Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی رجب المرجب ۱۴۳۱ھ - جولائی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 13
دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بندِ قبا دیکھ !
دامن کو ذرا دیکھ ،ذرا بندِ قبا دیکھ !

جناب نبی آخرالزماں ا کی ختمِ نبوت اورحضرت محمد عربی ا کی عزت وناموس پرہرمسلمان اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کوعینِ ایمان سمجھتاہے ،لیکن اسلام دشمن قوتیں ہمیشہ اسلام ،شعائرِ اسلام اور پیغمبر اسلام اکی شان میں گستاخی کرکے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلتی رہتی ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اگر مسلمان ،معاندین اسلام کی ان حرکتوں پر پُرامن احتجاج بھی کریں تو ان کو تنگ نظری کاطعنہ دیا جاتا ہے اور بعض مغرب نواز اہلِ قلم بھی ان سے متاثر ہوکر اپنے مضامین کے ذریعہ مسلمانوں کو روشن خیالی کا درس دینا شروع کردیتے ہیں ۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مسلمانوں کے دلوں میں ختم نبوت کے حوالہ سے اٹھنے والی بیداری کی لہر،اہل حق کا احساس ذمہ داری ،ان کی قربانیوں کے نتیجے میں مرزاغلام احمد قادیانی کی ذریت کو پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیااور ۱۹۸۴ء کے امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعے ان گستاخان پرپابندی لگادی گئی کہ یہ شعائر اسلام کو استعمال نہیں کرسکتے تاکہ یہ شاطرقادیانی بھولے بھالے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر ان کی متاعِ ایمان نہ لوٹ سکیں۔
اس قانون کے نفاذ سے جہاں قادیانیت پر ضرب پڑی، وہیں اسلام دشمن قوتوں کے آلہ کاروں کے مکروہ عزائم بھی بے نقاب ہوگئے ،چنانچہ اس قانون کے نفاذ کے بعد سے اب تک ان تمام کا مطالبہ اور مشن یہی ہے کہ کسی طرح اس قانون توہینِ رسالت کا خاتمہ کروایا جاسکے۔
۱۹۷۴ء میں قادیانیوں کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تاریخ ساز رکن اسمبلی نے متفقہ طور پر غیر مسلم قرار دیدیا، اورانہیں اقلیتوں کے مساوی حقوق دے گئے ،اس اسمبلی میں قادیانیوں کو اپنا موقف پیش کرنے کا پوراپورا موقع دیا گیا ،اس معاملے پر قومی اسمبلی نے دوماہ تک طویل بحث کی ،اوران دوماہ میں اسمبلی کے اٹھائیس اجلاس ہوئے ، جن کی چھیانوے نشستیں منعقد ہوئیں ،جس میں قادیانیوں کی طرف سے پیش ہونے والے مرزاناصر نے باون گھنٹوں تک اپنا تفصیلی موقف اسمبلی کے سامنے پیش کیا ،اس مسئلے پرمسلسل گیارہ روز تک جرح ہوئی،تب جاکریہ بل متفقہ طور پر اسمبلی سے پاس ہو ا،جس کے آخر میں ذوالفقار علی بھٹومرحوم نے ستائیس منٹ تقریر کی ،اور پھر بھٹو صاحب کے وہ الفاظ جس سے اس فتنہ کی حقیقت کھل کے سامنے آجاتی ہے ، وہ یہ تھے کہ :
” رفیع یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ہم ان کو پاکستان میں وہ مرتبہ دیں جو یہودیوں کو امریکہ میں حاصل ہے ،یعنی ہماری ہر پالیسی ان کی مرضی کے مطابق چلے“۔(بھٹوکے آخری ۳۲۳دن،صفحہ ۶۷،ازکرنل رفیع)
اگر چہ ختمِ نبوت پر قدغن لگانے والے یہ افراد پہلے نہیں تھے ،بلکہ امام الانبیاء خاتم المرسلین ا کی حیات مبارکہ کے آخری ایام میں سب سے پہلے اسود عنسی جیسے بدبخت نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کیا جس کی سرکوبی کے لیے امام المجاہدین سرورکائنات انے حضرت خالدبن ولیدرضی اللہ عنہ کی امارت میں ایک لشکر روانہ فرمایا جنہوں نے گستاخ نبی کو اپنے حقیقی انجام سے دوچار کیا اور پھر آپ ا کی رحلت کے بعدخلیفہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دور میں منکرینِ ختم نبوت کا قلع قمع کیا گیا اور دورِ حاضر تک مسلمانوں نے جناب نبی آخرالزماں اکی عزت و ناموس پر کوئی آنچ نہیں آنے دی ،بلکہ جب کبھی کسی نے بھی رسالتِ مآب ا کی ناموس پر ڈاکاڈالنے کی کوشش کی تو اسے جانثارانِ ختم نبوت نے ناکام بنادیا اور دنیائے کفر کو یہ پیغام دیا :
کی محمد سے وفاتونے، توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
پچھلے دنوں قادیانیوں کے دومعبدوں پرہونے والے حملوں کے بعد قادیانیوں کی حمایت اور ان کی مظلومیت کی عکاسی کا فریضہ کچھ ناعاقبت اندیش مسلمانوں نے سنبھا ل لیا ہے اورمیڈیا میں موجود بعض ایسے افراد ان کی پشت پناہی کررہے ہیں ،جس کو دیکھ کراندازہ ہوتاہے کہ قادیانیوں کوعوام کے سامنے مظلوم بناکر پیش کرکے بھولے بھالے معصوم عوام کو ورغلا کر قادیانیوں کے حق میں رائے عامہ ہموارکرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،خدشہ یہی ہے کہ ان حملوں کی آڑمیں ایک بار پھرکچھ مخصوص لابیاں مغربی ایجنڈے کی تکمیل میں سرگرداں ہوچکی ہے ،جن کا مقصد قادیانیوں کے حوالے سے موجو د آئین میں ترامیم لانا ہے۔
بعض مقتدرحلقوں کی جانب سے ان شکوک وشبہات کا بھی اظہارکیا جارہاہے کہ پہلے مرحلے میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کو ختم کیا جائے گا اور پھر اگلے مرحلے میں قادیانیوں کو کافر قرار دیے جانے کا قانون بھی ختم کردیا جائے گا ۔افسانوں کو حقیقت کا روپ دینے والے ٹی وی کے چند نام نہاد دانشور اور پرنٹ میڈیا کے بعض متعصب کالم نویسوں نے بھی اپنی مہم جوئی کا آغاز کردیا ہے ،اور اس سلسلے میں گذشتہ چند دنوں میں شائع ہونے والے کالموں سے ہمارے موقف کی تائیدہوتی ہے ۔
جن میں سے روزنامہ جنگ کے کالم نویس نذیرناجی کا کالم ”یوم تکبیر ،یوم تکفیر “ کے عنوان سے ۳۰مئی ۲۰۱۰ء کو جنگ کے ادارتی صفحے پر شائع ہوا ۔اس کالم کے بعض اقتباسات ملاحظہ ہوں ،چنانچہ نذیرناجی اپنے کالم ”یومِ تکبیر ،یومِ تکفیر“میں لکھتے ہیں کہ :
”قائداعظم نے پاکستان حاصل کرنے کے بعد ساری قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو،آج کے بعد آپ سب پاکستانی ہیں اور سب کے حقوق برابر ہیں ۔اس بنیادی نکتے پر قوموں کے وجود اور بقاء کا انحصار ہوتاہے۔مگر ہم نے اسے روزِ اول سے ہی فراموش کردیا،اورپاکستانی شہریت کے حقو ق سب سے پہلے جن بدنصیبوں سے چھیننے کی ابتدا ہوئی ،وہ احمدی ہی تھے۔ان کے خلاف چلائی گئی تحریک کا نعرہ بظاہر ختمِ نبوت تھا لیکن اصل مقاصد کچھ اور تھے۔میری عمر اس وقت سولہ سال تھی ۔وہی عمر جو۲۸مئی کو پکڑے جانے والے دہشت گرد کی ہے ۔میں نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ،گرفتارہوا۔جھنگ سے لائیلپور اور لائیلپور سے لاہور کیمپ جیل میں رکھا گیا اور تین ماہ کی نظربندی مکمل ہونے پر رہائی ملی۔تب تحریک کا زور ٹوٹ چکاتھا ۔ہوش سنبھالا تو پتہ چلا یہ تحریک درحقیقت کشمکش اقتدا رکا حصہ تھی۔ اورپنجاب کی سیاسی قیادت نے مرکزی حکومت کو ہٹانے کے لیے اس نعرے کا استعمال کیا ۔ “
آگے چل کر جناب نذیر ناجی لکھتے ہیں :
”بھٹو صاحب کے دور میں یہ تحریک ایک بارپھر سیاسی مقاصد کے لیے چلائی گئی ۔اس وقت مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنے والے گروہ زیادہ طاقتور ہوچکے تھے،بھٹوصاحب ان کا مقابلہ نہ کرسکے اور آئین میں ترمیم کرکے احمدیوں کواقلیت قرار دے دیا گیا۔“
جناب نذیر ناجی کا یہ کالم اگر قادیانی گروہ سے اظہار ہمدردی کی بنیاد پر مبنی ہوتاتو تشویش کی بات نہ ہوتی اور ہماراحسن ظن آپ علیہ الصلوة والسلام کے فرمان ”ظنواالموٴمنین خیراً“(مومنوں سے اچھا گمان رکھو)کے مطابق یہی ہے کہ نذیر ناجی صاحب بھی قادیانی گروہ کے مکروفریب سے بخوبی واقف ہوں گے، لیکن بظاہرموصوف کے کالم سے یہ تاثر ملتا ہے کہ معاذاللہ! مسلمانوں نے اپنے نبی کی ناموسِ رسالت کا دفاع آج تک صرف اپنے سیاسی مقاصدکے لیے ہی کیا ہے ۔
اگر موصوف کی یہ بات تسلیم کرلی جائے تو قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دیجانے والی قومی اسمبلی کے وہ تمام اراکین جنہوں نے اس بل کی حمایت میں ووٹ دیاتھا ، ان کی حیثیت مشکوک ہوجائے گی ،اور ہمارے خیال کے مطابق مسلمانوں کی اتنی کثیر تعداد آقائے نامدار اکی ناموس کو دنیا کے حقیر سے فوائد کے لیے استعمال نہیں کرسکتی،مزید برآں موصوف کے علم میں یہ بات بھی ہوگی کہ قادیانی جماعت کے اس گروہ کا تعاقب ہندوستان کے ان جید اورنامور علماء کرام نے بھی کیا جن کے پیش نظر کوئی سیاسی مقاصد نہ تھے اور نہ ہی ان علماء نے برصغیر ہند میں کوئی سیاسی عہدہ حاصل کیا ،موصوف کے علم میں یہ بات بھی بخوبی ہوگی کہ پاکستان کی تحریکِ ختم نبوت کے تینوں مراحل میں ایسے علماء کی کثیر تعدا دموجود تھی جو باوجود مختلف مسالک سے تعلق رکھنے کے اس مسئلے پر مجتمع ہوئے اور عوام الناس کے سامنے قادیانیوں کے مکروفریب کو بے نقاب کیا اور دلیل وبرہان کے ساتھ اس فرقے کا تعاقب کیا ،آخرکیا اس تحریک میں حصہ لینے والے تمام علماء نے بعد میں سیاسی عہدے حاصل کیے ؟آگے چل کر نذیر ناجی صاحب لکھتے ہیں کہ :
”چندروز پہلے سے انٹر نیٹ پر گستاخانہ خاکوں کے خلاف زبردست احتجاجی مہم چل رہی تھی ۔جب ناموسِ رسالت اپرمسلمانوں کے جذبات بے قابو ہونے کے امکانات ہوں تو پاکستان کی ہر انتظامیہ سمجھ لیتی ہے کہ ان بھڑکے ہوئے جذبات کا رخ احمدیوں کی طرف آسانی سے موڑا جاسکتا ہے ۔“
یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ موصوف کا یہ خیال آخر کس مفروضہ پر مبنی ہے ،حالانکہ اس سے قبل بھی گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے موقع پربالخصوص پاکستان اور دنیا بھر کے بیسیوں ممالک میں احتجاج ہوئے، لیکن ان تمام احتجاجوں کے باوجود کسی بھی اخبار میں یہ خبر شائع نہیں ہوئی کہ مسلمانوں نے بلاوجہ کسی بھی ایک قادیانی فرد کے ساتھ زیادتی کی ہو یا اس کی املاک کو نقصان پہنچایا ہو،باقی رہی انتظامیہ کی بات تو اس سلسلے میں روزنامہ امت میں ان قادیانیوں کے حوالہ سے شائع ہونے والی ایک رپورٹ ملاحظہ کی جاسکتی ہے ،جو بروز اتوارموٴرخہ۳۰مئی۲۰۱۰ء کو شائع ہوئی ، اس رپورٹ میں جہاں بہت سارے حقائق کو طشت ازبام کیا گیا،وہیں اس گروہ کے متعلق بعض ایسے چشم کشاانکشافات اور سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کے جوابات تاحال دستیاب نہیں ہوسکے ،چنانچہ اس رپورٹ کے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں :
”سرکاری ذرائع کے مطابق قادیانی جماعت نے مقامی انتظامیہ کو نہ صرف یہ کہ آج تک شہر میں اپنے مراکز کی تعداداورمحل وقوع کے بارے میں آگاہ رکھنا ضروری نہیں سمجھا ہے بلکہ اپنے اہم اورحساس ترین مراکز کے بارے میں اب تک کوئی تفصیل فراہم نہیں کی ہے ۔سیکورٹی ذرائع کاکہنا ہے کہ قادیانیوں کے خفیہ مراکزکی وجہ سے ہی سرکاری اداروں کو مشکلات کا سامنا ہے ،کیوں کہ وہ ان کی حفاظت سے قاصر ہیں ۔“
امت میں شائع ہونے والی اس رپورٹ میں ایک سابق صوبائی مشیر مذہبی امور کے حوالہ سے یہ کہا ہے کہ :
”صوبائی حکومت کے ایک سابق مشیر مذہبی امور نے ”امت “ کو بتایا کہ یہ بات ان کے ذاتی تجربے کی ہے کہ قادیانی جماعت صوبائی حکومت یا قانون نافذ کرنے والے اداروں سے اس طرح تعاون نہیں کرتی جس طرح دیگر مذہبی اقلیتیں کرتی ہیں ۔“ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ لاہور میں قادیانیوں کے چالیس سے زائد مراکز قائم ہیں ،پولیس یا حکومت کے پاس ان کے بارے میں کوئی ڈیٹا موجود نہیں اور قادیانی جماعت بھی اس سلسلے میں تعاون کرنے پر تیار نہیں،اور نہ ہی حکام کو وہ سی سی ٹی وی فوٹیج دی جارہی ہے جس کے ذریعے سے دہشت گردوں کو پکڑا جاسکے ،حالانکہ اگر یہ فوٹیج متعلقہ ادارو ں کے ہاتھ بروقت آجاتی تو تمام ترحملہ آوروں کی پہچان ممکن ہوسکتی تھی اور تحقیقات کے حوالے سے جلد سے جلد مثبت پیش رفت ہوسکتی تھی،آخرکیا وجہ ہے کہ قادیانی جماعت متعلقہ حکام کے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں ؟ یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ قادیانی جماعت اپنے مراکز کے بارے میں اس قدر حسا س کیوں ہے ؟ آخر کس وجہ سے ان مراکزتک متعلقہ حکام کی رسائی ممکن نہیں ہے؟
بالفرض جناب نذیر ناجی صاحب کے ان تمام مفروضوں کو صحیح تسلیم کربھی لیاجائے تو موصوف کے ماضی کے کالموں سے واقفیت رکھنے والے کسی بھی صاحبِ بصیر ت شخص کے لیے یہ سمجھنا اور فیصلہ کرنا دشوار نہیں ہو گا کہ موصوف کا قلم اورخیالات زمانے کی گردش اورمناصب کی تبدیلی پر اپنا زاویہ بدلتے رہتے ہیں ،پڑھنے والے کو یہ نظرآتا ہے کہ ان کاقلم بادبانی کشتی کی طرح مفادات اوراقتدار کی طرف سے چلتی ہواوٴں کے مطابق اپنا رخ اور اپنامستقر طے کرتاہے ،چنانچہ کل تک موصوف کا قلم جس کا مدح سرا ہوتاہے ،آج وہی قلم اس کی خوشہ چینیوں میں لگا ہواہے ، لہٰذا ہم اتنا ہی کہیں گے کہ :
آپ خود اپنی اداوٴں پہ ذرا غور کیجئے
ہم نے عرض کیا تو شکایت ہوگی
آخر میں ہم جناب نذیر ناجی صاحب سے اتنا ضرور عرض کرنا چاہیں گے کہ خدارا! اگر آپ حق کے لیے قلم نہیں اٹھا سکتے ،اسلام اور اہل اسلام کے لیے کچھ نہیں کرسکتے ،اگر آپ مغرب کے ناراض ہونے کا خطرہ مول نہیں لے سکتے تو کم سے کم اپنے قلم اور دوات کو اسلام ،اہل اسلام اور مصلحین امت کے خلاف استعمال نہ کیجئے ، وہ علماء جنہوں نے دین کی خدمت اور اس کی آبیاری ہمیشہ اپنے پاک و مطہر خون سے کی ہے ،ان پر مفادات کا جھوٹا اور بے بنیاد الزام لگاکر اپنے نامہٴ اعمال کو سیاہ نہ کریں ، کیوں کہ یہاں جو کچھ کہا اورلکھاجائے گا،روزمحشر اس کی جوابدہی بھی ہم پر ہوگی ،اورپھر مخبر صادق ا کی یہ حدیث بھی ذہن میں رکھنی چاہئے کہ :”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ“یعنی حقیقی مسلمان وہی ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے۔
اس دعاکے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام مسلمانوں کی ایذارسانی سے محفوظ رکھے اور ہماری تمام ترصلاحیتیں لادین عناصر کے بجائے اسلام اور مسلمانوں کے حق میں استعمال ہوں، تاکہ روز محشر ہمیں آقائے نامدارا کے سامنے شرمندگی نہ اٹھانی پڑے ،اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , رجب المرجب:۱۴۳۱ھ - جولائی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 7

    پچھلا مضمون: دجال کا فتنہ !
Flag Counter