Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 9
مشاجرات صحابہ میں راہ اعتدال
مشاجرات صحابہ میں راہ اعتدال

حضرت معاویہ بن ابی سفیان  جلیل القدر صحابی ہیں‘ دیگر کبار صحابہ کرام کی طرح آپ کے فضائل ومناقب بھی بطور خاص ذخیرہٴ حدیث میں موجود ہیں‘ آپ نے اندرونی وبیرونی خلفشار کی بھرمار میں ایسی مثالی ومستحکم اسلامی سلطنت کا عملی نمونہ پیش فرمایا جس سے بعد کی اسلامی خلافتوں پر تادیر ضیأ پاشی ہوتی رہی۔
آپ کی امارت وخلافت کے اندرونی استحکام اور اغیار پر دہشت وہیبت کا اعتراف اپنے پرائے سب ہی کرتے ہیں‘ الغرض آپ کا دورخلافت آپ کی شخصیت وکردار تاریخ اسلام کا تابناک دور گزرا ہے‘ مگر فارسی مجوسیت اور سبائی پروپیگنڈے کا گرد وغبار اسلامی دنیا میں اس قدر پھیلا کہ وہ سب کچھ عام مسلمانوں کی نظروں سے اوجھل ہوکر رہ گیا۔
چنانچہ حضرت معاویہ کی پوری اسلامی زندگی اور تاریخی قربانیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ایک واقعہ کو آپ کے تعارف وکردار کا مدار وانحصار بنادیا گیا‘ جسے ایک جلیل القدر صحابی کے ساتھ نا انصافی اور زیادتی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا‘یہ ایک ایسی زیادتی ہے کہ اگر حضرت معاویہ کی جگہ بعد کا کوئی مسلمان حکمران ہوتا تو بھی ناقابل فراموش تھی۔
بلاشبہ اہل سنت والجماعت کے نزدیک قضیہٴ مذکورہ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ حق پر اور حضرت معاویہ  اجتہادی غلطی پر تھے۔
نیز حضرت علی  اپنے مذکورہ مؤقف کے علاوہ ذاتی فضائل ومناقب کے اعتبار سے بھی حضرت معاویہ پر اسی افضلیت وبرتری سے باوصف تھے جو فضیلت وبرتری حضرات شیخین کو حضرات ختنین پر حاصل تھی۔
مذکورہ قضیہ میں حضرت علی اور حضرت معاویہکے باہمی جھگڑے اور مشاجرت کی وہی حیثیت ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہما السلام کے باہمی جھگڑے اور مشاجرت کی تھی‘ ان دونوں بھائیوں کا واقعہ قرآن کریم میں بھی مذکور ہے ‘ قرآن کریم نے دونوں کے واقعہ میں فیصلہ نہیں فرمایا‘ بلکہ بنی اسرائیل میں بھی کوئی ایسے گروہ سامنے نہیں آئے جو ان دونوں بھائیوں کے درمیان حق وحق تلاش کرنے کے لئے عدالت لگاکر بیٹھے ہوں اور اپنی رائے کے مخالف کو طعن وتشنیع کا نشانہ بنایا ہو‘۔
مگر افسوس ہے کہ امت محمدیہ اکی طرف نسبت کرنے والے بعض طبقے یہودیوں کے اس عمل کا شکار ہوگئے جس عمل کو یہودیت کی پوری تاریخ میں توجہ نہیں مل سکی تھی‘ امت محمدیہ میں سے جس گروہ نے سب سے پہلے ہلاکت کی اس وادی کو آباد کرنے کا راستہ اپنایا وہ درحقیقت ابن سبا یہودی کا سازشی جتھا تھا جس نے دین مسیحی کو مسخ کرنے والے پولس نامی یہودی کے طرز پر دین اسلام کی بیخ کنی کا مشن سنبھالا تھا‘ سند چونکہ دین اسلام کا خاصہ ہے اور اس سند کی پہلی اینٹ صحابہ کرام ہیں‘جسے اپنی جگہ سے ہلائے بغیر ابن سبا اور فارسی مجوسیت کی سازش کے پاؤں جمنا مشکل تھا‘ اس لئے اس نے صحابہ کرام  کو مطعون کرنا اور ان کی عیب جوئی کا سلسلہ شروع کیا تاکہ امت کا صحابہ سے اعتماد اٹھ جائے ۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفان  کے دور خلافت میں پیش آنے والے واقعات سے لے کر حضرت معاویہ بن ابی سفیان  تک طعن وتشنیع کا سارا طوفان اسی سلسلہٴ سیئہ کی کڑیاں ہیں۔
بالخصوص حضرت معاویہ کے ساتھ صریح ناانصافی بلکہ بغض وحسد کا عالم ہے کہ اس وقت امت کا بہت بڑاطبقہ آپ کا مقام ومرتبہ معلوم کرتے ہوئے تعفن زدہ تاریخی روایتوں پر تو انحصار کرتا ہے مگر دربار نبوت سے صادر شدہ آپ کے فضائل ومناقب اور آپ کی لازوال دینی خدمات اور بے مثال انتظامی کمالات سے یہ طبقہ آنکھیں موندھے ہوئے ہے۔
دوسری طرف ایک طبقہ ایسا بھی پایا جاتا ہے جس نے حضرت معاویہ  کے دفاع وحمایت کے عنوان سے وہی کارستانی دکھائی جس کی پاداش میں آپ کے مخالفین ومعاندین کو ضلالت وگمراہی کے طوق پہنائے گئے تھے‘ یعنی جس طرح حضرت معاویہ کی توہین وتنقیص ‘ ضلالت ومضلت کا سبب بنی تھی بعینہ اسی طرح یہاں بھی ہوا اور اس طبقہ نے خوارج وروافض کے بعد ”ناصبیت“ کی نئی شناخت قائم کرلی اور اپنی مذہبیت کا معیار یہ بنالیا کہ روافض نے حضرت معاویہ  کو جس قدر نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے‘ اس کا تدارک اور بدلہ یہی ہے کہ ان کے مقابلے میں العیاذ باللہ! حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور اٰل بیت علیہم الرضوان کو مطعون کیا جائے اور حتی الوسع نیچا دکھایاجائے۔
اگر ناصبیت کی یہ روش شرعاً درست ہو اور اسلام کے مطابق قرار پاتی ہو تو پھر روافض وخوارج کو اسلام سے برگشتہ کہنے کی کوئی وجہ نہیں رہے گی‘ مگر تمام فقہاء ومحدثین کے نزدیک ہر دو انتہائیں‘دین اسلام سے متصادم ہیں‘ فقہاء ومحدثین کے مؤقف کی واضح بنیادنبی اکرم اکا وہ ارشاد گرامی ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ:
” حضرت علی  کی وجہ سے دو گروہ ضلالت وہلاکت کا شکار ہوں گے: ایک آپ سے بغض ‘ عناد وعداوت رکھنے والا اور دوسرا آپ کی ذات ومحبت میں غلو کرتے ہوئے حد سے گزر جانے والا۔“
جو فرد اور طبقہ اخلاص کے ساتھ دین اسلام کی طرف نسبت کرتاہو‘ اس نسبت کی صداقت کا معیار یہ ہے کہ وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اور حضرت معاویہ  کے بارے میں رائے قائم کرتے ہوئے حضور اکے ارشاد بالا کو اپنے سامنے رکھے اور اپنے رب کو اس پرگواہ بنالے۔
یہاں پر فتنہ آلود ذہنیت پھر سوال کرسکتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ مخاصمت ومخالفت کا سلسلہ تو جنگ جمل ہی سے شروع ہوچکا تھا‘ کیا ان دونوں جنگوں میں آپ کے مخالف حدیث بالا کا مصداق نہیں ہوں گے؟ اس فتنہ پر ور ذہنیت اور زہرآلود فکر سے صراط مستقیم کے پیروکاروں کو بچانے کے لئے ہمارے اکابر نے گمراہی پروف زرین اصول کی رہنمائی فرمائی ہے۔ ذیل میں وہ اصول ذکر کئے جاتے ہیں‘ کیونکہ اس وقت شاہراہ شریعت کے کنارے کئی ایسے لوگ بھی جلوہ گرہیں جو دستار کے دھوکے اور گفتار کے سحر کے ذریعہ راہِ اعتدال پر راہزنی کے مرتکب ہورہے ہیں اور سادہ لوح عوام تشویش یا ان کے دام تزویر کا شکار ہورے ہیں ۔
۱- صحبت (صحابی ہونا) اللہ تعالیٰ کی طرف سے رضا ورضوان کا ذریعہ بن چکی ہے‘ قرآن کریم کا اعلان ہے کہ اللہ تعالیٰ صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام اللہ تعالیٰ سے راضی ہوچکے ہیں‘ اس نسبت اور مقام کی نفی کوئی نہیں کرسکتا‘ کوئی شخص ایسا نہیں ہے جو اس نسبت کو کسی صحابی سے سلب کرسکے یا اس کے بارے میں محرومی کا فیصلہ کرسکے۔
۲- نبی اکرم ا کے صحبت یافتہ اساطین امت کے بارے میں امت کے سلف وخلف کا اتفاق ہے کہ وہ تمام کے تمام احکام دنیا میں عادل اور انجام اخروی میں ناجی ہیں‘ ان کے بارے میں فسق وفجور کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہرگزکوئی نہیں۔ ہاں ایسا شخص خود فسق وفجور کا مرتکب ضرور ہوجائے گا بلکہ صحابہ کرام کی صحبت کے بیان پر مشتمل آیات مبارکہ اور فرامین نبوی سے معارضہ کی وجہ سے ایسے شخص کے بارہ میں کفر کا اندیشہ ضرور ہے۔
۳-مشاجراتِ صحابہ حقیقت واقعیہ ہیں‘ قرآن کی جن آیات سے اس حقیقت واقعیہ کی طرف اشارہ ملتا ہے‘ انہیں آیات سے طرفین وطائفتین کا مؤمن ہونا بھی صاف طور پر معلوم ہوتا ہے یعنی صحابہ کرام کے مشاجرات کی وجہ سے کسی ایک طائفہ سے صحابیت اور ایمان کی نسبت کو سلب نہیں کیا جاسکتا‘ ورنہ ایسے شخص کا اپنا ایمان سلب ہوجائے گا۔
۴- صحابہ کرام آپس کے معاملات کے حل اور تصفیہ کے خود ہی مجاز تھے‘ ان کے معاملات میں موازنہ ومقارنہ کرنے کے لئے نہ تو انہوں نے بعد والوں کو اپنا حکم (ثالث) مقرر کیا ہے‘ نہ ہی وہ اس بات کے اہل ہوسکتے ہیں کہ وہ اپنوں سے ہزارہا درجے بڑوں کے معاملات کے لئے عدالت قائم کرتے ہوئے کرسئ قضاء پر براجمان ہوسکیں۔
۵- مشاجرات صحابہ کرام کو بیان کرنا جس سے کسی صحابی کی توہین وتنقیص کا پہلو نکلتا ہو‘ قطعاً ناجائز ہے ۔ (الناصیة عن طعن معاویہ)
ان مختصر اصولوں کی روشنی میں حضرت معاویہ  کی شخصیت اور ان کے ساتھ تاریخی روایتوں کی بناء پر روا رکھے گئے برتاؤ کا اگر جائزہ لیا جائے تو یقینا معلوم ہوگاکہ جس طرح حضرت علی کی توہین وتنقیص اور ان کی گستاخی وبے ادبی کے مرتکب لوگوں کا دینِ اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ اسی طرح حضرت معاویہ بن ابی سفیان  کی توہین وتنقیص اور بے ادبی وگستاخی کرنے والوں کا بھی دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں‘ بلکہ بجا طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے لوگوں کا روحانی سلسلہ فارسی مجوسیت اور سبائی یہودیت کا تسلسل اور اسی کی تصویر ہے۔
ذرا غور فرمایئے کہ حضرت معاویہ صرف صحابی ہی نہیں‘ بلکہ مقرب صحابہ میں سرفہرست ہیں‘ آپ نے حضور ا کی معیت میں اور ان کے بعد اسلام کے لئے عظیم خدمات انجام دی ہیں۔
یہ سب کچھ سیر وحدیث کے ذخیرہ میں محفوظ ہے‘ آپ کی رائے اور عمل کی موافقت میں لاتعداد صحابہ کرام تھے‘ امت مسلمہ کے اجماع کی رو سے سارے صحابہ بشمول حضرت معاویہ  عادل اور محفوظ تھے ‘ حضرت معاویہ کی اس حیثیت ومرتبت سے آنکھیں موندھتے ہوئے ذخیرہ حدیث وسیر کو پس پشت ڈالتے ہوئے حیلے وشورش کے زمانے میں ترتیب پانے والی تاریخی روایتوں کو بنیاد بنا کر آپ  کو مشاجرات کی بابت مجرم قرار دینا شرعاً ناجائز بلکہ اپنے ایمان وعمل کا ضیاع ہے‘ ایسا کرنے والے کا مقام ومرتبہ اس نادان سے کم ہرگز نہیں ہوگا جو سورج کو اپنے بدبودار تھوک سے مکدر کرنے کے لئے کوشاں وسرگرداں ہو۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صحیح سمجھ نصیب فرمائے اور ایسے اعمال وکردار سے محفوظ رکھے جو ہمارے ایمان وعمل کے ضیاع کا باعث بنتے ہوں‘ آمین
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , ربیع الثانی ۱۴۳۰ھ - اپریل ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: استخارہ کے بارے میں چند کوتاہیاں اورغلط فہمیاں
Flag Counter