Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء

ہ رسالہ

6 - 14
جمہوریت اور اسلام کا سیاسی نظام
جمہوریت اور اسلام کا سیاسی نظام
جمہوریت کو دنیا تہذیب وتمدن کی علامت اور ایک فطری طرز حکومت کے طورپر تسلیم کرچکی ہے۔ بیشتر ممالک میں جمہوری نظام سیاست قائم ہوچکا ہے اور جہاں اب تک جمہوری نظام قائم نہیں ہوسکا ہے، وہاں جد وجہد جاری ہے۔ لیکن ایک صدی قبل دنیا کو جمہوریت سے جو توقعات وابستہ تھیں، وہ آج تک پوری نہیں ہوسکیں۔ اس کی دو اہم وجوہات ہیں:
۱:۔ جمہوریت کے علمبرداروں اور اس کا خیر مقدم کرنے والوں نے درحقیقت اس کے مفہوم کو خود ہی نہیں سمجھا تھا۔ وہ لوگ اس غلط فہمی یا خوش فہمی میں رہ گئے کہ جمہوریت قائم ہوتے ہی بس ہر طرف عدل وانصاف اور آزادی ومساوات کا دور دورہ ہوگا، مگر یہ ایک خواب تھا جو شرمندہ ٴ تعبیر نہ ہوسکا۔
۲:۔ دوسری وجہ یہ کہ اس نظام کو قائم کرنے والوں نے صحیح معنیٰ میں جمہوری نظام قائم ہی نہیں کیا۔
ماہرین سیاسیات نے مختلف پہلوؤں سے اس مسئلہ کا تنقیدی جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ ابتداء سے ہی جمہوریت کا مفہوم واضح طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ اس کی اتنی مختلف اور مبہم تعریفات بیان کی گئیں کہ ہر شخص نے اس کا جو مطلب چاہا، سمجھ لیا۔ اور آج بھی صورت حال یہ ہے کہ ہر فریق اپنے پسندیدہ نظام کو ہی جمہوری نظام بتاتا ہے اور اپنے آپ کو ہی جمہوریت کا حامی اور علمبردار کہتا ہے، جب کہ ان میں سے ہر گروہ کے نظریات واصول بالکل مختلف ہیں اور ہرفریق مخالف فریق کو جمہوریت کا دشمن، ملک کا دشمن، قوم کا دشمن اور آخر میں دہشت گرد قرار دیتاہے۔
اگر جمہوریت اتنا وسیع المعنیٰ لفظ ہے کہ اس کا اطلاق ہر قسم کی حکومتوں اور ہرنوع کے نظام پر ہوسکتا ہے تو یہ کہنابے جا نہ ہوگا کہ یہ ایک ایسا لیبل ہے جو جب اور جہاں چاہیں، چسپاں کردیا جائے۔ اگر ایسا ہے تو پھر اس کے نام پر اختلافات، بحثیں، تصادم، خون ریزیاں اور قربانیاں کیوں؟
جمہوریت انگریزی لفظ ”ڈیموکریسی“ کا ہم معنیٰ ہے اور انگریزی کا لفظ ڈیموکریسی، یونانی لفظ ”ڈیموکریٹیا“ سے مشتق ہے جو دو لفظوں ”ڈیموس“ یعنی لوگ اور ”کریٹیا“ یعنی طاقت یا اقتدار سے مل کر بنا ہے، اس طرح جمہوریت کے معنیٰ ہوئے: لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار۔ یعنی ایک ایسا نظام حکومت جس میں اقتدار کی باگ ڈور لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، نہ کہ فرد واحد یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں۔ لیکن یہاں پر لوگوں سے مراد کل آبادی نہیں ہے، بلکہ یونان کے وہ مرد (عورتیں نہیں) جنہیں وہاں شہری حقوق حاصل تھے۔ معلوم ہونا چاہئے کہ یونان میں عورتیں، غیر یونانی لوگ اور غلام شہری حقوق سے محروم تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ یونانیوں کا تصورِ جمہوریت نہایت محدود تھا، انتظامی امور میں آبادی کا بہت چھوٹا حصہ ہی شامل تھا، اس اعتبار سے اس پر جمہوریت کا اطلاق نہیں ہوگا، کیونکہ یہ جمہور (عوام) کی حکومت نہیں تھی۔ ایک نا قابلِ تردید حقیقت یہ ہے کہ بیسویں صدی کے اوائل تک نہ صرف یورپ کے تمام ممالک بلکہ خود برطانیہ میں بھی ووٹ کا حق تمام لوگوں کو نہیں تھا، یورپ میں حق رائے دہندگی تمام بالغ مرد وں کو پہلی عالمگیر جنگ کے بعد حاصل ہوگیا تھا، تاہم بہت سے ایشیائی اور افریقی ممالک میں یہ حق عام طور پر دوسری عالمگیر جنگ کے بعد ملا۔
جمہوریت کے ارکانِ خمسہ
۱۔اقتدار کا منبع لوگ ہوں۔ یعنی اصل سیاسی طاقت کے مالک لوگ ہوں اوروہی رہیں۔ یعنی اگر حکمرانی کا حق کسی کے سپرد کردیں تو واپس لینے کا بھی حق رکھتے ہوں۔
۲۔لوگ مختار کل اور مکمل آزاد ہوں۔ یعنی ان پر کوئی بیرونی طاقت حکمران نہ ہو، بلکہ یہ خود ہی حاکم اعلیٰ ہوں،جو چاہیں کر سکیں۔ دوسرے ان کے سامنے جوابدہ ہوں، یہ کسی کے سامنے جو ابدہ نہ ہوں۔
۳۔حکومت ان کی مرضی کے مطابق ہو اور ان کی مرضی کا اظہار بغیر کسی دباؤ کے واضح اور آزادانہ طور پر ہو۔
۴۔حکام کا تقرر لوگوں کی مرضی اور ان ہی کے نمائندوں کے ذریعہ ہو اور حکام اسی وقت تک اپنے عہدوں پر فائز رہیں، جب تک انہیں لوگوں کا اعتماد حاصل رہے۔
۵۔ملک کا انتظام چلانے کے لئے جو قانون چاہیں، یہ وضع کرسکیں۔ اور جب جس قانون کو چاہیں، بدل سکیں۔ یعنی قانون سازی کے معاملے میں مکمل آزاد ہوں، ان پر کوئی خارجی دباؤ یا پابندی عائد نہ ہو۔
جمہوریت کی مندرجہ بالا نظریاتی تعریف کو پیش نظررکھ کر جمہوریت کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت اپنی ان خصوصیات کے ساتھ کبھی بھی اور کہیں بھی قائم نہیں ہوئی۔ اس کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔
طاقت (اقتدار اعلیٰ) جمہور (عوام) کے ہاتھوں میں نہیں ہے، اصل طاقت اور قانون سازی کا حق چند لوگوں کے پاس ہے، جسے عام طور پر پارلیمنٹ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، جو (بظاہر) خود مختار ہوتے ہیں کہ اپنے ملک کے لئے جو قانون چاہیں بنائیں، حکام کی تقرری اوران کے احتساب کا حق انہیں کو حاصل ہے۔ یہی انتظامیہ اور عدلیہ کو کنٹرول میں رکھتی ہے۔ بالفاظ دیگر کہا جاسکتا ہے کہ آج کل بیشتر ممالک میں سیاسی طاقت یا اقتدار پارلیمنٹ کے ہاتھوں میں ہوتا ہے۔
اقتدار کا چند ہاتھوں میں مرکوز ہونا جمہوریت کے منافی ہے، جمہوریت کی بنیادی خصوصیت میں اقتدارجمہور کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لیکن عملاً ہم دیکھتے ہیں کہ ساری طاقت چند پارلیمان کے ہاتھوں میں ہوتی ہے ،تو کیا اب بھی جمہور سے مراد چند لوگ ہیں؟ درحقیقت جمہوریت کی یہ تعریف ہی غلط کی گئی ہے۔ عملاً یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ تمام شہری ایک جگہ پر جمع ہوکر اس طاقت کا استعمال کر سکیں، کیونکہ یہ ایک دن کا معاملہ نہیں، روزانہ کوئی نہ کوئی مسئلہ در پیش ہوگا، اس لئے اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ جمہوریت میں ہر شخص براہ راست سیاسی طاقت کا استعمال کرسکتا ہے تو وہ مغالطے میں مبتلا ہے، جس کسی نے بھی یہ توقع قائم کررکھی تھی ،دراصل اس نے ایک مہمل سا خواب دیکھا تھاجو کبھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا ہے اور نہ ہوسکے گا۔
اقتدار جمہور کے نمائندوں کے ہاتھ میں ہوتا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جمہور کے پاس طاقت نہیں ہوتی یا وہ اس کا استعمال نہیں کرتے، بلکہ تمام لوگ اپنی طاقت اور اختیار کو کسی نمائندہ کو تفویض کردیتے ہیں اور یہی نمائندے جمہور کی طرف سے طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ظاہری طور پر اور عملاً سارے اختیارات پارلیمنٹ کے پاس ہوتے ہیں اور وہ خود مختار ہوتی ہے، لیکن جب تک اسے جمہور کا اعتماد حاصل رہے۔
یعنی ہر جمہوری ملک میں دو طرح کا اقتدار ہوتا ہے: ایک تو قانونی، ظاہری، عارضی یا میعادی جوکہ پارلیمنٹ کے پاس ہوتا ہے اور استعمال کے وقت اسے مکمل آزادی حاصل ہوتی ہے، اس کے اختیارات لامحدود ہوتے ہیں اور دوسرا اصلی اقتدار جوکہ جمہور کے پاس ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ اگر جمہور کی مرضی کے مطابق حکومت نہیں کرتی تو جمہور جب چاہے انتخاب کے ذریعہ پارلیمان کو برطرف کرسکتی ہے۔ پس جمہوریت کی روح یہ نہیں کہ اقتدار اعلیٰ جمہور کے ہاتھ میں ہو، بلکہ جمہور کے نمائندے جمہور کی مرضی کے مطابق اختیارات کا استعمال کریں۔
جمہور کے نمائندے جمہور کی نمائندگی نہیں کرتے ، عملی دشواریوں کے پیش نظر جمہور اگر اپنے نمائندوں کے ذریعہ اپنے اختیارات کا استعمال کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور اگر جمہور کے نمائندے واقعی جمہور کی مرضی، خواہشات اور نظریات کے مطابق حکومت کریں تو جمہوریت کی ایک بنیادی شرط پوری ہوجاتی ہے کہ حکومت جمہور کی مرضی کے مطابق قائم ہو اور قائم رہے، اس کے لئے تین باتیں ضروری ہیں:
۱۔جمہور یا عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو، ان کی اپنی خود کی مرضی ہو اور یہ خواہش ہو کہ ان کی مرضی کے مطابق حکومت قائم ہو۔
۲۔ جمہور یا عوام کو اپنی مرضی اور خواہشات کا اظہار کرنے کا اختیار، مواقع، ماحول اور آزادی وغیرہ حاصل ہوں اور ان پر کسی قسم کا دباؤ نہ ہو۔
۳۔جمہور جس پارٹی کو منتخب کرے، وہ اپنے انہی اصول، پالیسی یا نظریہ کی پابند رہے جس پر وہ انتخاب کے وقت تھی، ایسا نہ ہو کہ اقتدار اور اختیار ملنے کے بعد جمہور کی خواہشات کو پامال کرنے لگے۔
ان باتوں کو جب عملی جامہ پہنایاجاتا ہے تو اس کے نتائج حوصلہ افزا نہیں نکلتے اور کبھی کبھی تو نتائج جمہوریت کے بالکل منافی ہوتے ہیں اور جب اس پہلو سے غور کیا جاتا ہے تو سچائی سامنے آتی ہے کہ جمہوری حکومت میں سرمایہ داروں کی مداخلت اور کنٹرول ہوتا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام میں عام طور پر انتخابات پارٹی کی بنیاد پر ہوتے ہیں ، پارٹی تنظیم کی محتاج ہوتی ہے اور تنظیم کے لئے مال ودولت کی ضرورت سے کسی کو بھی انکار نہیں، چنانچہ بہت سے سرمایہ دار اپنے سرمایہ سے مختلف پارٹیوں کی مدد کرتے ہیں تو پارٹی کے ارکان سے یہ امید لگاتے ہیں کہ وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ میں جاکر ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے، اس طرح پارٹیاں جمہور کی نہیں، مخصوص سرمایہ داروں کی نمائندگی کرنے لگتی ہیں اور ان کے مفاد کے پیش نظر ملک کی پالیسی اور قانون بناتی ہیں۔
انتخابات کے بعد جمہور کے ہاتھ میں اختیار نہیں ہوتا، عوام کے منتخب نمائندے پارلیمنٹ کے ممبر اور ہرسیاہ وسفید کے مالک بن جاتے ہیں۔ عوام اپنے سارے اختیارات ان کو اس توقع پر دے چکے ہوتے ہیں کہ یہ عوام کی مرضی کے مطابق حکومت چلائیں گے۔ اب اگر یہ اپنے وعدوں سے پھر جائیں اور عوام کی مرضی کے خلاف کام کرنے لگیں تو یہ بدترین اور ظالم وجابر فرمان روا سے بھی زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں، کیونکہ انہیں قانون کی حمایت حاصل ہوتی ہے اور قانون کی رو سے انہیں لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں، انہیں ملک کا دستور بھی مسترد کرنے اور نئی دستور سازی کا قانونی حق ہوتا ہے اور ووٹر یا جمہور یا عوام ان سے نہ تو کوئی باز پرس کرسکتا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ کے خلاف بغاوت کرسکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ ایسے پارلیمان کے خلاف آئندہ انتخاب میں ووٹ ڈالاجاسکتا ہے، لیکن ان پارلیمان کو یہ بھی قانونی حق حاصل ہے کہ انتخابات کو غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی رکھیں اور اپنی من مانی کرتے رہیں۔
اسلام کے سیاسی نظام یعنی خلافت کی بنیاد اس عقیدہ پر ہے کہ انسان تو کیا، کوئی بھی ہستی اس کی مستحق اور اہل نہیں کہ دوسروں پر فرماں روائی کرے۔ خلافت میں حاکم اعلیٰ ،اللہ ہے،جس کی فرماں روائی کائنات کے ذرے ذرے پر ہے۔ لیکن جمہوری نظام میں (بظاہر) حاکم اعلیٰ عوام ہوتی ہے جوکہ اسلامی نقطہ ٴ نظر سے غلط ہے۔
حاکم اعلیٰ اللہ تعالیٰ ہے،اس کی کئی وجہیں ہیں، جن کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ قانون سازی یا فرماں روائی کا مستحق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ حاکم اعلیٰ اس ہستی کو کہتے ہیں جس کے اختیارات لامحدود ہوں اور وہ خود مختار ہو، جو کسی کے سامنے جواب دہ نہ ہو اور جسے فرماں روائی کا حق مالک ہونے کی بنا پر حاصل ہو، کسی کا عطا کیا ہوا نہ ہو۔
خلیفہ جمہور کا نمائندہ نہیں ، رسول اکرم ا کا نائب ہوتا ہے۔ خلیفہ، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ا کی مرضی کی ترجمانی کرنے پر مامور ہوتا ہے نہ کہ امت کی مرضی کی۔
خلافت میں شرعی قانون نافذ ہوتا ہے ، قانون سازی نہیں کی جاتی، قرآن اللہ کی مرضی کا مظہر ہے، خلیفہ اسی کا پابند ہوتا ہے۔
خلیفہ کے انتخاب کا معیار تقویٰ ہوتا ہے۔ براہ راست عوام تو کیا خواص بھی اپنی ذاتی پسند کا متفقہ طور پر خلیفہ منتخب نہیں کرسکتے۔ اس لئے اسلام میں اسی صورت کو ترجیح دی گئی ہے کہ امت میں سب سے متقی وپرہیز لوگ، جن کی سیرت قرآن وسنت سے زیادہ قریب ہو، وہ باہمی مشورے سے کسی بہترین فرد کا انتخاب کرلیں، یہ اصول حضرت عمر فاروق  نے اپنے بعد خلیفہ کے انتخاب کا جو طریقہ تجویز کیا تھا، اس سے بالکل واضح ہے۔ اسلام نے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی ہے کہ لوگ مناصب کی خواہش وطلب کے ساتھ میدان میں آئیں اور پھر انہیں منصب دیاجائے، جبکہ جمہوریت میں یہ لازمی ہے۔
اشاعت ۲۰۱۱ ماہنامہ بینات , ربیع الاول ۱۴۳۲ھ -مارچ ۲۰۱۱ء, جلد 74, شمارہ 3

    پچھلا مضمون: مختصر درود پاک میں کیا اضافہ درست ہے؟
Flag Counter