Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی شوال المکرم ۱۴۳۰ھ - اکتوبر ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

8 - 12
آیات متشابہات کے متعلق بحث !
آیات متشابہات کے متعلق بحث

اعجاز کے متعلق اس بحث کے اختتام پر مناسب معلوم ہوتا ہے کہ امام جلال الدین سیوطی کی ”الاتقان،، النوع الثالث والستین (۶۳ بحث) میں ذکر کردہ مباحث کا خلاصہ پیش کردیا جائے ،اس نوع میں آیات متشابہات کے متعلق بحث کی گئی ہے ،یعنی وہ آیات جن میں ایسے کلمات پائے جاتے ہوں جن کے معانی ایک جیسے ہوں اور الفاظ مختلف ہوں ،امام سیوطی فرماتے ہیں :
”اس موضوع کے متعلق متقدمین نے علیحدہ تصانیف تحریر فرمائی ہیں ،جن میں سب سے اول میرے خیال میں امام کسائی ہیں ،پھر اس فن کو منظوم امام سخاوی نے بیان فرمایا ،اس کی شرح امام کرمانی نے اپنی مستقل کتاب ”البرہان فی متشابہ القرآن“ میں فرمائی ،اس سے بہتر شرح ابو عبد اللہ رازی نے ”درة التنزیل وعزة التاویل“ میں فرمائی ہے اور پھر اس سے بڑھ کر شرح ابو جعفر بن زبیر کی ”ملاک التاویل‘ہے (مجھے اس کتاب کے متعلق معلوم نہیں ہوسکا ہے) قاضی بدر الدین بن حماعة نے بھی اس فن کے متعلق باقاعدہ ایک کتاب تالیف فرمائی ہے، جس کا نام موصوف نے ”کشف المعانی عن متشابہ المثانی“ تجویز فرمایا ہے ،
کتاب ”اسرار التنزیل“ جو کہ قطف الازھا ر فی کشف الاسرا ر کے نام سے معروف ہے،اس کتاب میں اس کی بہت سی مقدار ہے ،اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ قرآن کریم میں ذکر کردہ قصص جو مختلف صورتوں میں بیان کئے گئے ہیں اور ایک ہی قصہ کے متعلق جوعلیحدہ علیحدہ طرز اپنائے گئے ہیں،اس میں کیا معارف ودقائق مضمر ہیں ۔
کبھی کبھار قصہ کا ایک جز ایک آیت میں مقدم اور دوسری آیت میں وہی جز مؤخر بیان ہوتا ہے، جیساکہ سورئہ بقرہ میں باری جل شانہ کا فرمان ہے”وادخلواالباب سجداً وقولوا حطة اور سورہ ٴ اعراف میں یوں فرمایا:”وقولوا حطة وادخلوا الباب سجداً“اسی طرح سورہٴ بقرہ میں ہے ”وما اہل بہ لغیر الله“ اور دیگر پورے قرآن میں ”وما اہل لغیر اللّٰہ بہ“ ہے ،
اسی طرح بعض مواضع میں ایک آیت زیادتی حروف کے ساتھ ہے ،اور اسی مضمون کی حامل آیت دوسری جگہ بغیر زیادتی واقع ہوئی ہے ،جیساکہ سورہٴ بقرہ میں ہے: ’سواء علیہم اانذرتھم اور سورہٴ یٰسین میں وسواء علیہم اانذرتہم،اسی طرح سورئہ بقرہ میں ہے” ویکون الدین للّٰہ“ اور سورئہ انفال میں ہے کلہ للّٰہ
ایک جگہ ایک لفظ معرفہ ہے اور دوسری جگہ نکرہ ہے یا ایک جگہ مفرد اور دوسری جگہ جمع ہے یا ایک جگہ ایک حرف کے ساتھ ہے اور دوسری جگہ دوسرے حرف کے ساتھ ہے یا ایک جگہ مدغم ذکر کیا گیا ہے اور دوسری جگہ بلاادغام۔
اس نوع (۶۳) کا تعلق دراصل نوع المناسبة سے ہے لیکن وضاحت کی غرض سے اس نوع کو علیحدہ ذکر کیا جارہا ہے ،ذیل میں اس نوع کی چند مثالیں توجیہات کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں ملاحظہ ہو:
سورہ بقرہ میں باری تعالیٰ فرماتے ہیں: ”ہدََی للمتقین“اور سورہ لقمان میں فرمایا: ”ہدََی ورحمةََ للمحسنین“چونکہ سورہ بقرہ میں مجموعہ ایمان بیان ہوا ،اس لئے وہاں متقین کاذ کر مناسب تھا،اور یہاں رحمت کا ذکر فرمایا گیا ،اس لئے یہاں محسنین کا ذکر مناسب تھا ۔
اسی طرح سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا: ”وقلنا یاآدم اسکن انت وزوجک الجنة وکلا“ اور سورہ اعراف میں فرمایا” فکلا“ یعنی فاء کے ساتھ ،اس کی توجیہ میں یوں کہا گیا ہے کہ سورہ بقرہ میں سکنیٰ سے مراد سکنی اقامت اور سورہ اعراف میں مراد اتخاذ مسکن ہے ،چنانچہ جب باری تعالیٰ شانہ کی طرف قول کی نسبت تھی توسورہ بقرہ میں صراحت کے ساتھ ہوئی اور فرمایا گیا ”وقلنا یاآدم“تو اکرام کی زیادتی کے لئے مناسب تھا کہ ”واو“لایا جائے جو سکنی اور مأکل دونوں کے جمع پر دلالت کرے، اسی بناء پر اس آیت میں مزید اکرام کے لئے رغدََا اور حیث شئتما بھی ہے ،تاکہ کلی عموم پر دلالت واضح ہو، جبکہ سورہ اعراف میں فرمایا گیا ”ویا آدم“ یعنی صراحتاََ قول کی نسبت اللہ جل شانہ کی طرف نہیں فرمائی گئی ، چنانچہ یہاں ”فا“ لاکر اکل کے سکنی پر جس کا حکم دیاگیا ہے مرتب ہو نے کا بیان ہو، اس لئے کہ کھانا، جائے اقامت کی تعیین کے بعد بھی ہوا کرتا ہے ،اسی طرح یہاں من حیث شئتما فرمایا، جوحیث شئتما کی مانند نہیں ہے ۔
باری تعالیٰ کا ارشاد ہے”تنفعہا شفاعة“آیت کا یہ ٹکڑا کچھ رد وبدل کے ساتھ اسی سورہ بقرہ میں دوبارہ آیا ہے، یہ رد وبدل یوں ہوا ہے کہ” العدل “ایک آیت میں مقدم اور دوسری آیت میں مؤخر آیا ہے اور ”شفاعة“کی طرف ایک مرتبہ قبول کی نسبت کی گئی ہے اور دوسری مرتبہ نفع کی ،اس کے متعلق حکمت توجیہ یوں کی گئی ہے کہ پہلی آیت میں ”منہا“کی ضمیر سے مراد شفاعت کرنے والا نفس ہے،جبکہ دوسری آیت میں مراد مجرم نفس ہے ،چنانچہ پہلی آیت کی تفسیر وتوضیح یوں ہے کہ شفاعت کرنے والے نفس جو غیر کی طرف سے بدلہ دینے کے لئے پیش ہوا ہے، اس سے شفاعت قبول نہ کی جائے گی اور نہ ہی اس نفس شافعہ سے کوئی فدیہ اور تاوان قبول کیا جائے گا ۔اور اس آیت میں شفاعت کی تقدیم کی وجہ بھی یہی ہے کہ شفاعت کرنے والا شفاعت کو فدیہ وتاوان ادا کرنے پر مقدم کرتا ہے ،دوسری آیت کی تفسیر یوں بیان کی گئی ہے کہ مجرم نفس سے اس کے جرم کے بدلہ میں نہ فدیہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کی طرف اس کے حق میں سفارش کرنے والے کی سفارش ہی قبول ہوگی،اور آیت میں العدل کی تقدیم اس لئے ہے کہ شفاعت کی ضرورت تاوان کے قبول نہ کر نے کی صورت میں پیش آتی ہے ،اس کی تائید یوں بھی ہوتی ہے کہ پہلی آیت میں ”لاتقبل منہا شفاعة “فرمایا اور دوسری آیت میں” لاتنفعہا شفاعة“ فرمایا، اس لئے کہ شفاعت کی قبولیت شفاعت کرنے والے کے لئے ہوتی ہے اور شفاعت کا فائدہ جس شخص کے لئے سفارش کی جارہی ہے، اس کو پہنچتا ہے۔
باری جل جلالہ کا فرمان ہے:” واذ نجینا کم من اٰل فرعون یسومونکم سوء العذاب یذبحون “ اور سورہٴ ابراہیم میں اسی مضمون کی متعلقہ آیت میں ”ویذبحون“یعنی واؤ کی زیادتی کے ساتھ فرمایا، توجیہ اس کی یوں بیان کی گئی ہے کہ پہلی آیت خدا تعالیٰ کا خطاب ہے، جس میں ان پرپیش آمدہ مصائب ومشکلات کا شمار اکراماً نہ فرمایا اور دوسری آیت حضرت موسی علیہ السلام کے کلام کی حکایت ہے جس میں ان مصائب کی گنتی فرمائی گئی ہے اور سورہ اعراف میں جو ”وتقتلون“ فرمایا ہے تو الفاظ کے اس رد وبدل کو ہی علم بلاغت میں اسلوب تفنن کہا جاتا ہے جو بلیغ کلام کا ایک نکتہ اور لطیفہ ہے۔
اللہ جل جلالہ ارشاد فرماتے ہیں: ”واذقلنا ادخلوا ہذہ القریة“ اور سورہ اعراف میں یہی مضمون چند الفاظ کے اختلاف کے ساتھ مذکور ہوا ہے ،یہاں پر پائے جانے والے لطیفے کی تشریح یہ ہے کہ سورہٴ بقرہ والی آیت ”منعم علیہم“ کے متعلق تذکرہ کے ذیل میں واقع ہوئی ہے ،سورہٴ بقرہ میں ارشاد گرامی ہے: ”یا بنی اسرائیل اذکروا نعمتی …الأیة چنانچہ اس مناسبت سے اس آیت ”واذ قلنا ادخلوا،، میں قول کی اللہ جل شانہ کی طرف نسبت کرنا مناسب ہے، اور اسی طرح ”رغدََا“ کا لفظ بھی بجا ہے، اس لئے کہ اس سے منعم بہ کے کمال کا علم ہوتا ہے ،اسی طرح ”وادخلواالباب سجداً“کی تقدیم اور ”خطایاکم“ کا صیغہ (جو جمع کثرت کے لئے موضوع ہے، کا ذکر )بھی مناسب ہے ،اسی طرح ”وسنزید،، میں ”واو“ کی زیادتی بھی بجا ہے، اس لئے کہ واؤ ما قبل وما بعد میں جمعیت پر دلالت کرتا ہے اور اسی مذکورہ لطیفہ کی بناء پر ”فکلوا،، میں فاء بھی موقع ومحل میں ہے، اس لئے کہ ”اکل“ دخول قریة پر مرتب ہے ،جبکہ سورہ اعراف میں اس قضیے کا سیاق ان کو توبیخ وتشنیع کرنا ہے ،باری جل شانہ کا ارشاد ہے: ”اجعل لنا الٰہََا کما لہم آلہة …الأیةپھر ان بنی اسرائیل کے ایک اور طغیان گاؤ کی پوجا پاٹ کرنے کا بیان بھی ہوا ہے ،اس بناء پر مناسب تھا کہ صیغہ قول کو مجہول ذکر کیا جائے ، چنانچہ ارشاد ہوا: ”واذ قیل لہم“ اسی طرح ”رغدََا“ کا ترک مناسب مقام ہوا ،اور چونکہ سکنی کے ساتھ اکل بہرحال جمع ہوگا ،اس لئے فرمایا ”وکلوا“اسی طرح گناہوں کی بخشش کا ذکر اور ”سنزید“ کا بغیر ”واؤ“ ذکر کرنا برمحل ہوا ،اسی طرح جب سورہٴ اعراف میں بعض لوگوں کے ہدایت یافتہ ہونے کا یوں بیان کیا گیا : ”ومن قوم موسٰی امة یہدون بالحق“ تو مناسب یہی تھا کہ ظالمین کو بھی بصورت تبعیض بیان کیا جاتا، چنانچہ ارشاد ہوا ”الذین ظلموا منہم“اور چونکہ سورہ بقرہ میں اس طرح بعض ہدایت یافتگان کا یوں بیان نہ ہوا تھا ،اس لئے وہاں ظالمین کے متعلق بھی بلاتبعیض یوں فرمایا گیا : ”فبدل الذین ظلموا قولاً غیر الذی …الأیة اور سورہ ٴ بقرہ میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ہے کہ جنہوں نے ظلم نہ کیا تھا وہ عذاب وبلا سے سلامت رہے ، اس لئے کہ نزول عذاب کو صرف ظالمین کے ساتھ خاص فرمایا گیا ہے ،جبکہ ”ارسال“ شدت وقوع کے معنی میں ”انتقال“ سے زیادہ مبالغہ وتاکید کا حامل ہے ،اس لئے سورہ بقرہ کے مضمون بیان انعامات کے مناسب ذرا خفیف تعبیر یعنی انتقال بھی مناسب تھی ،لفظ فسق سے ظلم لازم نہیں آتا ہے (اس لئے کہ لفظ فسق خاص اور لفظ ظلم عام ہے) جبکہ لفظ ظلم سے فسق لازم آتا ہے ،اس طرح ہر تعبیر کا اپنے سیاق مضمون کے مناسب اور لائق ہونا واضح ہوا ۔
اسی طرح سورہ بقرہ میں فرمایا ”انفجرت“ اور سورہ اعراف میں فرمایا: ”انبجست“ اس لئے کہ ”انفجار“سے پانی کی کثرت میں مبالغہ بیان کیا جاتا ہے، چنانچہ نعمتوں کے بیان کے سلسلے میں یہ لفظ ہی موقع کے مناسب ہے۔
سورہ ٴ بقرہ میں اللہ جل شانہ کا ارشاد پاک ہے: ”وقالوا لن تمسنا النار الا ایامََا معدودة“ اور سورہ ٴ اٰل عمران میں فرمایا: ”معدودات“ ،امام ابن جماعة اس کی توجیہ کے متعلق فرماتے ہیں ،اس قول کے قائل یہودیوں کے دو فرقے تھے ، ایک کا عقیدہ تھا کہ دنیا کے ایام کے بقدر سات دن جہنم کا عذاب بھگتنا پڑے گا ،اور دوسرے فرقہ کا عقیدہ یہ تھا کہ ہم اپنے آباء واجداد کے چالیس دن گاؤ کی پرستش کرنے کی وجہ سے چالیس دن تک عذاب دیئے جائیں گے ،اب سورہ بقرہ کی آیت میں دوسرے فرقے کے عقیدہ کے مطابق جمع کثرت سے تعبیر کی گئی ہے اور سورہ ٴ اٰل عمران میں پہلے فرقہ کے عقیدہ کے مطابق جمع قلت سے تعبیر کی گئی ہے ،امام ابو عبد اللہ رازی اس کی توجیہ میں فرماتے ہیں کہ یہ فرق صنعت تفنن کی بنا پر ہے۔
باری تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ”ان ہدَی اللّٰہ ہو الہدٰی “اور سورہ اٰل عمران میں فرمان اقدس ہے:” ان الہدٰی ہدَی اللّٰہ“اس لئے کہ سورہ بقرہ میں ہدایت سے مراد تحویل قبلہ کا بیان ہے اور سورہ اٰل عمران میں ہدایت سے مراد دین اسلام ہے، اس لئے کہ سورہٴ اٰل عمران میں اس آیت کے ما قبل میں باری عز اسمہ کا یہ فرمان ہے ”لمن تبع دینکم“ آیت کا مقصد ومطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول دین، دین اسلام ہی ہے۔
باری تعالیٰ کا فرمان اقدس ہے:” رب اجعل ہذا بلداً اٰمناً“ اور سورہٴ ابراہیم میں فرمایا ”ہذا البلد اٰمناً“ اس لئے کہ پہلی آیت میں جو دعا ہے ،وہ مکہ کے شہر سے قبل اس وقت مانگی گئی ہے جبکہ حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کو اس بے آب وگیاہ وادی میں چھوڑ کر جارہے تھے ،تب دعا کی کہ اللہ اس شہر کو بسا دے اور دوسری آیت میں موجود دعا اس وقت کی ہے جب کہ دوبارہ مکہ تشریف لائے تھے ،اس وقت جرہم قبیلہ مکہ میں آباد ہوچکا تھا اور مکہ باقاعدہ ایک شہر کی صورت اختیار کرچکا تھا، تب حضرت ابراہیم علی نبینا علیہ الصلوٰة والسلام نے اس شہر کے لئے امن وآشتی کی دعا مانگی۔
باری عز اسمہ کا ارشاد ہے: ”قولوا اٰمنا باللّٰہ وما انزل الینا“جبکہ سورہ ٴ اٰل عمران میں فرمان اقدس یوں ہے: ”قل اٰمنا باللّٰہ وما انزل علینا“ اس لئے کہ پہلی آیت میں تمام مسلمین سے خطاب فرمایا گیا ہے ،جبکہ دوسری آیت میں صرف نبی اکرم ا سے خطاب فرما یا گیا ہے۔ پھر حرف جار”الٰی“ کے ذریعے تمام جہات سے انتہاء کا بیان کیا جاتا ہے ،اور حرف جار”علٰی“ سے جہت علو سے انتہاء کا بیان ہوتا ہے، چونکہ مسلمانوں کو قرآن کریم ہرجہت سے پہنچ جایا کرتا تھا، اس لئے ان کے متعلق ذکر کے وقت ”الی“ مناسب تھا اور حضوراپر صرف جہت علو سے پہنچتا تھا ،اس لئے وہاں ”علی“ کے ساتھ ذکر مناسب تھا ،چنانچہ ”علینا“ فرمایا گیا ،اسی لطیفے کے پیش نظر آپ اتک پہنچنے والی اشیاء کے ساتھ اکثر علی اور پوری امت تک پہنچنے والی اشیاء کے ساتھ الی مستعمل ہوا کرتاہے۔
باری جل وعلا ارشاد فرماتے ہیں: ”تلک حدود اللّٰہ فلاتقربوہا“ اور بعد والی آیت میں فرماتے ہیں ”فلاتعتدوہا“ اس لئے کہ پہلی آیت چند منہیات کے تذکرہ کے بعد آئی ہے ،لہذا مناسب تھا کہ ان منہیات کے قرب سے روکا جائے ، اور دوسری آیت چند اوامر کے تذکرہ کے بعد آئی ہے، اس دوسری آیت میں مناسب یہی تھا کہ ان حدود کے تجاوز وتعدی سے نہی وارد کی جائے ،جس کے ضمن میں یہ امر پایا جاتا ہے کہ ان حدود کے آتے ہی وقوف اختیار کیا جانا چاہئے۔
اللہ جل شانہ کا فرمان عالیشان ہے: ”نزل علیک الکتاب“ اور تورات وانجیل کے متعلق فرمایا ”وانزل التوراة والانجیل“ اس لئے کہ کتاب اللہ العظیم یعنی قرآن کریم تھوڑا تھوڑا نازل ہوا ہے، چنانچہ ”نزل“ بصیغہ ٴ تفعیل جو تکرار پر دلالت کرتا ہے، لایاگیا ،اس کے برخلاف تورات اور انجیل یک دم ویک دفعہ نازل ہوئی ہیں ،اس لئے ان کے ساتھ ”انزل“ جو یکبارگی نزول کا معنی رکھتا ہے ،ذکر فرمایا گیا ۔
خداوند کریم کا ارشاد ہے: ”لاتقتلوا اولادکم من املاق“ اور سورہٴ اسراء میں فرمایا ”خشیة املاق“ذکرکیاگیا ،اس لئے کہ اول آیت میں خطاب مفلس فقراء کو ہے ،اس کے مناسب تعبیر فرمائی گئی : ”نحن نرزقکم،،کہ ہم تم کو روزی دیں گے جس سے تمہارے فقر کا ازالہ ہوجائے گا، پھر فرمایا ”وإیاہم“ یعنی تمہاری ان اولاد کو بھی ہم رزق دیں گے ،دوسری آیت میں خطاب ان مالداروں اور صاحب وسعت افراد کو ہے جو تنگدستی کے خوف سے اولاد کو قتل کیا کرتے تھے ،آیت کا مفہوم یوں ہے کہ : ”اپنی اولاد کو تنگدستی کے ڈر سے کہ مبادا تم کو ان کے سامان عیش مہیا کرنے کی وجہ سے فقر واملاق لاحق ہوجائے” اسی مفہوم اور توجیہ کے پیش نظر اس آیت کے ساتھ ”نحن نرزقکم وایاکم“ کی تعبیر مناسب ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: ”فاستعذ باللّٰہ انہ سمیع علیم“ اور سورہ فصلت میں ارشاد فرماتے ہیں: ”انہ ہو السمیع العلیم“ ابن جماعة فرماتے ہیں کہ چونکہ سورہ اعراف کی آیت پہلے نازل ہوئی ہے اور سورہ فصلت کی بعد میں ،اس لئے سورہ فصلت میں ان صفات کو معرفہ لانا برمحل وبجا تھا،چنانچہ سورہ فصلت کی آیت کا مفہوم یوں ہوگا کہ: وہی سننے والی جاننے والی ذات جس کا تذکرہ شیطان کے وساوس کے متعلق ہدایت کے ذیل میں گذر چکا ہے ۔
باری تعالیٰ کا فرمان عالی قدر ہے ”المنافقون والمنافقات بعضہم من بعض“ مؤمنین کے حق میں یوں فرمایا کہ: ”بعضہم اولیاء بعض“اور کفار کے حق میں فرمایا ”والذین کفروا بعضہم اولیاء بعض،یہ تعبیروں کا اختلاف اس لئے ہے کہ چونکہ منافقین کی آپس میں مدد اور معونت کسی معین دین اور مقرر شریعت پر نہیں ہوتی ہے بلکہ ان میں سے بعض یہودی تھے اور بعض مشرک ،اس لئے فرمایا گیا ہے ”من بعض“ یعنی اس شک ونفاق میں یہ منافقین بعض بعض سے ہیں، جبکہ مؤمنین کی آپس میں ولایت ونصرت دین اسلام پر اور کفار کی باہمی امداد واستعانت اس کفر پر تھی جس کا وہ اعلان کیاکرتے تھے ،مؤمنین وکفار دونوں فریق اس باہمی ولایت ومدد میں ایک مجتمع امر پر تھے ،اس لئے ان کے متعلق اولیاء کے کلمہ سے تعبیر فرمائی گئی ،برخلاف منافقین کے ،جن کے متعلق باری جل وعلا کا فرمان ہے ”تحسبہم جمیعاً وقلوبہم شتی“اس لئے ان کے لئے علیحدہ طرز کی تعبیر ارشاد فرمائی گئی ۔
یہ چند امثلہ ہیں جن سے ان کے مانند مشابہ آیات میں مناسبات پر روشنی پڑتی ہے، اس باب کی بہت سی مثالیں تقدیم وتاخیر، اور فواصل وغیرہ کے متعلق فصول میں بھی گذر چکی ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , شوال المکرم:۱۴۳۰ھ - اکتوبر: ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 10

    پچھلا مضمون: عجوہ کھجور کی فضیلت !
Flag Counter