوب محنت کرے گا، لاغر ہو جائے گا، کمزور پڑ جائے گا او رمسلسل استقامت دکھائے گا، حتی کہ الله تعالیٰ سے جاملے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿ ان الذین قالوا ربنا الله ثم استقاموا﴾․
یعنی جنہوں نے الله تعالیٰ کی ربوبیت کا اقرار کیا اور اس کے تقاضوں پر پابندی اختیار کی۔
ایک دانا کا قول ہے کہ استقامت کی علامت یہ ہے کہ وہ شخص پہاڑ جیسا بن جائے ،پہاڑ میں چار خاصیتیں ہیں ،ایک یہ کہ گرمی اور حرارت سے پگھلتا نہیں۔ دوسرا یہ کہ سردی اسے منجمد نہیں کرتی۔ تیسری یہ کہ ہوا اسے ہلا نہیں سکتی۔ چوتھی یہ کہ سیلاب اسے بہا نہیں سکتا۔ ایسے ہی استقامت والے شخص میں چار خوبیاں ہوتی ہیں، ایک یہ کہ اس پر کوئی احسان کرے تو صرف احسان کی وجہ سے وہ ناحق اس کی طرف نہیں جھکتا۔ دوسری یہ کہ کوئی اس کے ساتھ برائی کرے تو صرف اس وجہ سے وہ ناحق بات نہیں کہتا۔ تیسری یہ کہ نفس کی خواہشات اسے احکام خدا وندی سے نہیں ہلاسکتیں۔ چوتھی یہ کہ دنیوی متاع کا سیلاب اسے الله تعالیٰ کی اطاعت سے نہیں روک سکتا۔
بھلائی کا خزانہ
کہتے ہیں کہ سات چیزیں بھلائی کے خزانوں میں سے ہیں اور ان میں سے ہر چیز قرآن سے ثابت ہے، اول عبادت میں اخلاص ۔ ارشاد ربانی ہے :﴿وما امروآ الا لیعبدوا الله مخلصین لہ الدین حنفآء﴾․
اور ان لوگوں کو یہی حکم ہوا تھا کہ الله کی عبادت اس طرح کریں کہ اسی کے لیے عبادت کو خاص رکھیں۔
دوسری والدین سے حسن سلوک کرنا، قرآن میں ہے:
﴿ان اشکرلی والدیک إليَّ المصیر﴾․
کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کیا کر پھر میری ہی طرف لوٹنا ہے۔
تیسری صلہ رحمی کرنا، قرآن میں ہے:
﴿ واتقوا الله الذی تسآء لون بہ والارحام﴾․
اور تم خدا تعالیٰ سے ڈرو، جس کے نام سے ایک دوسرے سے مطالبہ کیا کرتے ہو اور قرابت سے بھی ڈرو۔
چوتھی چیز ادائے امانت ہے، الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿ان الله یامرکم ان تودوا الامنٰت الی اھلھا﴾․
بے شک الله تعالیٰ تم کو اس بات کا حکم دیتے ہیں کہ اہل حقوق کو ان کے حقوق پہنچا دیا کرو۔
پانچویں یہ کہ الله تعالیٰ کی معصیت کے لیے کسی کی اطاعت نہ کرے،ارشاد پاک ہے ﴿ولا یتخذ بعضنا بعضااربابا من دون الله﴾․
اور ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو رب قرار نہ دے۔
چھٹی یہ کہ نفسانی خواہشات پر عمل نہ کرے قرآن میں ہے:
﴿ونہی النفس عن الھوی﴾ اور نفوس کو خواہش سے روکا۔
ساتویں یہ کہ طاعت میں خوب محنت کرے، الله سے ڈرتا رہے اور ثواب کا امیدوار رہے۔ فرمان خدا وندی ہے۔
﴿ یدعون ربھم خوفا وطمعاً ومما رزقنٰھم ینفقون﴾․
وہ لوگ اپنے رب کو امید سے اور خوف سے پکارتے ہیں اور ہماری دی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرتے ہیں۔
فائدہ: پس ہر انسان پر لازم ہے کہ خوف کے مارے روتا دھوتا رہے، کیوں کہ معاملہ انتہائی کٹھن ہے۔
پہاڑ بھی الله تعالیٰ کے خوف سے ڈرتے ہیں
روایت ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام ایک بستی پر سے گزرے، وہاں ایک پہاڑ تھا، جس سے چیخ وپکار اور نوحہ کی آوازیں آرہی تھیں ،آپ نے بستی والوں سے پوچھا کہ یہ آوازیں کیسی ہیں جو پہاڑے سے آرہی ہیں؟ وہ کہنے لگے ہم جب سے یہاں آباد ہوئے ہیں یونہی سن رہے ہیں ۔ حضرت عیسٰی علی نبینا وعلیہ السلام نے دعا مانگی، یا الله! اس پہاڑ کو مجھ سے گفتگو کرنے کی اجازت فرمائیے۔ الله تعالیٰ نے پہاڑ کو گویائی بخشی، وہ کہنے لگا اے عیسٰی! آپ مجھ سے کیا بات کرنا چاہتے ہیں۔ فرمایا مجھے یہ بتا کہ یہ چیخ وپکار کی آواز جو تجھ سے آرہی ہے ؟ کیسی ہے وہ بولا اے عیسی ( علیہ السلام)! میں ایک ایسا پہاڑ ہوں، جس کے پتھر سے لوگ بت تراش کر ان کی عبادت کیا کرتے تھے ۔ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں الله تعالیٰ مجھے بھی جہنم میں نہ ڈال دیں، کیوں کہ میں نے الله تعالیٰ کا یہ فرمان سنا ہے۔
﴿ فاتقوا النار التی وقودھا الناس والحجارة﴾
پھر ذرا بچتے رہو دوزخ سے، جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں۔
الله تعالیٰ نے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی طرف وحی بھیجی کہ پہاڑ کو کہہ دو کہ اطمینان رکھے، میں نے اس کو جہنم سے پناہ دے دی ہے ۔ غرض پہاڑ اپنی شدت اور سختی کے باوجود الله پاک سے ڈرتے ہیں تو ضعیف وناتواں مسکین ابن آدم کو کس قدر دوزخ سے ڈرنا چاہیے اور ا س سے پناہ مانگنی چاہیے۔ اے ابن آدم! اس کا خوف کھا اور ڈر اور اس سے ڈرنا گناہوں سے بچنے کے ساتھ ہے۔ کیوں کہ گناہوں کے سبب بندہ الله تعالیٰ کی ناراضگی اور عذاب کا مستحق بنتا ہے اور الله تعالیٰ کے عذاب کی تجھ میں ہمت کب ہے؟
قیامت کے دن امت محمدیہ کی گواہی
حضرت انس بن مالک  فرماتے ہیں جب قرآن پاک کی یہ آیت ﴿وکذلک جعلنکم امة وسطا لتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا﴾․اور ہم نے تم کو ایک ایسی جماعت بنایا ہے جو نہایت اعتدال پر ہے، تاکہ تم لوگوں کے مقابلہ میں گواہ رہو اور تمہارے لیے رسول گواہ ہیں۔
نازل ہوئی تو حضور صلی الله علیہ وسلم کی آنکھیں بھر آئیں اور فرمایا، اے لوگو! الله تعالیٰ نے مجھے نبی او ررسول بنا کر بھیجا ہے ۔ اور تمہیں اپنے نبی کے لیے منتخب فرمایا او رمجھے تم پر گواہ بنایا اور تمہیں گزشتہ امتوں پر ۔ ایک انصاری اٹھ کر کھڑا ہو گیا، جسے قیس بن عروہ کہتے تھے اور کہنے لگا یار سول الله! بھلا ہم گزشتہ امتوں پر کیا گواہی دیں گے، ہم نہ ان میں سے ہیں اور ان کے زمانہ کے ؟! اس پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اے ابن عروہ! جب قیامت کا دن ہو گا اور زمین کی یہ شکل وہیت تبدیل کر دی جائے گی ۔ آسمان لپیٹ دیے جائیں گے ۔ جیسے دفتر میں تحریر لپیٹ دی جاتی ہے او رتمام مخلوق جمع کی جائے گی، بعض لوگوں کے چہرے سیاہ اور بعض کے سفید ہوں گے اورچالیس برس تک ٹھہرے رہیں گے۔ عرض کیا یا رسول الله! کس چیز کے انتظار میں ٹھہریں گے؟ فرمایا اس چیخ کے انتظار میں، جس کے متعلق فرمایا گیا ہے :
﴿یومئذ یتبعون الداعی لاعوج لہ وخشعت الاصوات للرحمن فلا تسمع الا ھمساً﴾․
اس روز سب کے سب بلانے والے کے کہنے پر ہو لیں گے، اس کے سامنے کوئی ٹیڑھا پن نہ رہے گا۔ اور تمام آوازیں الله تعالیٰ کے سامنے دب جائیں گی سو تو بجز آہٹ کے کچھ نہ سنے گا۔
لوگوں کو ایسی زمین کی طرف چلایا جائے گا۔ جہاں پر خوں ریزی نہ ہوئی ہو گی، پھر چوپایوں کو لایا جائے گا اور انہیں باہم ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا او رکہہ دیا جائے گا کہ مٹی ہو جاؤ۔ وہ سب مٹی ہو جائیں گے ان حالات کو دیکھ کر کافر لوگ بھی مٹی ہو جانے کی تمنا کرنے لگیں گے، جسے فرمایا گیا ہے ﴿ویقول الکافر یلیتنی کنت ترابا﴾ پھر ہر نبی کو ان کی امت سمیت بلایا جائے گا اور انہیں ٹھیک ٹھیک فیصلہ سنایا جائے گا۔ ایک فریق جنت میں اور دوسرا دوزخ میں جائے گا۔ پھر منادی آواز دے گا نوح علیہ السلام کہاں ہیں؟ انہیں لایا جائے گا تو الله تعالیٰ فرمائیں گے اے نوح کیا تونے میرا پیغام پہنچا دیا تھا اوراحکام کی امانت ادا کر دی تھی۔ عرض کریں گے ہاں یا الله! میں نے پیغام پہنچا دیا اورامانت ادا کر دی تھی؟ پھر ان کی قوم کو لایا جائے گا ارشاد ہو گا اے نوح کی قوم !یہ نوح ہیں، جنہیں میں نے تمہاری طرف دعوت دے کر بھیجا تھا تو کیا اس نے تمہیں میرا پیغام پہنچایا؟ وہ یک زبان ہو کر کہیں گے یا الله! ہمارے پاس کوئی بشیر ونذیر نہیں آیا۔ اس پر الله تعالیٰ فرمائیں گے اے نوح! یہ تیری قوم تیری تبلیغ کا انکار کر رہی ہے ۔ کوئی گواہ ہے تو لاؤ۔ عرض کریں گے کہ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کی امت گواہ ہے تو آواز آئے گی۔
”یاخیرامة اخرجت للناس؟“
اے بہترین امت! جو لوگوں کے لیے بنائی گئی۔
اے رمضان کے روزے رکھنے والی امت ، یہ سن کر وہ صفوں سے نکلیں گے۔ نورانی چہرے ہوں گے، جیسے فرمایا ہے: ﴿سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود﴾کہ ان کے چہروں پر کثرت سجود سے نورانی نشان ہوں گے۔
عرض کریں گے اے الله کے داعی! ہم حاضر ہیں۔ الله پاک کا ارشاد ہو گا اے امت محمد صلی الله علیہ وسلم! کیا تم حضرت نوح علیہ السلام کے لیے گواہی دیتے ہو ؟ یہ عرض کریں گے اے رب العالمین! ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے تیرا پیغام پہنچا دیا اور حق امانت ادا کر دیا تھا۔ اس پر قوم نوح کہے گی کہ حضرت نوح علیہ السلام تو پہلے زمان کے ہیں او رحضرت محمد صلی الله علیہ وسلم بعد میں آئے تو یہ لوگ ایسے شخص کے حق میں کیسے گواہی دیتے ہیں جس کا زمانہ انہوں نے نہیں پایا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کی امت کہے گی کہ الله تعالیٰ کی اس کتاب میں ہے، جوان کے پیغمبر محمد صلی الله علیہ وسلم پر ناز ل ہوئی ﴿انا ارسلنا نوحاً الی قومہ﴾ ہم اس کتاب میں یہ آیت پڑھا کرتے تھے۔ الله تعالیٰ فرمائیں گے اے امت محمد صلی الله علیہ وسلم! تم نے سچ کہا! اور میں نے اپنے لیے یہ طے کر رکھا ہے کہ کسی کو بھی اتمام حجت کے بغیر عذاب نہ دوں گا۔ اے امت محمد صلی الله علیہ وسلم تم! آپس میں ایک دوسرے پر ظلم اور زیادتیوں کا معاملہ نمٹا لو، میرے اور تمہارے درمیان حقوق کی جو کوتاہیاں تھیں وہ میں نے تمہیں معاف کردیں۔

Flag Counter