Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ربیع الثانی 1430

ہ رسالہ

4 - 14
***
حکیم الامت ۔۔ چودھویں صدی کے مجدد
مولانا انظر شاہ کشمیری
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ایک ارشاد گرامی میں کتاب الله وسنت رسول کے تمسک کو امت کے صراط مستقیم پر رہنے کا سب سے قوی ذریعہ بتایا تھا، امام دہلوی نے اپنے دور میں تباہ حال ملت کے لیے ان ہی دو اہم بنیادوں سے کام لینے کی بنیاد ڈالی، خود قرآن مجید کی تفسیر لکھی، فہم قرآن کے اصول قلم بند کیے، امام مالک کے جمع کردہ ذخیرہ حدیث کی شرح کے لیے قلم اٹھایا اور اسے بخت واتفاق نہیں کہا جاسکتا کہ شاہ صاحب کے خانوادے کے نامی گرامی اشخاص ان ہی دو بنیادی امر کی تبلیغ وتعلیم میں قولاً وقلماً لگے رہے، ایسا نہیں، بلکہ یہ شاہ صاحب کی اسکیم کے اجزا ہیں اور مرحوم کے چھوڑے ہوئے کام کی تکمیل ہے، ٹھیک اسی اشاعت میں اسی طرح مجدد تھانوی نے بھی قرآنی پیغام کو عام کرنے کے لیے اردو تفسیر پر قلم اٹھایا، یہ تفسیر بجائے خود کتنی منضبط، مستند اوربا وقار ہے کہ قدر جو ہر شاہ داندیا بداند جوہری کے اصول کے مطابق علامہ انور شاہ کشمیری کا وہ پرشکوہ تبصرہ سنیے، جو بیان القرآن کے مطالعے کے بعد منتہی طلبہ کے سامنے فرمایا، فرمایا:
”میں اردو سے حد درجہ بد گمان تھا اور سمجھتا تھا کہ اس کا دامن علوم سے خالی ہے، اسی لیے میں نے اپنے ذوق علمی کو محفوظ رکھنے کی خاطر نجی مراسلت بھی عربی میں کی یا فارسی میں ،لیکن بیان القرآن کے مطالعے کے بعداردو سے میری بدگمانی یکسر ختم ہو گئی، اتنی چست تفسیر آج تک دیکھنے میں نہیں آئی تھی “ خود اس بھاری بھر کم تبصرے کو امام تھانوی نے سننے کے بعد فرمایا۔
”جب اتنے بڑے علامہ کی توثیق مجھے حاصل ہو گئی اب میں مزید کسی توثیق کا منتظر نہیں ہوں“ قرآن کی روشنی میں ان احکام کی بھی ترتیب آپ کے پیش نظر رہی، جواحکام القرآن کہلانے کے مستحق ہیں، یہ اہم علمی ذخیرہ حال ہی میں پاکستان میں چھپ گیا۔ میں نے یہ بھی عرض کیا تھا کہ حضرت موصوف کے دور میں تقلید وعدم تقلید کے جھگڑے شباب پر تھے اورایک گروہ تقلید کو شرک گردانتے ہوئے ابوحنیفہ الامام کو بڑا مجرم ثابت کر رہا تھا اور ان کی فقہ کو عقلی موشگافیاں بتا کر حدیث سے اس استناد کو پوری قوت سے توڑ رہا تھا۔ امام تھانوی نے اس طرف بھی توجہ کی اورآپ کی کوششوں کے نتیجے میں اعلاء السنن نامی وہ ذخیرہ علمی حلقوں میں پہنچ گیا جس سے حنفی فقہ کی استنا دی حیثیت اتنی مضبوط ہو گئی کہ اب اسے اقوال رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بے نیاز بتانا مکابرہ ہے ، بات بڑھتی چلی جاتی ہے، لیکن کیا کیاجائے؟ حکیم الامة کا واقعی امتیاز اس وقت تک نہیں کھلے گا تاوقتیکہ شریعت وطریقت کو شیر وشکر کرنے کے لیے آپ کی بے پناہ کوششیں سامنے نہ ہوں، جہالت کی آندھیاں جب تیز رفتار ہو کر چلیں تو شریعت وطریقت میں ٹھناٹھنی کرادی گئی، حالاں کہ ان میں ایک قلب اور ایک قالب، ایک قالب اور ایک روح ہے اور دوسرا جھگڑا شروع ہوا تو مہاجر مکی علیہ الرحمہ نے کسی خاص سلسلے میں بیعت لینے کے بجائے سلا سل اربعہ میں بیک وقت بیعت کی بنیاد ڈالی، مگر یہ تدبیر تریاق اسی وقت ثابت ہوئی جب مجدد تھانوی نے جسم وروح کے ٹوٹے ہوئے رشتے کو استوار کیا اور یہ مسافت اس کام یابی سے طے کی کہ حضرت مجدد الف ثانی اور شیخ اکبر کو ایک منزل پر لا کھڑا کیا ۔
اک مجدد کی نظر سے سیاسی اتھل پتھل کا مہیب منظر کیسے اوجھل رہتا جو ملت کو اس کے واقعی مقام تک پہنچانے کے لیے عالم ارواح سے بے قرار روح لے کر چلاتھااس گوشے میں بھی آپ نے مومنانہ فراست کے قندیل روشن کیے، آپ کا سیاسی ذوق معلوم ہے اور جس جانب آپ کی دلچسپیاں تھیں وہ بھی متعارف ہیں، مجھ سے مختصر اتنا سن لیجیے کہ آپ کے مجاز مولانا عبدالباری لکھنوی کی ” جامع المجددین“ اور” تجدید تصوف وسلوک“ نامی کتب جب ایک انشا پرواز کے پاس تبصرے کے لیے پہنچیں تو ان صاحب نے بجائے تصنیف ومنصف کے، امام تھانوی کو قلم کی زدپر لے لیا اورکئی قسطوں میں صرف حضرت کی شخصیت کو ہدف بنائے رکھا اور جب ان زہریلے خیالات سے رجوع کی توفیق ہوئی تو اس کا اعتراف کیا کہ موجودہ حالات نے سیاسی معاملات میں حضرت کی فکری اصابت کو تسلیم کر لیا۔ بہرحال بارہ سو کے قریب تصانیف کا یہ مصنف ، لاکھوں مستفیدین کا یہ معلم، ہزاروں مسترشدین کا یہ مربی، اپنے اوصاف جلیل، ممیزات خصوصی کے اعتبار سے جب کسی خانے میں فٹ کرنے لیے جانچا جائے گا تو اہل نظر خانہ تجدید ہی میں اس بو قلموں شخصیت کوفٹ کرسکیں گے، خاتمے پر اپنی کوتاہ علمی کا اعتراف خود کرتا ہوں اور اس ہیچ پوچ تحریر کے سننے میں آپ کے ضیاع وقت کے لیے معذرت طلب ہوں۔
حضرت تھانوی حکیم الامت ہی نہیں مجدد بھی تھے
حکیم الامت حضرت تھانوی کی شخصیت اتنی غیر معروف نہیں کہ اس کا تعارف کروایا جائے، آپ اپنی خداداد علمی استعداد، تقویٰ، زہد اور ورع کی بدولت پوری دنیا میں غیر معمولی شہرت رکھتے ہیں۔ آپ کی سینکڑوں تصانیف دنیا کے کونے کونے میں آپ کے تذکرے اور یاد کا سبب بنی ہوئی ہیں۔ شہروں سے لے کر دیہاتوں تک آپ کی بے نظیر تصنیف ” بہشتی زیور“ عوام وخواص میں آپ کے عقیدت مندوں میں اضافے کا ذریعہ ہے۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ حضرت تھانوی حکیم الامت تھے، آپ بلاشبہ حکیم الامت تھے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کا جو نمایاں وصف تھا وہ یہ تھا کہ آپ مجدد الملت بھی تھے۔ لفظ یا اصطلاح مجدد حدیث تجدید سے ماخوذ ہے۔ اس حدیث شریف میں ہے کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ ہر صدی کے آخر میں ایک مجدد بھیجتے ہیں جو اس دین کی تجدید کرتا ہے ۔ حضرت تھانوی کی ذات گرامی بھی ان ہی چند شخصیات میں سے ایک ہے جن کو الله نے تجدید دین پر مامور فرمایا، الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے حضرت تھانوی نے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو طرح طرح کی رسومات ، بدعات اور غیر دینی آمیز شوں سے پاک وصاف کرکے اصلی شکل روپ میں پیش فرمایا۔ آپ کے ہر عمل اور ہر ہر بات سے حکمت کے موتی ٹپکتے تھے۔ آپ ہر وقت قوم کی اصلاح وتربیت کے بارے میں متفکر رہتے تھے۔ آپ کے خلیفہ اجل حضرت مولانا عبدالماجد ندوی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں۔
”خلاصہ یہ کہ کوئی چھوٹی بڑی بات حکمت ومصلحت سے خالی نہ ہوتی اور تعلیمات نبوت کی تجدید فرمانے والے ایک جامع ومعبوث مجدد کی یہی شان ہونی چاہیے کہ اس کی زندگی ”لکم فی رسول الله اسوة حسنة“ کا عکس ہو کہ کوئی حرکت وسکون امت کے لیے افادہ وتعلم سے خالی نہ ہو۔ خواہ اس کا درجہ استحباب ہی کا ہو ، لوگوں نے معاشرت کو دین سے بالکل خارج کر دیا ہے اور ہمارے عادات واخلاق، اسلامی تعلیمات سے اس قدر دور جاپڑے بلکہ متضاد ہو گئے ہیں کہ قریباً روزانہ ہی مجلس میں کسی نہ کسی بات پر تغیر ہوتا اور روک ٹوک فرمانی پڑتی۔ مگر اس تنبیہ ومواخذہ میں حدود سے ذرا تجاوز نہ ہوتا۔ آواز کچھ بلند اور لہجہ ذرا تیز ہو جاتا۔ لیکن کیا مجال کہ کوئی لفظ نامناسب زبان پر آجائے۔ فرماتے ہیں ” میں اس کو خیانت جانتا ہوں کہ لوگ اپنی اصلاح کے لیے آئیں اور میں اصلاح طلب باتوں پر روک ٹوک نہ کروں ۔ لیکن ساتھ ہی فرماتے کہ عین مواخذہ کے وقت بھی ” بحمدالله اس کا استحضا ررکھتا ہوں، کہ یہ شخص مجھ سے لاکھوں درجہ افضل ہے“ اور اس کی مثال میں فرماتے ہیں کہ جیسے بادشاہ کسی جلاد کو حکم دے کہ شہزادہ کے بیدلگائے۔ تو وہ حکم کی وجہ سے بید ضرور لگائے گا ، لیکن عین بیدلگانے کی حالت میں اس کو یہ وسوسہ بھی نہ ہو گا کہ میں شہزادہ سے افضل ہوں۔ سبحان الله! کیسے نازک مسئلہ کی کیسی دلنشیں مثال ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ رحم وحلم کوئی ایسی صفت ہے کہ غصہ وتغیر کبھی ہونا ہی نہ چاہیے۔ حالاں کہ الله تعالیٰ نے کوئی صفت بے مصرف یا بے حکمت نہیں پیدا فرمائی، تمام صفات کے استعمال کی ضرورت ہے او ران کا حسن وکمال ان کے فنا کر دینے یا ازالہ میں نہیں، بلکہ ان کے امالہ یا صحیح استعمال واعتدال میں ہے۔ ایک موقع پر فرمایا کہ ” کامل وہ ہوتا ہے جو حضرت رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنت کا پورا متبع ہو۔ طریق سنت میں اعتدال ہوتا ہے، افراط وتفریط نہیں ہوتی۔“
تمام صفات کا اپنے صحیح مواقع پر اعتدال کے ساتھ اظہار ہو،تا کہ لوگ ان کے صحیح استعمال کو جان اور پہچان سکیں۔ جیسا کہ دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا کہ اصلی شیخ وہی ہے جس سے غم وغصہ ورنج وراحت وغیرہ کے تمام احوال میں سبق حاصل ہو۔ ” اور حضرت شیخ اکبر رحمة الله علیہ کا یہ مقولہ توبارہا نقل فرماتے ہیں کہ مربی وہ ہے جس کا دین انبیا کا سا ہو ، تدیبر اطبا کی سی اور سیاست بادشاہوں کی سی، خوب کہا کہنے والے نے کہ #
اے قبائے رہ نمائی راست بربلائے تو
علم وحکمت اشرف از گوہر والائے تو
جیسا کہ شروع میں عرض کیا گیا ہے کہ لفظ یا اصطلاح مجدد ماخوذ ہے حدیث تجدید سے اس حدیث کی تشریح حضرت مولانا محمد منظور نعمانی  کی تصنیف ” تذکرہ مجدد الف ثانی“ کے دیباچے میں اس طرح نقل کی گئی ہے ۔ افادہ عام کے لیے بعینہ نقل کی جاتی ہے:
”مجدد کی اصطلاح ایک حدیث سے ماخوذ ہے، جس کو اصحاب صحاح سے امام ابوداؤد نے اپنی سنن میں روایت کیا ہے۔ اس حدیث کا متن یہ ہے:
” ان الله عزوجل یبعث لھذہ الامة علی راس کل مائة سنة من یجدد لھا دینھا“․
الله تعالیٰ اس امت کے لیے ہر سو سال کے سرے پر ایسے بندے پیدا کرے گا جو اس کے لیے اس کے دین کو نیا اور تازہ کرتے رہیں گے۔ (سنن ابوداؤد، باب مایذکر فی قران المائة)۔
اس حدیث کو حاکم نے بھی اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے ۔ (ج4 ص:522)
ملاعلی قاری نے مرقاة شرح مشکوة میں ابوداؤد اور حاکم کے علاوہ طبرانی کے معجم اوسط کا بھی اس حدیث کی تخریج کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے اور سندورجال کے بارے میں لکھا ہے : ”سندہ صحیح ورجالہ کلھم ثقات“․ (مرقاة ج1، ص:248)
اور کنزالعمال میں اس حدیث کو روایت کرنے والے محدثین میں امام بیہقی کا اور ان کی کتاب معرفة السنن والاثار کا بھی حوالہ دیا ہے۔ (کنزالعمال ج6 ص:238)
اور حضرت مولانا عبدالحی فرنگی محلی نے مجموعہ الفتاویٰ میں اس حدیث کی تخریج کے سلسلہ میں ان کے علاوہ حلیہ ابو نعیم اور مسند بزار اور مسند حسن بن افیان اور کامل ابن عدی کا بھی ذکر کیا ہے۔“ ( مجموعہ الفتاویٰ ج2،151)
(تخریج کے یہ سارے حوالے حضرت مولانا مفتی سید مہدی حسن صاحب شاہجہانپوری کے اس مقالہ سے ماخوذ ہیں جو الفرقان کے مجدد نمبر1357ھ میں شائع ہوا۔)

Flag Counter