Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی محرم الحرام 1431ھ

ہ رسالہ

12 - 15
***
والدہ صاحبہ مرحومہ
مولانا سید محمد شاہد
عالم اسلام کی مایہٴ ناز علمی ودینی درسگاہ جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور کے امین عام ( جنرل سکریٹری)حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب مدظلہ کی والدہٴ ماجدہ،حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب نوراللہ مرقدہ کی صاحبزادی محترمہ سیدہ شاہدہ صاحبہ کا مورخہ6جمادی الاولی 1430ھ مطابق2مئی2009ء ایک طویل علالت کے بعد دہلی میں انتقال ہوگیا ، اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔تبلیغی جماعت کے امیر اور مرحومہ کے داماد حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب مدظلہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور دہلی ہی میں قبرستان پنج پیران میں تدفین عمل میں آئی۔
ذیل کا مضمون مرحومہ محترمہ کے سب سے بڑے صاحبزادے حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب مدظلہ کے قلم سے لکھا ہوا ایک تاثراتی اور تاریخی مضمون ہے،عملی بیداری کے بہت سارے سامان بھی اس مضمون میں ملتے ہیں۔
”جو آیا ہے وہ جانے ہی کے لیے آیا ہے۔“ یہ وہ حقیقت ودانائی سے بھرپور الفاظ ہیں جو مخدومنا ،شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی مہاجر مدنی کسی کی بھی وفات پر اپنی جانب سے بطور تعزیت لکھے جانے والے مکتوب میں تحریر فرماتے تھے۔
اسی اصول وضابطہ بلکہ قانون الہی کے مطابق میری والدہ مرحومہ بھی اٹھہتر (78) سال اس دنیائے فانیہ میں رہ کر اور یہاں کے رنج وغم اور خوشی ومسرت کی ملی جلی اٹھہتر بہاریں دیکھ کر بستی حضرت نظام الدین میں واقع قبرستان پنج پیراں میں آسودہٴ خاک ہوگئیں۔ والدہ مرحومہ حضرت شیخ کی زوجہٴ اولی سے پانچویں اور آخری صاحبزادی تھیں۔
حضرت شیخ نوراللہ مرقدہ کے حالات زندگی سے واقف حضرات کو یہ معلوم ہے کہ آپ نے یکے بعد دیگرے دو نکاح فرمائے تھے، پہلا نکاح 29 صفر1335ھ/ 25 دسمبر1916ء میں مولانا رؤف الحسن صاحب کاندھلوی کی صاحبزادی سیدہ امة المتین صاحبہ سے ہوا تھا۔اس نکاح سے اللہ تعالی نے آپ کو اولاد ذکور واناث تو بہت سی عطافرمائیں، لیکن ان میں زیادہ ترزندگی کی چند ہی بہاریں دیکھ کر اپنے والدین کے لیے ذخیرہٴ آخرت بن گئیں، تاہم جو صاحبزادیاں حیات رہ کر حضرت کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سرور بنیں وہ بعد میں والدہ مولانا محمد ہارون کاندھلوی، والدہ مولانا محمد زبیرالحسن کاندھلوی اور والدہ محمد شاہد سہارنپوری سے مشہور ومعروف ہوئیں، ان تین صاحبزادیوں کے علاوہ دو صاحبزادیاں اور بھی تھیں، لیکن ان کے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
زوجہٴ اولی کی وفات کے بعد حضرت کا دوسرا نکاح مسنونہ 18 ربیع الثانی 1356ھ/ 18 جون 1937ء میں حضرت مولانا محمد الیاس صاحب کاندھلوی کی صاحبزادی سیدہ عطیہ صاحبہ سے ہوا، جن سے ایک فرزند ارجمند حضرت مولانا محمد طلحہ صاحب کاندھلوی اور دو صاحبزادیاں الحمدللہ حیات ہیں اور صاحب اولاد ہیں۔
ولادت وتعلیم وتربیت
راقم سطور کی والدہ محترمہ سیدہ شاہدہ کی ولادت 9 ذی قعدہ 1352ھ/ 19مارچ 1934ء کو سہارنپور میں ہوئی، خاندانی دستور وروایات کے مطابق تمام تر دینی ومذہبی تعلیم گھر کی چہار دیواری میں رہ کر حاصل کی، چناں چہ قرآن پاک اور ترجمہ قرآن پاک، مکمل مسائل دینیہ کی کتابوں میں بہشتی زیور، تعلیم الاسلام، تبلیغی نصاب (فضائل اعمال) اور دیگر متفرق کتابوں میں اسلامی تواریخ پر فتوح الاسلام ، فتوح الشام ، حکایات صحابہ وغیرہ وغیرہ اور لکھنے پڑھنے کے لحاظ سے اردو نویسی ضروری حد تک تختی اور حساب کتاب وغیرہ وغیرہ سب گھر میں رہ کر گھر کی بڑی بوڑھی مستورات سے حاصل کیں۔
ترجمہٴ قرآن پاک پڑھنے کے لیے حضرت کے یہاں ہمیشہ گھر کی سب سے بڑی اور معمر خاتون متعین رہتی تھی اور ایک طرح سے گویا ان کی حیثیت تمام گھرانے کے لیے استاذ تفسیر کی ہوتی تھی، چناں چہ طویل عرصے تک مولانا محمد صاحب کاندھلوی زادمجدہ کی والدہ محترمہ مرحومہ اس تفسیری خدمت پر مامور رہیں، اللہ تعالی نے ان کو ترجمہ قرآن پاک پڑھانے کے معاملہ میں بڑا حسن شعور اورسلیقہ عطا فرمایا تھا۔وہ اگرچہ حافظہ نہیں تھیں لیکن اپنی مسند پر بیٹھے بیٹھے دور ہی سے غلط پڑھنے والی کو ٹوک دیا کرتی تھیں، ان کی وفات کے بعد خدمت قرآن پاک کی یہ سعادت والدہ مولانا محمد سلمان صاحب (ناظم اعلی جامعہ مظاہرعلوم) کی طرف منتقل ہوگئی تھی، اپنی صحت کے زمانہ میں خاندان اور محلہ کی کتنی بچیوں کو انہوں نے کلام اللہ شریف پڑھایا اور ان کے سینوں میں یہ دولت منتقل کی، اس کی صحیح تعداد خدائے پاک ہی کو معلوم ہے۔
برسبیل تذکرہ یہاں یہ بھی وضاحت کردوں کہ مخدومنا حضرت شیخ نے اپنی تمام صاحبزادیوں اور ان سے وجود میں آنے والے نسبی سلسلہ کی کبھی بھی مکان اور مدرسہ سے باہر تعلیم حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی نہیں فرمائی، چناں چہ حق تعالی شانہ کے فضل وکرم سے ہمیشہ لڑکیوں کی تعلیم گھر کی چہار دیواری میں اور لڑکوں کی تعلیم مدرسہ تک محدود ومنحصر رہی، گویا دوسرے الفاظ میں حضرت  نے ہمیشہ چادر اور چہار دیواری کا تحفظ کیا اور کرایا اور پھر یہ اللہ جل شانہ کا فضل وکرم اور ایک مرد موٴمن ،دین کے مخلص خادم، داعی اور پوری ملت وامت کے شیخ الحدیث کی دعاؤں، توجہات اور نیک نیتی کا ہی اثر وثمرہ ہے کہ زندگی کے کسی بھی موڑ پر دل ودماغ میں حصول تعلیم کے معاملہ میں کسی احساس کمتری کا شائبہ اور خیال بھی پیدا نہیں ہوا اور ہمیشہ ع
من نیز حاضر میشوم تفسیر قرآں در بغل
زند گی کا مطمح نظر اور مقصود نظر رہا۔ اللہ جل شانہ مستقبل میں بھی یہ خیروبرکت ہم سب کے شامل حال رکھے۔ (آمین)
راقم سطور اب اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ والدہ مرحومہ کو اللہ تعالی نے بچپن ہی سے سوجھ بوجھ اور ذہانت وفراست سے بڑا حصہ عطا فرمایا تھا، چناں چہ کچھ تو اس وجہ سے اور کچھ سب سے چھوٹی بیٹی ہونے کی وجہ سے وہ ہمیشہ حضرت شیخ کی لاڈلی اور منظور نظر بن کر رہیں۔
حضرت نے اپنی بعض تالیفات میں کہیں کہیں ان کی سوجھ بوجھ اور بے تکلفانہ احساسات وخیالات کے دلچسپ واقعات بھی تحریر فرما رکھے ہیں، مثلاً حضرت درس بخاری شریف میں حدیث” مثل صلصلة الجرس“ کی تشریح وتوضیح میں آسمانی بجلی کی کڑک کا حوالہ دے کر جو قصہ سنایا کرتے تھے وہ آپ کی مطبوعہ تقریر بخاری شریف میں ان الفاظ کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔
”میری بچی جو اس وقت صاحب زوج ہوچکی ہے، جب وہ تین سال کی تھی تو دروازہ پر کھڑی تھی کہ ایک دم بجلی کڑکی، مولوی نصیرالدین دروازہ پر تھے، اس نے پوچھا کہ مولوی صاحب! اس وقت کون سی دعا پڑھتے ہیں؟ وہ منہ دیکھنے لگے ۔ اس نے کہا کہ میں نے تو اس لیے پوچھا کہ تم جلدی سے بتلادوگے، اچھا اب میں تم کو بتلاؤں؟ وہ دعا یہ ہے، ویسبح الرعد بحمدہ والملائکة من خیفتہ.“
دوسرا واقعہ آپ بیتی میں حضرت نے ان الفاظ کے ساتھ تحریر فرمارکھا ہے:
”میری ایک چھوٹی بچی تھی، جب اس نے قاعدہ بغدادی شروع کیا اور، آنَ، بَانَ کی تختی شروع کی تو اپنی والدہ مرحومہ کے سر ہوگئی، چار پانچ سال کی عمر تھی، چھوٹی سی بچی اس کا مناظرہ اور ضد، مجھے بھی بڑا ہی اچھا لگا، اس نے کہا کہ الف زبر آ، نون زبر نَ، آنَ / ب الف زبر بَا، نون زبر نَ، بانَ/ تان / ثان، اخیر تختی تک پڑھ کر جب اس کا نمبر آیا کہ ہمزہ الف زبر آ، نون زبرنَ، آنَ تواپنی والدہ مرحومہ سے الجھ پڑی اور بھولی بھالی زبان (جو مجھے)اب تک یاد ہے وہ بار بار الف، با کی تختی شروع سے پڑھتی اور حجت قائم کرتی اور اخیر میں ہمزہ پر آکر پھر جرح شروع کرتی کہ یہ آنَ کیوں ہے؟ ہمزانَ ہونا چاہیے بہت ہی صبح سے دوپہر تک اپنی ماں سے لڑتی رہی کہ یہ ہمزانَ کیوں نہیں بنتا، ماں کے پاس تو کوئی جواب نہیں تھا ،اس نے تویہ کہہ کر اپنی جان بچالی کہ جب تیرے ابا آئیں گے ان سے پوچھیے، کہنے لگی کہ میں تو ہمزان ہی یاد کروں گی، دوپہر کو مقدمہ پیش ہوا، جواب میرے پاس بھی بجز اس کے کیا تھا کہ ابھی تُو بچی ہے، جب بڑی ہوگی تب پوچھنا۔“
بچپن کا ماحول
والدہ مرحومہ اور ان کی تمام بہنوں اور سب سے بڑھ کر خود مخدومنا حضرت شیخ کا یہ دور عسرت وتنگی کا تھا، اگرچہ حضرت کی سیدھی سادھی اور سادگی سے بھرپور حیات اور طرز حیات نے اس پر پردہ ڈال رکھا تھا، لیکن واقعہ یہ ہے کہ گاہ بگاہ اس فقیر آمیز شاہی کے کچھ ایسے روشن نمونے سامنے آجاتے تھے، جن سے حضرت کی شان اصلاح وتربیت آشکارا ہوجایا کرتی تھی، چناں چہ میری والدہ مرحومہ کا یہ واقعہ اس کی مثال میں پیش کیا جاسکتا ہے، کہ بہت چھوٹی سی عمر میں ایک مرتبہ عید کے موقعہ پر ان کے پاس اپنے استعمال کے لیے نیا جوتا نہیں تھا، انہوں نے اپنے قابل احترام والد سے نئے جوتے کی فرمائش کرڈالی، یہ سن کر والد ماجد مرحوم نے ان کا پرانا جوتا لے کر اس پر اپنے ہاتھ سے سرسوں کا تیل لگا دیا، جس سے اس پر وقتی طور سے کچھ چمک آگئی اور پھر یہ فرماکر کہ ”لو اب پہن لو، یہ نئے بن گئے ہیں“ والدہ کو دے دیے اور انہوں نے وہ جوتے خوشی خوشی اپنے پاؤں میں ڈال لیے۔
حضرت کی یہ تمام تنگی وعسرت اتباع سنت کے احترام میں اختیاری تھی، اضطراری نہیں تھی، اور محبت نبوی کی بنیاد پر اس میں آپ کے قصدوارادہ کو دخل تھا، جبر اور مجبوری نہیں تھی اور پھر آپ نے اس میں اپنے اہل خانہ اور کم سن صاحبزادیوں کو بھی شامل فرما رکھا تھا، اس لیے کچھ ہی عرصہ بعد اللہ جل شانہ نے قبولیت اور مقبولیت سے ایسی سرفرازی عطا فرمائی کہ وہ عسرت وتنگی، فرحت وشادمانی سے مبدل ہوگئی اور پھر پرانے جوتے کو سرسوں کے تیل سے نیا بنا کر پہننے والی پر حق تعالی شانہ کی طرف سے کشائش وکشادگی کی ایسی راہیں کھولی گئیں کہ چھ مرتبہ ان کو حرمین شریفین کی حاضری کی عزت سے نوازا گیا اور سخاوت وعنایت کا یہ حال تھا کہ (اپنے پہلے سفر حج کو چھوڑکر) ان کے جتنے بھی حج ہوئے اس میں بڑے اہتمام اور ذوق وشوق کے ساتھ وہ نئے کپڑوں کے پچاس ساٹھ جوڑے بنا کر لے جاتیں اور ساکنان حرمین شریفین میں تقسیم کردیا کرتی تھیں۔
نکاح
حضرت شیخ بچیوں کے نکاح وشادی کے معاملہ میں بہت زیادہ حساس رہ کر ہمیشہ تعجیل کو پسند فرماتے تھے، یہی وجہ ہے کہ اپنی صاحبزادیوں کے نکاح میں بھی آپ نے اس کا لحاظ فرماتے ہوئے ہمیشہ عجلت فرمائی، چناں چہ والدہ مرحومہ کو بھی جب کہ ان کی عمر سترہ سال تھی، موٴرخہ20 ربیع الثانی 1369ھ / 8 فروری 1950ء چہار شنبہ میں حضرت مولانا حکیم سید محمد ایوب صاحب سہارنپوری کے فرزند مولانا سید محمد الیاس صاحب مظاہری سہارنپوری سے منسوب کرکے رشتہٴ ازدواج میں منسلک فرمادیا تھا، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی شدت بخار کے باوجود صرف نکاح پڑھانے کے لیے دیوبند سے تشریف لائے اور مہر فاطمی پر یہ نکاح پڑھایا۔ حضرت مولانا شاہ عبدالقادر صاحب رائے پوری مع دیگر حضرات مجلس نکاح میں تشریف فرماتھے۔
والدہ مرحومہ کے اس رشتہٴ نکاح کی وضاحت میں حضرت شیخ آپ بیتی میں تحریر فرماتے ہیں:
”حکیم الیاس کے متعلق حکیم ایوب صاحب مجھ سے کئی دفعہ کہہ چکے تھے، میں ہر دفعہ یہ کہتا تھا کہ تمہارے سب بچوں میں حکیم الیاس سے مجھے جتنی محبت ہے اتنی کسی سے نہیں اور اس کی وجہ یہ تھی کہ حکیم الیاس کو اللہ تعالی بہت ہی جزائے خیر دے، ان کو بچپن سے مجھ سے بہت محبت تھی، جب شادی کا ذکر تذکرہ بھی نہیں تھا اور میری دہلی کی آمد ورفت بہت کثرت سے تھی تو حکیم الیاس اللہ ان کو بہت جزائے خیر عطا فرمائے دن اور رات میں محض اطلاع پر اسٹیشن جاتا تھا، میں نے کئی دفعہ منع بھی کیا کہ محض اطلاع پر نہ آیا کرے۔“ (آپ بیتی، جلد اول، ص 318)
انعقاد نکاح سے ایک ماہ بعد والدہ مرحومہ کی رخصتی عمل میں آئی، حضرت نے اس کی تفصیل بھی آپ بیتی میں ان الفاظ کے ساتھ سپرد قلم فرما رکھی ہے:
”8 جمادی الاولی 1369ھ 26 فروری 1950ء یکشنبہ کو عشاء کے بعد جب سب سونے کے واسطے لیٹ گئے اپنی بچیوں سے کہا کہ الیاس کی گھر والی کو چائے پلادیجیو، میرا خیال یہ ہے کہ اذان (فجر) پر میں خود پہنچا دوں گا اور حکیم ایوب صاحب کے پاس آدمی بھیجا، وہ بھی سونے کو لیٹ گئے تھے اس لیے کہ سردی کا زمانہ تھا، گیارہ بج چکے تھے، میں نے مولوی عبدالمجید مرحوم کے ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ اذان کے وقت میں مولوی الیاس کی گھر والی کو لے کر آؤں گا، گھروالوں سے کہہ دو کہ اذان کے وقت کوئی زنجیر کھٹکھٹاوے تو نام پوچھ کر دروازہ کھول دیں، کبھی مجھے دق (پریشان) ہونا پڑے، حکیم ایوب صاحب کا جواب آیا کہ مجھے تو انکار نہیں، مگر تجھے اس وقت دقت ہوگی، اگر اجازت دے تو میں اور الیاس ایک رکشہ لے کر اس کو لے آویں اور کسی کو خبر نہ ہوگی، چناں چہ دوشنبہ کی صبح کو اذان کے بعد حکیم جی اور حکیم الیاس ایک رکشہ لے کر آگئے اور عزیزہ کو مع ایک دو عزیزوں کے جو یہاں موجود تھے لے کر چلے گئے، خود ان کے گھر والوں کو بھی صبح کی نماز کے بعد پتہ چلا کہ بیگم گھر میں آگئی۔“ (آپ بیتی، جلد اول، ص319)
اولاد
اس نکاح مسنونہ سے وجود میں آنے والے چار لڑکے اور لڑکیاں تو بالکل کم عمر ی میں ہی ذخیرہٴ آخرت بن گئے تھے، بفضلہ تعالی اب جو حیات ہیں وہ یہ ہیں۔
راقم سطور (سید محمد شاہد)، مولوی حافظ سید محمد راشد، مولوی حافظ سید محمد سہیل، مولوی حافظ سید محمد ساجد ، نیز تین بیٹیاں، ہمشیرہ طاہرہ خاتون، (اہلیہ مولانا محمد زبیرالحسن کاندھلوی، نظام الدین دہلی ) ہمشیرہ ساجدہ خاتون، (اہلیہ مولانا مفتی محمد خالد صاحب سہارنپوری) ہمشیرہ زاہدہ خاتون ، (اہلیہ مولاناقاری محمد عمار صاحب سہارنپوری )
اسفار حج
حضرت کی جملہ صاحبزادیوں نے حج فرض کی ادائیگی اپنے والد مخدوم کی حیات میں کر لی تھی، چناں چہ والدہ مرحومہ بھی1374ھ/ 1955ء میں اس فریضہ سے سبک دوش ہوگئی تھیں، خاندان کی دیگر مستورات اور صاحبزادیوں کے ساتھ پورے قافلہ کا یہ سفر حضرت مولانا محمد یوسف صاحب، حضرت مولانا محمد انعام الحسن صاحب، حضرت مولانا محمد افتخار الحسن صاحب زاد مجدہ کی معیت میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کی زیر قیادت وزیرسیادت ہوا تھا،4 شوال 1374ھ/ 6جون 1955ء میں دہلی سے روانہ ہوکر براہ بمبئی جدّہ ہوتے ہوئے مکہ معظمہ اور پھر ادائیگی حج کے بعد مدینہ منورہ میں چالیس یوم قیام کے بعد 18 صفر 5اکتوبر میں دہلی واپسی ہوئی، حضرت شیخ اس قافلے کے استقبال کے لیے ایک دن قبل مرکز نظام الدین دہلی پہنچ گئے تھے، اس حج فرض کے بعد والدہ صاحبہ مرحومہ نے ایک عمرہ اور چار حج کیے اور ان تمام سفروں میں بڑے ذوق وشوق وحلاوت کے ساتھ حرمین شریفین میں اپنا وقت گزارا۔
اس ایک عمرہ اور جملہ حجوں میں مولانا حکیم سید محمد الیاس صاحب آپ کے ساتھ رہے۔
تین خط
اپنے عام معمول کے مطابق اپنی دیگر بہنوں اور خاندانی مستورات کی طرح والدہ مرحومہ بھی حضرت شیخ سے بوقت ضرورت خط وکتابت کرتی رہتی تھیں، اس زمانہ میں خاندانی مستوارت کے اسفار دہلی، کاندھلہ میں مقیم اعزہ تک ہی محدود رہتے تھے، راقم سطور کی معلومات کے مطابق حضرت کی سب سے زیادہ خط وکتابت محترمہ خالہ ذاکرہ صاحب (یعنی والدہ مولانا محمد زبیرالحسن صاحب کاندھلوی) سے ہوئی ہے کہ وہ ایک طویل عرصے تک اپنے شوہر نامدار حضرت جی ثالث مولانا محمد انعام الحسن صاحب کاندھلوی  کی علالت کی وجہ سے1947ء کے فسادات اور خطرات سے بھرپور زمانہ میں کاندھلہ میں مقیم تھیں۔
پیش نگاہ مضمون میں والدہ مرحومہ کے حضرت کے نام لکھیے گئے تین خط پیش کیے جاتے ہیں، ان میں پہلے دو خط جو ابتدائی دور کے ہیں جو کاندھلہ سے سہارنپور لکھے گئے تھے،جب کہ تیسرا مکتوب، جو آخری دور کا ہے، سہارنپور سے مدینہ منورہ بھیجا گیا تھا۔
اس آخری مکتوب میں اپنے مشفق ومکرم والد محترم کی ماہ رمضان المبارک میں ہندوستان عدم آمد پر جس انداز سے اپنے خیالات وجذبات اور اپنی بے کسی وبے بسی کا اظہار ہے اور نیز تینوں خطوں میں بھاری بھر کم القاب وآداب کے بجائے جس طرح کے ہلکے پھلکے اور سیدھے سادے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ بطور خاص مطالعہ کے لائق ہیں۔
مکرم ومحترم بھائی جی صاحب السلام علیکم 
گذارش یہ ہے کہ ہم سب آپ کی دعا سے بخیر ہیں، امید ہے کہ آنجناب کے مزاج مبارک بھی بخیر ہوں گے، آپ کا گرامی نامہ صادر ہوا تھا، جواب میں تاخیر ہوئی، معافی چاہتی ہوں، مولانا مدنی /حضرت رائے پوری سے اگر ملاقات ہوتو سلام کے بعد دعا کی استدعا کردیجیے! میرے لیے دعا آپ بھی کیجیے۔ معاذ، طلحہ بخیر ہیں سلام کہتے ہیں۔
والسلام 
شاہدہ
مکرم ومحترم جناب والد صاحب دام ظلکم العالی السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
امید ہے خدا سے کہ آپ خیریت سے ہوں گے، یہاں اللہ کے فضل سے خیریت ہے، کئی روز ہوئے آپ کا گرامی نامہ ملا تھا، جب سے برابر خط لکھنے کا ارادہ کررہی تھی، مگر افسوس کہ پور ا نہیں ہوسکا، کل بھائی یوسف، بھائی انعام صاحب بھی تشریف لائے، کل کو یا پرسوں کو بھوپال جائیں گے، آپا راشدہ بھی اللہ کے فضل سے خیریت سے ہیں، ان کے انجکشن لگ رہے ہیں، دعا کے واسطے کہتی ہیں، شاہد کا بھی دل اللہ کا شکر ہے لگ رہا ہے، بھائی یوسف صاحب فرمارہے ہیں کہ شوال میں تمہیں لے کر حج کو جائیں گے، اللہ کرے ان کی زبان کا کہنا پورا ہوجائے، امیدہے کہ گھر میں سب خیریت ہوگی۔ یہاں دو دن سے خاصی گرمی ہورہی تھی، مگر رات سے ہوا چل رہی ہے۔
فقط والسلام
شاہدہ
مکرم ومحترم مخدوم و معظم جناب والد صاحب مدظلہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
خدا کرے آپ بخیر وعافیت ہوں، بندی اللہ کا شکر ہے بخیر ہے۔
میں نے آٹھ ماہ اس انتظار میں گذار دیے کہ آپ رمضان میں تشریف لے آئیں گے، اب رمضان قریب آیا تو نہ آنے کی اطلاعات آرہی ہیں، جس نے اتنا طویل انتظار کیا ہو اب اس کے دل پر کیا گذر رہی ہوگی، زاہدہ کی رخصتی آپ کی تشریف آوری پر موقوف ہے، رمضان سے پہلے اگر تشریف آوری ہوتو قبل رمضان ورنہ جب بھی تشریف آوری ہوگی اس کا م کو آپ ہی پور ا فرمائیں گے، ان دونوں میاں بیوی کو حج کرانا بھی آپ ہی کے ذمہ ہے، اللہ کرے آپ خیر وعافیت سے تشریف لے آئیں اور یہاں پھر رونق آجائے۔مجھ بے کس اور بے بس کا سلام روضہٴ شریفہ پر عرض کردیں تو کرم ہوگا۔انشاء اللہ آپ کو اجازت بھی مل جائے گی کہ وہ اپنی امت کے حال پر بہت مہربان ہیں۔ والسلام 
آپ کی بیٹی۔ شاہدہ، سہارنپور
والدہ مرحومہ شروع شروع میں حضرت شیخ کو ”والد صاحب“ کے تعظیمی لفظ سے مخاطب کرتی تھیں، لیکن آخر میں خصوصاً وفات کے بعد ”بھائی جی“ کے محبت آمیز لفظ سے یاد کرنے لگی تھیں، حضرت کی وفات کے بعد والدہ صاحبہ کے شدت تاثر اور احساس کا یہ عالم ہوگیا تھا کہ آنسو ان کی پلکوں میں پوشیدہ رہتے تھے اور حضرت کا نام آتے ہی وہ پلکوں سے نکل کر چہرے پر بہنے شروع ہوجایا کرتے تھے، وہ اپنی حیات کے آخری سالوں میں حضرت کا کوئی واقعہ اور کوئی تذکرہ بغیر آنسو بہائے سنانے پر قادر ہی نہیں رہی تھیں۔ (جاری ہے)

Flag Counter