Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ -اپریل ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

6 - 8
انسانیت کے امراض اور ان کا علاج !
انسانیت کے امراض اور ان کا علاج

ہمارے ملک کے نامور قانون دان جناب تنزیل الرحمن صاحب ایم اے، ایل ایل بی ایڈوکیٹ مشیرِ قانون ادارہ تحقیقات ِ اسلامی پاکستان ”مجموعہ قوانینِ اسلام“ کے نام سے اسلامی قانون کی تدوین کا کام کررہے ہیں، اس کی پہلی جلد پر جو قانونِ نکاح پر مشتمل تھی ”بینات“ میں تفصیلی تبصرہ کیا جاچکا ہے، دوسری جلد جو قانونِ طلاق پر مشتمل ہے، ہمیں کچھ دن ہوئے موصول ہوئی ہے، مصنفِ محترم اس مقدمہ میں اسلامی قانونِ طلاق کے بالمقابل یہودی، عیسائی اور ہندو مذاہب نیز ترقی یافتہ مغربی ممالک کے رائج الوقت ”قانونِ طلاق“ کا جائزہ لیتے ہوئے آخر میں اپنے ”نتیجہ فکر“ کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”حقیقت یہ کہ ان نام نہاد ”ترقی یافتہ قوانین“ کے مقابلہ میں اسلامی قانونِ طلاق توازن، عدل وانصاف، رواداری، اخلاق وعصمت کی محافظت، محبت ومودت، مقاصدِ نکاح کے حصول، نجاتِ اخروی، مصلحتِ عامہ اور انسانی فطرت کے اصولوں پر قائم ہے اور ہم فخر کے ساتھ دنیا کے سامنے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ چودہ سوسال پہلے جو قانون اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا نے عطا کیا ہے، وہ مغربی دنیا کے موجودہ قوانینِ طلاق سے افضل اور بدرجہا بہتر ہے (اس دعوے کے ثبوت میں انتہائی انکسار اور عاجزی کے ساتھ یہ کتاب حاضر ہے) دراصل مغربی دنیا کا قانون اخلاقی قانون کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا اور نہ ہی نکاح کے دیوانی نتائج، مذہبی نتائج کے مطابق ہوسکتے ہیں، اس کا اعتراف خود ہالسبریز لانز آف انگلینڈ مرتبہ: لارڈسیمانڈس جلد ۱۳ ص:۳۳۴ پر کیا گیا ہے“۔
وسیع مطالعہ، طویل غور وفکر اور مسلسل تحقیق وریسرچ کے بعد ایک مسلمان ماہرِ قانون جس نتیجہ پر پہنچا ہے، اسے متعدد غیر مسلم انصاف پسندوں نے بھی تسلیم کیا ہے، مگر چونکہ وہ اعترافِ حقیقت کے باوجود خود ”اسلامی قانون“ پر ایمان لانے سے محروم رہے ہیں، اس لئے ہم انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے، نہ انہیں یہاں نقل کرنا چاہتے ہیں۔
انسان کے خود ساختہ قوانین خواہ وہ مشرق والوں کے ہوں یا مغرب والوں کے، امریکہ اور انگلینڈ کے ہوں یا روس اور چین کے، دقیانوسی دور کے ہوں یا آج کی ترقی یافتہ تہذیبوں کے، خدائے خالق ومالک کے نازل کردہ قوانین کے مقابلہ میں ان کی حیثیت وہی ہے جو خالق کے مقابلہ میں مخلوق کی ہوسکتی ہے، ملحد سے ملحد تہذیبیں بھی ”انسانی فطرت“ کو بہرحال تسلیم کرتی ہیں اور یہ کہ انسان اپنی ”فطرت“ کے تابع ہے۔ ”انسانی فطرت“ کے تمام تقاضوں، اس کی ضرورتوں، آسائشوں اور مضرتوں کا ٹھیک ٹھیک علم بھی انسان کو نہیں، بلکہ خود ”خالقِ فطرت“ ہی کو ہوسکتا ہے، وہی اس کی صحیح نشوو نما کرسکتا ہے اور اسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ”فطرت“ کی راہنمائی کے لئے قانون سازی کرے، یہ کام نہ خود فطرت انجام دے سکتی ہے، نہ انسان جو اپنے صحیح یا غلط فطری تقاضوں کے سامنے سپر انداز ہے۔
قانون کا بنیادی مقصد
اہم ترین مقصد عدل وانصاف کو بروئے کارلانا اور انسانیت کو ظلم وجور اور بہیمیت ودرندگی کے چنگل سے نجات دلانا ہوتا ہے، لیکن اگر خود قانون کجروی اور درندگی کی آماجگاہ بن جائے، قانون ساز اداروں پر ظلم پیشہ درندوں کا تسلط ہوجائے اور وہ اپنی پست اور گھٹیا خواہشات کے مطابق اندھا دھند قانون سازی کرنے لگیں تو ظاہر ہے کہ قانون، حفاظتِ عدل کے بجائے ظلم وعدوان کا پشتیبان اور پاسبان بن کررہ جائے گا، اس خطرہ سے بچنے کے لئے ضرورت ہوگی کہ ”عدل“ کا مفہوم متعین کیا جائے اور اسے ”ظلم وعدوان“ سے ممتاز کیا جائے۔ ”عدل“ کیا ہے؟ اور ”ظلم“ کسے کہتے ہیں؟ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جس کے بغیر قانون کا سارا دفتر لغویت وہذیان کا پلندہ بن کررہ جاتا ہے اور ہمیں یہ سن کر حیرت ہوتی ہے کہ دنیا کے اعلیٰ ترین مفکر اور ماہرینِ قانون ”عدل“ کا ایسا مفہوم متعین کرنے سے عاجز ہیں جو تمام انسانیت کے لئے یکساں قابل قبول ہو اور جو شخص یہ نہیں جان سکتا کہ عدل کیا ہے، آخر کس قانون سے اسے قانون سازی کا حق حاصل ہے؟ ایک حق تعالیٰ ہی کی ذات ایسی ہے جس کا علم کائنات کے ذرہ ذرہ کو محیط ہے اور جس کی رحمت ساری انسانیت بلکہ ساری کائنات کے لئے عام ہے، انسانوں کے کسی خاص گروہ سے اس کا مفاد وابستہ نہیں، وہی انسانیت کے لئے ”عدل“ کا ٹھیک ٹھیک مفہوم متعین کرسکتا ہے، اور اسی کا نازل کردہ قانون”قانونِ عدل“کہلانے کا مستحق ہے، قانونِ الٰہی کے سوا دنیا کے خودتراشیدہ قانون نہ عدل وانصاف کے تقاضوں کو پورا کر سکتے ہیں،نہ انسانیت کو ظلم وستم کے آہنی پنجے سے نجات دلاسکتے ہیں، حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”لَقَد اَرسَلنَا رُسُلَنَا بِالبَیِّنَاتِ وَاَنزَلنَا مَعَہُمُ الکِتَابَ وَالمِیزَانَ لِیَقُومَ النَّاسُ بِالقِسطِ“۔ (الحدید:۲۵)
ترجمہ:۔”ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلے کھلے احکام دے کر بھیجا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب کو اور انصاف کے ترازو کو نازل کیا تاکہ لوگ اعتدال پر قائم رہیں“۔
جرم اور سزا کے درمیان وہی رشتہ ہے جو مرض اور دوا کے درمیان ہے، ایک ماہر طبیب مرض کی نوعیت، اس کے اسباب وعوارض اور اس کے آثار ونتائج کو سمجھتا ہے، مریض کی عادت ونفسیات کا بغور مطالعہ کرتا ہے، اس کے محلِ بود وباش اور تقاضائے سن وسال کو سوچ سمجھ کر اس کے لئے نسخہ تجویز کرتا ہے، طریقہٴ استعمال بتاتا ہے، غذا وپرہیز کی بابت ہدایات دیتا ہے، لیکن ایک عطائی کو ان چیزوں سے سروکار ہے نہ اہلیت، اس نے کہیں سے سن لیا کہ فلاں مرض کے لئے فلاں دوا مفید ہے، بس! وہ دوا اٹھائی اور لوگوں کو دینا شروع کردی، اس کے بعد مریض کی قسمت کہ وہ جئے یا مرے۔
جرائم انسانیت کے سب سے بڑے امراض ہیں اور قانون کے ذریعہ ان امراض کا علاج کیا جاتا ہے، قانون کا سب سے مشکل مرحلہ جرم اور سزا کے درمیان توازن کا قائم کرنا ہے اور ایسی ترازو دنیا کے کسی کارخانے میں تیار نہیں ہوتی جس سے جرم کے آثار ونتائج کا وزن کرکے اس کے ہم وزن سزا تجویز کی جائے، یہی وجہ ہے کہ انسانی قانون کی تمام تردراز دستیوں کے باوجود ”مہذب ممالک“ میں گھناؤ نے جرائم کی رفتار تیزسے تیز تر ہوتی جارہی ہے اور جب تک دنیا اس ”انبیائی میزان“ کے مطابق جرم وسزا کا موازنہ نہیں کرتی، اس وقت تک انسانیت پر جنگل کا قانون نافذ رہے گا اور انسانیت ظلم وعدوان کے پنجے میں سسکتی بلکتی رہے گی۔
یہی میزانِ نبوت ہمیں بتاتی ہے کہ ”زنا“ اپنے اندر تعفن اور گندگی کی کتنی مقدار رکھتا ہے اور اس کا علاج کتنے پتھروں یا کوڑوں سے ہونا چاہئے اور کسی مال پر ناجائز ہاتھ ڈالنا کتنا بڑا معاشرتی روگ ہے اور اس کا علاج صرف ”ہاتھ کاٹنے“ سے ہوسکتا ہے۔ جو شخص فالج کا علاج کونین سے اور موتیا بند کی تدبیر ”اسپرو“ سے کرنا چاہتا ہے وہ جاہل مریض کا دوست نہیں دشمن ہے اور جو شخص قتل کا علاج اتنے سال کی قید سے اور ڈکیتی کا علاج اتنے ماہ کی قید سے کرنا چاہتاہے وہ قانون ساز نہیں،انسانیت کا قاتل ہے، یہی وجہ ہے کہ آج مہذب ممالک کے جیل خانے جرائم کی تربیت گاہ بن کررہ گئے ہیں، مجرم جب سزا کاٹ کر واپس آتے ہیں تو مرضِ جرم سے شفایاب ہوکر نہیں نکلتے، بلکہ عادی مجرم بن کر آتے ہیں۔ اِلاَّ ما شاء الله۔
اللہ تعالیٰ جل شانہ کا کامل ومکمل آخری قانون
خدائے برتر کا آخری قانون اپنی جامع اور کامل ترین صورت میں حضرت خاتم النبیین محمد ا پر نازل ہوا، اس نے انسانیت کے لئے عدل وانصاف، مودت ورحمت، ہمدردی وخیرخواہی، اخوت ومواسات اور سکون واطمینان کی وہ فضا پیدا کی جس کی مثال چشم فلک نے کبھی نہ دیکھی تھی، یہ ایک ایسا خود کار نظام تھا جس کی بدولت اول تو جرائم کی تعداد گھٹتے گھٹتے صفر کے نقطہ تک پہنچ گئی تھی اور کبھی سہو یا بشریت کی بنا پر کوئی جرم کسی سے صادر ہوہی جاتا تو مجرم خود ہی طہرنی یارسول الله (یا رسول اللہ ! مجھے سزا دے کر پاک کردیجئے) کا نعرہ لگاتے ہوئے عدالت کے کٹہرے میں حاضر ہوتا، اور جب تک عدالتِ نبوت اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کردیتی، اس کے ضمیر کی خلش، ایمان کی حرارت اور محاسبہٴ آخرت کی فکر اسے مسلسل بے چین کئے رکھتی، نہ کسی کوکسی سے شکایت، نہ کوئی طبقاتی مسئلہ، نہ کوئی اقتصادی الجھن، نہ کوئی سیاسی آویزش، کیا آج کا ترقی یافتہ، لیکن بے حد مظلوم انسان اس کا تصور بھی کرسکتا ہے؟ یہ تھی اسلامی شریعت! جس نے دنیا کو عدل وانصاف سے بھردیا۔آنحضرت ا کا ارشاد ہے:
”قد جئتکم بالسمحة البیضاء لیلہا ونہارہا سواء“۔
ترجمہ:۔”میں تمہارے پاس ایسی آسان اور روشن شریعت لایا ہوں جس کے رات دن یکساں روشن ہیں“۔
پاکستان اس مقصد کے لئے معرض وجود میں آیاتھا کہ اسے ”دار الامن والایمان ومہد السلامة والاسلام“ ایمان واسلام کا گھر اور امن وسلامتی کا گہوارہ بنایاجائے گا، لا الہ الا اللہ کا واسطہ دے کر ہم نے خدا ورسول سے، نیزدس کروڑ مسلمانوں سے عہد کیا تھا کہ اس ”مملکتِ خداداد“ کا آئین اسلام ہوگا، ہماری اجتماعی زندگی کا ایک ایک شعبہ اسلام کے زیرنگین ہوگا، ہم اپنے سفرِ حیات کی ایک ایک لائن کو شریعتِ محمدیہ کے صراط مستقیم پر لائیں گے اور آج کی دکھ بھری دنیا کو بتائیں گے کہ تم جس متاعِ گم گشتہ کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہو وہ حضرت محمد ا کے نقش قدم کی پیروی سے آج بھی مل سکتی ہے۔
اگر ہمارے اربابِ اقتدار نفاق ورزی سے کام نہ لیتے اور امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ خدا ورسول ا کو بھی صرف وعدوں اورلیکچروں سے نہ بہلاتے تو یہ ملک واقعةً اسلام اور سلامتی کا گہوارہ اور پوری دنیا کے لئے مثالی نمونہ ہوتا، پاکستان کی اعلیٰ قیادت ایک نئی دنیا کی معمار ہوتی اور آج عالم اسلام کا نقشہ یقینا کچھ اور ہوتا، مگر یہاں بائیس سال سے جو کچھ ہوا اور اس کی جو قیمت پوری قوم کو ادا کرنا پڑی اور ہم اس کے نتیجہ میں جس خود غرضی، افراتفری، افتراق وانتشار اور ذلت ونکبت کا شکار ہوئے، اس کا تذکرہ رنج والم اور ندامت وخجالت کا موجب ہے۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کا مقصد اسی وقت پورا ہوسکتا ہے اور اسلامی مملکت کا خواب اسی وقت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے، جبکہ یہاں اسلامی آئین نافذ ہو اور اسلامی شریعت اور خدائی قانون کو زندگی کے تمام شعبوں میں جاری کیا جائے، عدلیہ میں قرآن وسنت اور فقہِ اسلامی کے مطابق فیصلے کئے جائیں، حدود اللہ کا اجراء کیا جائے، اسلامی قانون کتاب وسنت اور فقہ اسلامی میں مدون ومرتب موجود ہے، صدیوں اس پر عمل ہوتا رہا ہے، وہ آج بھی نافذ کیا جاسکتا ہے۔
کسی ملک کے دارالاسلام بننے کا مدارکس چیز پر ہے
تمام علمائے امت کا اتفاق ہے کہ کسی خطہ ٴ زمین کے دارالاسلام بننے کا مدار اس بات پر نہیں کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی کاتناسب کیا ہے؟ بلکہ اس کا مدار قانونِ اسلام کے نفاذ پر ہے۔ جس ملک میں برسرِاقتدار طبقہ کی جانب سے عوام کو اسلامی قانون کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کا موقع نہ دیا جائے، جہاں کفر اور جاہلیت کا آئین وقانون مسلط ہو اور جہاں کے بے بس عوام مسلسل احتجاج کے باوجود خدائی قانون کے بجائے طاغوتی قانون کے مطابق اپنے مقدمات فیصل کرانے پر مجبور ہوں، اسے ہزار بار مسلمانوں کا ملک کہہ لیجئے، لیکن اسے حقیقی معنی میں اسلامی مملکت اور دارالاسلام کہتے ہوئے حیا آتی ہے۔ ”اسلام کے گھر“ میں بھی اگر اسلام کو قدم ٹکانے کی اجازت نہ ہو تو وہ مسلمانوں کا گھر تو ہوسکتا ہے، لیکن کیا دنیا کا کوئی عقلمند اسے ”اسلام کا گھر“ مان لے گا؟ پاکستان اگر واقعی ”دارالاسلام“ اسلام کا گھر ہے تو یہاں کے دس گیارہ کروڑ فرزندانِ اسلام اور اس کے قائدین سے اپیل بے جا نہ ہو گی کہ خدا کے لئے اس گھر میں اسلام کو قدم رکھنے کی جگہ دیجئے اور اسے اپنے گھر کی اصلاح کرنے دیجئے۔
اسلام کیا ہے؟
بعض حضرات کی زبانِ فیض ترجمان سے ”اسلامی اقدار“، ”اسلامی اصول“، ”اسلامی نظریہ حیات“ اور ”اسلامی مساوات“ جیسے مبہم الفاظ وقتاً فوقتاً سننے میں آتے ہیں، یہ تعبیر بڑی غلط فہمی اور تلبیس کا موجب ہوسکتی ہے، اسلام صرف چند مبہم اصولوں یا اعلیٰ اخلاقی قدروں کا نام نہیں، بلکہ وہ عقائد، عبادات، معاملات، تعزیرات اور اخلاق کے تفصیلی قوانین کا مجموعہ ہے، اسلام اگر زنا، چوری، ڈکیتی، قتل، شراب نوشی جیسی گھناؤنی حرکات کو جرائم قرار دیتا ہے تو ان کے انسداد کے لئے ایک مفصل تعزیراتی نظام بھی دیتا ہے، وہ جہاں معاشی تحفظ کا وعدہ دیتا ہے، وہاں اقتصاد ومعاش کی جائز اور ناجائز صورتیں بھی بتاتا ہے، اگر وہ معاملات میں عدلِ اجتماعی پر زور دیتا ہے تو اس کے لئے ایک دیوانی قانون بھی رکھتا ہے اگر وہ اصلاح معاشرہ کی ذمہ داری لیتا ہے تو اس کے لئے ایک کامل نظامِ ہدایت بھی دیتا ہے۔ الغرض زندگی کا کون ساگوشہ ہے جس کے لئے اسلام نے تفصیلی قوانین وضع نہ کئے ہوں! دارالاسلام وہی ہوسکتا ہے اور اسلامی مملکت وہی ہوسکتی ہے، جہاں اسلام کی ہمہ گیر فرمانروائی ہو اور جہاں اسلام کے وہ تمام احکام وقوانین جاری ہوں جن کی تفصیلات کتاب وسنت اور فقہ اسلامی میں موجود ہیں اور جن پر آنحضرت ا کے عہد سے لے کر زوالِ خلافت کے آخری دور تک عمل ہوتا رہا ہے۔ جو لوگ ”اسلام“ کا نام لیتے ہوئے شرماتے ہیں اور صرف اسلامی اصول اور اسلامی مساوات جیسی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں، ان کے بارے میں یہ اندیشہ غلط نہیں کہ وہ اسلام کے نام پر ”جاہلیت ِ جدیدہ“ لانا چاہتے ہیں۔
یکم جنوری سے شروع ہونے والا نیاسال ملک میں نئے انقلاب اور نئی تبدیلیوں کا پیغام لارہا ہے، پردہٴ غیب سے کیا کچھ طلوع ہوگا؟ اس کا ٹھیک علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے، تاہم حالات کی نزاکت بتاتی ہے کہ اس موقع پر ادنیٰ غفلت اور معمولی لغزش بے حد تباہ کن اور سنگین نتائج کی حامل ہوگی، اس لئے ضروری ہے کہ قوم کا ایک ایک فرد یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے کہ مجھے کل اللہ تعالیٰ کے حضور میں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی، اگر خدانخواستہ وقت کی نزاکت کا صحیح احساس نہ کیاگیا اور جس مقصد کی خاطر پاکستان بنا تھا اسے پس منظر میں ڈال دیا گیا تو اس کا خمیازہ پوری قوم کو دنیا وآخرت میں بھگتنا ہوگا۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلی ذمہ داری مارشل لاء حکومت پر عائد ہوتی ہے، موجودہ حکومت کا یہ عظیم کارنامہ ہے کہ اس نے قوم کے تمام طبقات کے لئے اطمینان بخش پالیسی اختیار کی ہے، اسے اس سے آگے بڑھ کر ایسی پالیسی بھی اختیار کرنی چاہئے جس سے اللہ اور رسول خوش ہوجائیں اور ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں جس سے اسلامی نظام کے قیام کے امکانات روشن ہوں اور حکومت کو رضائے خداوندی کا تغمہ ملے۔
دوسری ذمہ داری طبقہٴ علماء پر عائد ہوتی ہے کہ تمام نزاعات کو بالائے طاق رکھ کر کامل یکسوئی جانفشانی اور للہیت کے ساتھ قوم کا ذہن اسلام کے سایہٴ رحمت کے لئے تیار کریں۔
تیسری ذمہ داری قوم کے قائدین اور سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ فروعی اور علاقائی نعروں کو چھوڑ کر صرف اسلام کے لئے جد وجہد کریں۔
سب سے آخری اور عظیم ذمہ داری مسلم عوام پر عائد ہوتی ہے کہ وہ صرف اسلام کے لئے اپنا ”حق رائے دہی“ استعمال کریں، یہ گذارشات نہایت اختصار کے ساتھ پیش کی گئی ہیں، ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ کسی صحبت میں اس پر مفصل معروضات پیش کی جائیں گی۔ اے اللہ! ہماری حالتِ زار پر رحم فرما اور ہمیں ایسے اعمال کی توفیق عطا فرما، جس سے توراضی ہو اور ہمیں ایسی حرکات سے بچا ئیو جو دنیا وآخرت میں تیرے غضب کا موجب ہیں۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی:۱۴۳۲ھ -اپریل: ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: خلع کی شرعی حیثیت اور ہمارا عدالتی طریقہٴ کار !
Flag Counter