Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاولیٰ ۱۴۳۱ھ - مئی ۲۰۱۰ء

ہ رسالہ

4 - 12
آئے عشاق گئے وعدہٴ فردا لیکر !
آئے عشاق گئے وعدہٴ فردا لیکر


۲۴/ربیع الاول کا سورج غروب ہوچکا تھا، نگاہ تخیل نے آج چرخ نیلگوں کے ورے جو دیکھا تو سورج ڈھلنے کے بعد ہی سے دربار سجنے لگاتھا، آسمانوں پر خوشیوں کاسماں تھا، مختلف کرسیاں لگی تھیں اور اس پر مختلف اصحاب فضل وکمال براجمان تھے، ان میں مولانا محمد حبیب اللہ مختار شہید بھی تھے، مولانامفتی عبد السمیع شہید بھی، مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید بھی، مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید بھی اور مولانا مفتی جمیل خان شہید بھی تھے۔
چند کرسیاں خالی تھیں، ان پر کوئی نہیں تھا، جنہیں بزبانِ حال کسی کے آنے کا انتظار تھا، جن کے استقبال کے لئے آج یہ دربار سجا تھا، فرشتے بھی خوشی میں مست تھے، حوریں بھی آج بن سنور کر اپنے شوہروں کے استقبال کے لئے موجود تھیں اور ان کی آمد کی منتظر تھیں ، غلمان بھی اپنے آقاؤں کی آمد کے منتظر تھے، روح قبض کرنے والے فرشتے ایک دوسرے سے مسابقت کررہے تھے، کوئی کہتا ان شہیدوں کی روح میں لے کر آؤں گا، دوسرا کہتا: نہیں!ان مبارک روحوں کو میں اللہ کے دربار میں حاضر کروں گا، اسی گفتگو میں یہ چھٹے آسمان پر آتے ہیں، وہاں موجود فرشتے پوچھتے ہیں کہ ”فیما تختصمون،،؟ تم کیوں لڑرہے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ ”ہم چند شہیدوں کی ارواح لینے جارہے ہیں،، چند عشاق کی ارواح لینے جارہے ہیں، وہ شوق ِ دیدار کے لئے استفسار کرتے ہیں یہ کون ہیں؟ کیا یہ وہ ہیں جن کے بارے میں اعلان کیا گیا تھا کہ ”اللہ ان سے محبت کرتا ہے اور اللہ کا فرشتہ جبرئیل علیہ السلام بھی ان سے محبت کرتا ہے، اے فرشتو! تم بھی ان سے محبت کرو! تو جواب میں وہ کہتے ہیں کہ ہاں، ہاں یہ وہی لوگ ہیں ۔ چنانچہ وہ فرشتے بھی استقبال کے لئے تیار ہوجاتے ہیں، یہ فرشتے اسی گفتگو میں نچلے آسمانوں پر آتے ہیں، یہی سوال وجواب ہوتے ہیں۔ یہ فرشتے اسی گفتگو میں نچلے آسمانوں پر آتے ہیں، یہی سوال وجواب ہوتے ہیں اور ہر فرشتہ استقبال کے لئے تیار ہوتا ہے، ہرایک آمد کا منتظر ہوتا ہے، ہر ایک دیدار کا مشتاق ہوتا ہے سارے آسمانوں پر آج خوشیاں منائی جاتیں ہیں۔
آسمانوں سے نیچے اور زمین کے اوپر معاملہ اس کے برعکس تھا ،اس دن زمین پہلے خون پھر اشکوں سے نمناک ہوئی، زمین بھی افسردہ ہوئی، زمین کے جس خطے کو اس شخص نے اپنے آنسؤوں سے ترکیا تھا، آج وہ شخص داغ مفارقت دے گیا، اس دن ہر آنکھ اشک بار تھی، ہردل غمگین تھا، کسی کو کیاخبر تھی کہ آج ان کا رہبر ان سے جدا ہوجائے گا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ آج ان کا پیر ومرشد ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہوجائے گا، کسی کو کیا معلوم تھا کہ آج علماء وطلباء یتیم ہوجائیں گے، کون جانتا تھا کہ آج ایک ایسا حادثہ پیش آئے گا کہ جو ان کو ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مانند بکھیر دے گا، جس شخص نے مسلمانوں کو اعداء اسلام ومسلمین کے اصلی چہرہ سے آگاہ کیا تھا، جس نے تحفظ ختم نبوت کے لئے اپنی زندگی کو وقف کیا تھا، جس نے اپنے شیخ کے مشن کو جاری رکھا، جس نے نوجوان علماء کو حق گوئی کا سبق دیا تھا، جس نے مردہ دلوں کو اپنے نور ایمانی اور نور تقویٰ سے زندہ کیا تھا، جس نے لاکھوں دلوں میں عشق الٰہی کی آگ لگائی تھی ، جس نے غفلت میں ڈوبے لوگوں کو بیدار کیا تھا، وہ عظیم انسان یک دم ہم سے بچھڑ جائے گا، کسی نے سوچا بھی نہ تھا، یہ کون تھا جس کے لئے آسمانوں کو سجایا گیا ،یہ کون تھا جس کے آنے پر فرشتوں نے خوشیاں منائیں تھیں ،یہ کون تھا جس کی جدائی پر زمین واہل زمین اشکبار تھے، یہ کون تھا جس نے نوجوانوں کو حق پر ڈٹ جانے کا سبق دیا تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے دشمنوں کو ناکوں چنے چبوائے، جس کو دنیا مولانا مفتی سعید احمد جلالپوری شہید کے نام سے جاتنی تھی، نام کا سعید آج حقیقی سعید بن گیا، جس نے زندگی گزاری تو سعید ہوکر اور آج زندگی سے ناطہ توڑا تو سعید ہوکر، جب دنیا میں رہا تو سعید تھا، جب دنیا کو خیر باد کہا، تب بھی سعید تھا، مفتی صاحب کی میت جب علامہ بنوری ٹاؤن لائی گئی تو بزبان حال یہ شعر پڑھ رہے تھے۔
تم نعش کو میری غسل نہ دو بس خون میں لتھڑی رہنے دو
کل خون شہادت میں لتھڑا یہ جسم انہیں دکھلائیں گے
مفتی صاحب شہید ایک ایسی شخصیت کے حامل تھے جو اپنی ذات میں انجمن تھی، ایک طرف وہ عالمی مجلس ختم نبوت کے امیر ومجاہد تھے تو دوسری طرف سینکڑوں لوگوں کے مربی ورہبر ومرشد تھے، ایک طرف ماہنامہ بینات کے مدیر تھے تو دوسری طرف محراب ومنبر کے جلوہ نشین تھے، ان کی طبیعت مزاج شرع کے مطابق تھی ، خلاف شرع باتوں کو بالکل برداشت نہ کرتے تھے، دین کے معاملے میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہ کرتے، شفقت ومحبت اتنی کہ جو ملتا وہ گرویدہ بن جاتا۔ جن حضرات نے حضرت لدھیانوی شہید کو دیکھا ہے، ان کی مجالس میں شرکت کی ہے، وہ خوب جانتے ہیں کہ مفتی صاحب شہید اپنے شیخ کا پر تو تھے اور مفتی صاحب حضرت لدھیانوی شہید کے علمی وروحانی صحیح جانشین تھے۔ آہ ! اب ہم کہاں سے ایسی دیدہ ودر شخصیت کو پائیں گے:
آئے عشاق گئے وعدہٴ فردا لے کر
انہیں اب ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
مفتی صاحب کی زندگی پر اگر لکھا جائے تو طویل وقت اور کثیر اوراق کی ضرورت پڑے گی، ایسی ہستیاں جو اللہ اور رسول اللہ ا کے عشق میں ڈوبی ہوئی ہوں، آج کے اس پُر فتن دور میں بہت کم نظر آتی ہیں۔
جان کر منجملہ خاصان مئے خانہ مجھے
مدتوں رویا کریں گے جام پیمانہ مجھے
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے جہاں کو ویران کرگیا
اللہ تعالیٰ مفتی صاحب اور ان کے رفقاء شہادت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور ہم کو ان کے مشن کو جاری رکھنے، اپنے اکابرین کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم کو بھی مفتی صاحب کی طرح اس شعر کا مصداق بنادے، آمین
جان دے دی ہم نے ان کے نام پر
عشق نے سوچا نہ کچھ انجام پر
اشاعت ۲۰۱۰ ماہنامہ بینات , جمادی الاولیٰ:۱۴۳۱ھ - مئی: ۲۰۱۰ء, جلد 73, شمارہ 5

    پچھلا مضمون: رشوت ایک سنگین جرم ہے !
Flag Counter