Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1429

ہ رسالہ

7 - 15
***
دنیا اور آخرت میں جھوٹ کے نقصانات
مولانا غلام نبی ربانی
حجة الاسلام امام غزالیؒ فرماتے ہیں کہ جب زبان جھوٹی ہو جاتی ہے تو دل میں بھی صورت کا ذبہ کی تصویر کھنچتی چلی جاتی ہے اور کجی آجایا کرتی ہے، خصوصاً جب کہ جھوٹ کے ساتھ فضول اور لغو گوئی بھی شامل ہو تو اس وقت تو قلب بالکل ہی سیاہ ہو جاتا ہے، یہاں تک کہ کثرت کلام سے قلب مر جاتا ہے۔
جھوٹ بولنا مسلمان کی شان نہیں اور ایمان او رجھوٹ ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے، یاد رکھو کہ جھوٹ بولنے سے قلب میں کجی آجاتی ہے اور خواب بھی سچے نظر نہیں آتے ،مذاق میں بھی دوسروں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ نہ بولو اور ہمیشہ جھوٹے خیالات اور خطرات سے قلب کو بچائے رکھو، ورنہ قلب میں کجی پیدا ہو جائے گی اور تجربہ اس چیز کا شاہد ہے کہ ایسے آدمیوں کو خواب بھی سچا نظر نہیں آتا ۔( تبلیغ دین ص:100-97)
جھوٹ ایک سخت ترین گناہ ہے۔ الله تعالیٰ گناہوں پر جو سزا دیتے ہیں وہ گناہ ومعصیت کے اعتبار سے مختلف مراتب رکھتی ہے۔ علامہ ابن قیم نے الجواب الکافی میں بہت عمدہ طریقے سے مختلف قسم کے معاصی پر جو سزائیں مرتب ہوتی ہیں انہیں تحریر فرمایا ہے، جو کہ ہر شخص کے لیے قابل عبرت ہے، چناں چہ ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں ۔
” معاصی کی ایک سزا یہ بھی ہے کہ گناہوں سے اس کا حقیقی دوست، سب سے بڑا مشفق، ناصح، نفع رساں اور موجب سعادت رفیق اس سے دور بھاگتا ہے اور وہ مؤکل ومامور فرشتہ جسے الله نے اس کی حفاظت کے لیے مقرر کر رکھا ہے اس سے دور ہو جاتا ہے اور شیطان قریب ہو جاتا ہے، جو سب سے بڑا مکار، عیار ، فریبی اور سب سے بڑا ضرررساں ہے اور جس درجہ کی معصیت اورجس درجہ کا گناہ ہوتا ہے اسی قدر محافظ فرشتہ بھاگ جاتا ہے ۔ کبھی صرف ایک جھوٹی بات کرنے سے یہ فرشتہ میلوں دور بھاگ جاتا ہے، چناں چہ بعض آثار میں وارد ہے۔ ” اذا کذب العبد تباعد منہ الملک میلا من نتن ریحہ“․
ترجمہ: جب کوئی جھوٹ بولتا ہے تو اس کی بدبو سے مؤکل فرشتہ ایک میل دور بھاگ جاتا ہے۔ جب ایک جھوٹ سے یہ موکل فرشتہ اس قدر دور بھاگ جاتا ہے تو اس سے بڑے اور فحش گناہوں سے وہ کس قدر دور بھاگتا ہو گا؟ (دوائے شافی ترجمہ الجواب الکافی، ص:202)
تلخی اور شیرینی کی طرح خوشبو اور بدبو بھی روحانیات کے عالم میں محسوسات میں سے ہیں، ان کو مجاز او راستعارات پر حمل نہ کرنا چاہیے، بلکہ ہمت بلند کرکے وہ قدم اٹھانا چاہیے جہاں حاسہ شامہ کو وہ قوت میسر آئے کہ صدق اور کذب کی خوشبو اور بدبو بھی عام خوشبو اور بدبو کی طرح محسوس ہونے لگے ۔ (ترجمان السنة ص:484 ج:3)
ابوا امامہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کذب ایک دروازہ ہے ۔ نفاق کے دروازوں میں سے۔
نیز آپ کا ارشاد ہے
” ایاکم والکذب، فانہ مع الفجور، وھما فی النار“․
ترجمہ: بچوتم جھوٹ سے کہ وہ بد کاری کے ساتھ ہے اور وہ دونوں دوزخ میں ہیں۔
”وعلیکم باالصدق، فانہ مع البر،وھما فی الجنة“ اور لازم پکڑو سچ کو کہ وہ نیکی کے ساتھ ہے اور وہ دونوں جنت میں ہیں۔ اور جھوٹ بولنے والے پر ایک وبال یہ بھی پڑتا ہے کہ الله تعالی اس کی روزی کم کر دیتے ہیں ، جیسا کہ حضور کا ارشاد ہے ۔ ”الکذب ینقص الرزق“ جھوٹ کم کرتا ہے روزی کو۔
سرکار دو عالم صلی الله علیہ ولم کا ارشاد ہے کہ میں نے یہ خواب دیکھا کہ ایک آدمی میرے پاس آیا او رمجھ سے کہا کہ چلیے! میں اس کے ساتھ ہو لیا، اتنے میں دو آدمیوں کو دیکھا کہ ایک بیٹھا ہوا ہے اور دوسرا کھڑا ہے اور اس دوسرے کے ہاتھ میں ایک لوہے کا گرز ہے کہ بیٹھے ہوئے کی باچھ میں ڈال کر اتنا چیرتا ہے کہ وہ اس کے کندھوں تک آجاتی ہے، پھر وہ دوسری باچھ میں ڈالتا ہے، اتنے میں پہلی باچھ جوں کی توں ہو جاتی ہے، پس جو شخص مجھے لے گیا تھا اس سے میں نے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے؟ اس نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ بولنے والا آدمی ہے، اس کو قیامت تک یہی عذاب ہوتارہے گا۔
عبدالله بن جواد سے روایت ہے کہ میں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا مومن زنا کرتا ہے ؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کبھی ایسا بھی ہوتا ہے ۔ میں نے عرض کیا کہ مومن جھوٹ بولتا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا نہیں! 
حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ اصحاب رسول صلی الله علیہ وسلم کو جھوٹ سے زیادہ کوئی بری عادت معلوم نہ ہوتی تھی عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں کہ جب سے مجھ کو تمیز پائجامہ باندھنے کی ہوئی ہے میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
حضرت موسی علیہ السلام نے جناب باری میں عرض کیا کہ تیرے بندوں میں باعتبار عمل کے کون اچھا ہے؟ ارشاد ہوا کہ جس کی زبان جھوٹ نہ بولے اور قلب فجور نہ کرے۔ (مذاق العارفین” ترجمہ احیاء العلوم“ ج3، باب4)
ایک جھوٹ سے جو سچی توبہ کر لیتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو بہت سے گناہوں سے بچالیتا ہے، جیسا کہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے ایک صحابی کا واقعہ نقل کیا ہے کہ ایک شخص آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ یا رسول الله! مجھ میں چار خصلتیں بہت بری ہیں ۔ ایک تو زنا کرنا، دوسرا چوری، تیسرا شراب اور چوتھا جھوٹ بولنا ہے سو ان چاروں چیزوں کا یک بارگی مجھ سے چھوٹنا ممکن نہیں ہے، ان چاروں چیزوں میں سے ایک چیز جوآپ صلی الله علیہ وسلم فرمائیں اس کو میں چھوڑ دوں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو جھوٹ بولنا چھوڑ دے ،اس نے آسان سمجھ کر مان لیا اور اپنے گھر گیا۔ جب رات ہوئی تو ارادہ کیا کہ شراب پیے اور زنا کرے، لیکن اس کے دل میں یہ خیال آیا کہ صبح کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گا۔ اگر آپ صلی الله علیہ وسلم مجھ سے پوچھیں گے کہ آج رات تو نے شراب پی یا زنا کیا پھر اگر سچ کہوں گا توشرمندہ ہوں گا اور حد شراب اور زنا کی مجھ پر جاری ہو گی اورانکار کروں گا تو جھوٹ ہو گا اور جھوٹ سے میں نے توبہ کی ہے۔ آخر ان دونوں چیزوں کو چھوڑا، پھر جب رات آئی اور سب لوگ شہر کے سونے میں مشغول ہو گئے اس وقت اس نے چوری کا ارادہ کیا لیکن اس کے ساتھ ہی دل میں وہی خیال آیا کہ اگر اس چوری کا حال مجھ سے پوچھا گیا، پھر اگر میں نے اقرار کیا ہاتھ کاٹا جائے گا اور اگر جھوٹ بولا اور انکار کیا تو توبہ کے خلاف وہ گا۔
حاصل کلام یہ کہ اس سے بھی ہاتھ اٹھایا اور صبح کو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت بابرکت میں مشرف ہوا اور عرض کی کہ یار سول الله آپ نے ایسی چیز کی مجھ سےتوبہ لی کہ جتنی بری خصلتیں مجھ میں تھیں خود بخود مجھ سے چھوٹ گئیں۔ آں حضرت صلی اللهعلیہ وسلم بہت خوش ہوئے۔(تفسیر عزیزی، ص:55 ، پ29)
بہت سے گناہ ایسے ہوتے ہیں کہ ان سے بچنے کی بنا پر کئی دوسرے گناہوں کا سد باب ہو جاتا ہے اور جھوٹ بھی ایک ایسا ہی گناہ ہے کہ جو دوسرے گناہوں سے بچنے کا سبب بنتا ہے جیسا کہ واقعہ بالا سے معلوم ہوا ۔ اس جیسی اور چند احادیث ایسی نقل کی جاتیں ہیں جو ان شاء الله دروغ گوئی سے بچنے کے لیے کافی وشافی ہوں گی۔
”عن ابی امامة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”یطبع المؤمن علی الخلال کلھا الاالخیانة والکذب“․ ( رواہ احمد والبیہقی فی شعب الایمان عن سعد بن ابی وقاص)
ترجمہ: ابوامامہ روایت کرتے ہیں رسول الله صلی اللهعلیہ وسلم نے فرمایا مومن کی فطرت میں تمام عادتیں ہو سکتیں ہیں، مگر خیانت او رجھوٹ کی عادت نہیں ہو سکتی۔
واضح رہے کہ اتفاقیہ خیانت اور اتفاقیہ جھوٹ مومن سے بھی سرزد ہو جاتا ہے لیکن وہ اس کا عادی نہیں ہو سکتا ،اگر اس میں یہ عادت پیدا ہو گئی ہے تو اس کو یقین کر لینا چاہیے کہ اب اس میں نفاق کے جراثیم داخل ہونے لگے ہیں اور اس کا ایمان زخمی ہو چکا ہے ۔ رہ گئی خیانت تو وہ توامانت اورایمان کی ضد ہے۔ یہ صفات ذمیمہ بھی اس میں پیدائشی نہیں ہو سکتیں عارضی اثرات سے سب کچھ ممکن ہے ۔ یہاں حدیث خلقت کی نفی کر رہی ہے ۔
عن صفوان بن سلیم انہ قیل لرسول الله صلی الله علیہ وسلم: ایکون المؤمن جبانا؟ قال: نعم․ فقیل: ایکون المؤمن کذابا؟ قال لا:“․ ( رواہ مالک والبیہقی فی شعب الایمان مرسلاً)
صفوان بن سلیم روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ فرمایا کہ جی ہاں۔ پھر پوچھا گیا کہ کیا اول نمبر کا جھوٹا ہو سکتا ہے ؟ فرمایا ”جی نہیں“۔
عن عبدالله بن جواد قال: قال أبو الدرداء: یا رسول الله، ھل یکذب مؤمن؟ قال: ”لایؤمن بالله ولا بالیوم الآخر من اذا حدث کذب“․ (الجامع الکبیر)
عبدالله بن جواد روایت کرتے ہیں کہ ابو لدرداء نے عرض کیا یا رسول، کیا مومن جھوٹ بولتا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی عادت یہ ہو کہ جب بات کرے تو جھوٹ ہی بولے وہ نہ تو الله پر ایمان رکھتا ہے اور نہ آخرت کے دن پر۔
عن عبدالله بن عمران رجلا جاء إلی النبی صلی الله علیہ وسلم فقال: یا رسول الله، ما عمل الجنة قال: الصدق، واذا صدق العبد بر وامن، فاذا امن دخل الجنة․ قال: یا رسول الله، ما عمل النار؟ قال: ”الکذب اذا کذب العبد فجرہ واذا فجرہ کفر، واذ اکفر دخل النار“ رواہ احمد․
عبدالله بن عمر سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوچھا یا رسول الله! جنت کا عمل کیا ہے؟ فرمایا سچ بولنا، جب بندہ سچ بولتا ہے تو نیک بن جاتا ہے۔ اور ایمان دار ہو جاتا ہے او رجب ایمان دار بن جاتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔ پھر اس نے پوچھا کہ دورخ کا عمل کیا ہے؟ فرمایا جھوٹ بولنا، جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو حدود شریعت سے تجاوز کرنے لگتا ہے او رجب تجاوز کرنے لگتا ہے تو کفر میں گرفتار ہو جاتا ہے اورجب کفر میں گرفتار ہو جاتا ہے تو دوزخ میں داخل ہو جاتا ہے۔
عن عبدالله بن مسعود قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”علیکم بالصدق، فان الصدق یھدی الی البر، وان البر یھدی الی الجنة، ومایزال الرجل یصدق، ویتحری الصدق، حتی یکتب عندالله صدیقا وایاکم والکذب فان الکذب یھدی الی الفجور، وان الفجور یھدی الی النار، ومایزال الرجل یکذب، ویتحری الکذب حتی یکتب عند الله کذابا“․ ( متفق علیہ)
عبدالله بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ راست گوئی سے نیکی کرنے کی توفیق نصیب ہوتی ہے اور نیکی انسان کو جنت تک پہنچا تی ہے، آدمی سچ بولتا رہتا ہے اور تلاش کرکرکے سچ بولتا رہتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ الله کی بارگاہ میں اس کا لقب صدیق پڑ جاتا ہے اور دیکھو! جھوٹ سے بچنا، کیوں کہ جھوٹ فسق میں مبتلا کر دیتا ہے اور فسق دوزخ میں پہنچا کر چھوڑتا ہے۔ انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر جھوٹ بولتا رہتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ الله کی بارگاہ میں اس کا لقب ”کذّاب“ پڑ جاتا ہے۔
عن سفیان بن اسید الحضرمی قال: سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم یقول: کبرت خیانة ان تحدث اخاک حدیثاً ھو لک بہ مصدق، وانت بہ کاذب“․ ( رواہ ابوداود وسکت علیہ، قال النووی: فی اسنادہ ضعف)
سفیان بن اسید روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے خود سنا ہے کہ یہ بھی خیانت کی ایک بڑ ی بات ہے کہ تم اپنے بھائی سے اس طرح کی ذومعنی باتیں بتاؤ کہ وہ تم کو سچا سمجھ رہا ہو اور تم اس سے جھوٹ بول رہے ہو۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کذب بھی ایک قسم کی خیانت ہے، خیانت صرف ہاتھ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ تمام انسانی اعضا کی صفت ہو سکتی ہے، ہاتھ کی خیانت ناجائز مال حاصل کرنا، زبان کی خیانت واقع کے خلاف بات زبان سے نکالنا اور آنکھ کی خیانت خلاف شرع نظر اٹھانا ہے۔ میں آنکھ کی اس خیانت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، ایمان جب قلب میں سرایت کر جاتا ہے تو پھر رگ رگ میں امانت سما جاتی ہے اور عضوعضو سے خیانت نکل جاتی ہے، جب تک مومن کی رگ وپے میں اس طرح امانت سرایت نہیں کرتی، وہ پورا مومن نہیں کہلاتا، اس لیے حدیث میں ہے ، لا ایمان لمن لا امانتہ لہ“:
عن ابی ھریرة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ”آیة المنافق ثلاث اذا حدث کذب واذا وعد اخلف واذا اؤتمن خان“․ ( رواہ البخاری)
ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا منافق کی تین نشانیاں ہیں جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے اور جب اس کے پا س امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے۔
عن عبدالله بن عامر قال دعتني أمي ورسول صلی الله علیہ وسلم قاعد فی بیتنا فقالت: تعال ھالھا اعطیک فقالھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم: ما أردت أن تعطیہ؟ قالت: اردت ان اعطیہ تمرا فقال لھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اما انک لولم تعطیہ کتبت علیک کذبة“․
عبدالله بن عامر کہتے ہیں کہ ایک دن میری والدہ نے مجھے بلایا، اس وقت رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہمارے گھر میں رونق افروز تھے، میری والدہ نے کہا ادھر آؤ! میں تجھے کچھ دوں گی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تم نے اس کو کیا چیز دینے کا ارادہ کیا ہے؟ وہ بولیں کہ میں نے ایک کھجور دینے کاارادہ کیا ہے۔ آپ نے فرمایا اگر کہیں تم نے یہ ارادہ نہ کیا ہوتا۔ تو اتنی سی خلاف واقعہ بات پر بھی تمہارے نامہ اعمال میں ایک جھوٹ لکھ دیا جاتا ۔
عن عائشہ قالت: ”ما کان خلق ابغض الی رسول الله صلی الله علیہ وسلم من الکذب، ولقد کان الرجل یکذب عند رسول الله صلی الله علیہ وسلم الکذبة فما یزال نفسہ علیہ حتی یعلم انہ قداحدث ثھاتوبة“․ (رواہ احمد)
حضرت عائشہ روایت فرماتی ہیں کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ کوئی اور عادت قابل نفرت نہ تھی کوئی شخص آپ کے سامنے جھوٹ بولتا تو جب تک وہ اس سے توبہ نہکر لیتا آپ کے قلب مبارک میں اس طرف سے ناگواری کا اثر برابر محسوس ہوا کرتا۔
عن بھز بن حکیم عن ابیہ عن جدہ قال: قال رسول اصلی الله علیہ وسلم: ویل لمن یحدث فیکذب لیضحک بہ القوم، ویل لہ، ویل لہ․ ( رواہ احمد والترمذی وابوداود والدارمی)
بھز بن حکیم اپنے والد وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص پر افسوس، صد افسوس! جو صرف اتنی بات کے لیے جھوٹ بولتا ہے کہ لوگوں کو خوش کر دے اور لوگوں کو ذرا ہنسا دے۔
اُمرا اور بڑے لوگوں کے درباروں میں کچھ لوگ ظریف بھی مقرر ہوا کرتے تھے، جن کے سپرد صرف یہی خدمت ہوا کرتی تھی کہ وہ جھوٹ یا سچ بول کر ان کی محفل کو گرم کیا کریں۔ اسلام نے اس کو صرف ایک کذب ہی کا مرتبہ نہیں دیا بلکہ انسانیت اور اخلاق سے گری ہوئی بات قرار دیا ہے کہ ایک انسان صرف اپنے جیسے انسان کی خاطر ایسی خفیف حرکات پر آمادہ ہو جائے۔
”عن انس قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:” من ترک الکذب وھو باطل بنی لہ فی ربض الجنة، ومن ترک المراء وھو محق بنی لہ فی وسط الجنة، ومن حسن خلقہ بنی لہ فی اعلاھا“․( رواہ الترمذی)
حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا حالاں کہ وہ بُری اور بیکار بات ہے اس کا صحن جنت میں مکان بنایا جائے گا اور جس نے جھگڑا کرنا چھوڑیا حالاں کہ وہ حق پر تھا اس کے لیے وسط جنت میں مکان بنے گا اور جس نے اپنے اخلاق درست کر لیے اس کے لیے جنت کے اعلیٰ طبقہ میں مکان بنایا جائے گا۔
جھوٹ بولنا اور جھگڑا کرنا دونوں نفاق کی خصلتیں ہیں، جس میں جھگڑا کرنا جھوٹ سے زیادہ سخت ہے ۔ جھوٹ باطل ہو کر چھوڑنے کی چیز ہے او رجھگڑا کرنا سچے معاملہ میں بھی پسندیدہ نہیں، عدالتی چارہ جوئی جدا چیز ہے، جس کو عرف میں جھگڑا کہتے ہیں۔
وہ سچے معاملات میں بھی اعلیٰ اخلاق سے گری ہوئی بات ہے، اسی لیے فرمایا کہ جس نے اپنے اخلاق سنوار لیے اس نے تو جنت کے اعلیٰ طبقہ کا سامان کر لیا۔
عن ابی ھریرہ أن رسول الله صلی الله علیہ وسلم قال: ”ایاکم والظن فان الظن، اکذب الحدیث، ولا تحسسوا، ولا تجسسوا، ولاتناجشو، ولا تحاسدوا، ولا تباغضوا، ولاتدابروا، وکونوا عباد الله اخوانا“․ (رواہ البخاری)
ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا دیکھو ! بد گمانی سے بچو۔ کیوں کہ بدگمانی ایک بدترین جھوٹ ہے اور لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی فکر میں نہ رہو ۔ دھوکہ بازی مت کرو، باہم ایک دوسرے پر حسد نہ کرو ، آپس میں بغض نہ رکھو ،غصہ کے ساتھ ایک دوسرے سے منھ نہ پھیرو اور سب الله کے بندے بھائی بھائی کی طرح بن جاؤ۔
اس حدیث میں یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ ایک مومن کی صدق وصفا کی منزل صرف اس کے نطق پر جا کر ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ وہ اس سے گزر کر اس کے ظنون وخیالات تک بھی پہنچتی ہے یعنی خلاف واقع بات منھ سے نکالنا اورکسی کے متعلق واقع کے خلاف بد گمانی کرنا دونوں جھوٹ ہیں۔ اور دونوں میں بڑھ کر جھوٹ یہ دوسرا جھوٹ ہے۔ کسی سوسائٹی کا سب سے بڑا عیب یہ ہوتا ہے کہ اس میں باہم ایک دوسرے کے عیوب کی چھان بین کی جائے ۔ اس عادت بد سے باہم منافرت پھیلتی ہے اور نفسیاتی لحاظ سے جو عیوب پہلے نہ ہوں ان کے بھی جراثیم پیدا ہونے لگتے ہیں، ا س کے بر خلاف حسُن ظن سے انس ومحبت کی فضا پیدا ہوتی ہے او رایک دوسرے کے نفس میں شرافت وکرم کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں پھر مسلمانوں کے اس عام حسن ظن کی بنا پر رحمت خداوندی بھی ان کے ساتھ ان کے ظن کے مطابق معاملہ کرتی ہے، معاملات کو تاامکان ظاہر کے تابع رکھنا اور بلاوجہ درپے تجسس ہونا اجتماعی حیاة کا ایک اہم اصول ہے، سورہ حجرات کی آیت ولا تجسسوا میں اسی کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔
عن ابن عباس عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: ”من تحلم بحلم لم یرہ کلف ان یعقد بین شعیرین ولن یفعل، ومن سمع الی حدیث قوم وھم لہ کارھون اویفرون منہ صب فی اذینہ الآنک یوم القیمة، ومن صور صورة عذب وکلف ان ینفخ فیھا ولیس بنافخ“․ (رواہ البخاری)
ابن عباسؓ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص جھوٹا خواب بنائے ( قیامت میں) اس کو حکم دیا جا ئے گا کہ وہ دو جو کے دانوں میں گرہ لگائے ( جیسا کہ اس نے دنیا میں گرہ بندی کی تھی ) اور ظاہر ہے کہ یہ ہر گز اس کی قدرت میں نہ ہو گا او رجو شخص لوگوں کی باتیں کان لگا کر سنے گا اس حال میں کہ وہ اس کو ناپسند کرتے ہوں یا اس سے بھاگتے ہوں ( راوی کو شک ہے ) تو قیامت کے دن اس کے کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈالا جائے گا او رجو شخص کسی جاندار کی صورت بنائے اس سے کہا جائے گا کہ اس میں روح بھی ڈالے اورظاہر ہے کہ وہ روح ڈال نہیں سکے گا۔ بالآخر اس کو بھی عذاب ہو گا۔
ابن عمر فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بدنما بہتان یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کے متعلق ایسی چیز کا دیکھنا بیان کرے جو انہوں نے نہیں دیکھی (یعنی جھوٹ خواب بنائے)۔ ان دونوں حدیثوں کا حاصل یہ ہے کہ صدق وصفا کا احاطہ صرف حالتِ بیداری تک ختم نہیں ہوتا بلکہ حالت نوم تک بھی کھنچتا ہے، اگر کوئی شخص حالت خواب کے متعلق بھی کوئی جھوٹا کلمہ کہے تو وہ بھی سخت مجرم ہے ۔ بلکہ اس کا جرم دوسرے مجرموں سے زیادہ ہے، کیوں کہ مومن کا خواب نبوت کا چالیسواں جز ہے اور یہ اسے بھی پراگندہ کرتا ہے۔
غرض اس باب میں کذب کی جتنی صورتیں گزر چکی ہیں ان سے احتراز کرنے کے بعد آپ منزل صدق کو حاصل کرستے ہیں۔ یہ تمام صورتیں نفاق کا شعبہ ہیں۔ ان میں سے چھوٹا بڑا کوئی شعبہ اگر کسی مومن کے اندر موجود ہے تو اس میں نفاق کا شعبہ موجود ہے ۔ وہ مومن صادق نہیں ۔ پھر یہ تو کسی کسی کے نصیب ہیں کہ مومن صدیق کی فہرست میں داخل ہو جائے ، ان کے سردار صدیق اکبر ہیں رضی الله تعالی عنہ۔ (ترجمان السنة ج3، ص488، یاایھا الذین امنوا اتقو الله وکونوا مع الصادقین)
شیخ سعدی شیرازی متوفی691 ھ جھوٹ کی مذمت میں فرماتے ہیں #
کسے را کہ گردد زبان دروغ
چراغ دلش نباشد فروغ
ترجمہ: جس شخص کی ہو جھوٹ کی زبان اس کے دل کے چراغ کے لیے روشنی نہیں۔ حاصل یہ ہے کہ کذب بیانی او رجھوٹ کا عادی شخص مردہ دل ہوتا ہے۔
دروغ آدمی را کند شرمسار
دروغ آدمی را کند بے وقار
جھوٹ انسان کو کرتا ہے شرمندہ، جھوٹ انسان کو کرتا ہے بے عزت #
دروغ اے برادر مگو زینہار
کہ کاذب بود خوار وبے اعتبار
جھوٹ اے بھائی! مت بول ہر گز، کیوں کہ جھوٹا ہوتا ہے ذلیل اور بے اعتبار۔ عقل مند جھوٹے کی صحبت سے بھی عار محسوس کرتا ہے کیوں کہ جھوٹا آدمی معاشرہ میں ذلیل اور بے وقار سمجھا جاتا ہے اور بے وقار کا ہم نشین شرفا کی نظروں سے گر جاتا ہے، لہٰذا جھوٹ کی طرح جھوٹے شخص سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔
زندگی کا اکثر حصہ تو غفلت اور معصیت میں گزر گیا ہے، بقدر لمحات زندگی الله ہمیں اپنی اطاعت میں گزارنے کی توفیق عنایت فرمائے اور ہر مسلمان کو ارتکاب کذب اور ہر قسم کی معصیت سے بچائے اور اعمالِ صالحہ کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!

Flag Counter