Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

5 - 9
سائنسی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی
سائنسی میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی

مسلمانوں کی موجودہ زبوں حالی اور پستی کے اسباب کیا ہیں اور وہ کون سا راستہ ہے جس پر چل کر اسلام کی نشاة ثانیہ کی منزل حاصل کی جاسکتی ہے؟یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر مسلمانوں کے دورِ غلامی کی گزشتہ دو تین صدیوں کے دوران بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے‘ گیارہ ستمبر کے بعد کی دنیا میں عالم اسلام کو جس صورتحال کا سامنا ہے‘ اس میں یہ سوال بہت اہمیت اختیار کرگیا ہے کہ مسلمانوں کو موجودہ ”گلوبل ویلج“ میں عزت ووقار کے ساتھ رہنے کے لئے کون سا طرزِ فکر وعمل اختیار کرنا چاہئے؟
کچھ حلقے اس فکر کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ مسلمانوں کا اصل مسئلہ عقلیت پسندی‘ تجدد اور آزادئ فکر سے بیزار رہنا اور سائنس وٹیکنالوجی کے حصول پر توجہ نہ دیناہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی پوری شدت کے ساتھ کہی جارہی ہے کہ مسلمانوں کو سائنس وٹیکنالوجی سے دور رکھنے کا ذمہ دار ”ملاّ“ ہی ہے جو سائنس‘ ٹیکنالوجی‘ ترقی اور عقلیت پسندی کا مخالف ہے۔ بعض ”دانشور“ تو اس سے بھی دو قدم آگے بڑھ کر ترقی کے لئے مذہب سے جان چھڑانے کی ”ضرورت“ بھی اجاگر فرمارہے ہیں اور فکری آوارگی وانتشار کے ”چوراہوں“ پر حسنِ بیاں ”نثار“ کرنے والے بعض ”عبقری“ مذہب کو ”افیون“ قرار دے کر کارل مارکس کی بدروح کو خوش کرنے کی بھی کوشش کررہے ہیں۔ ”سویرے سویرے“ اندھیروں کا کاروبار کرنے والے بعض نابغے بھی تأثر دے رہے ہیں کہ سائنس وٹیکنالوجی کی موجودہ ترقی میں مسلمانوں کا کوئی حصہ ہی نہیں ہے اور اس وقت چونکہ سائنس وٹیکنالوجی میں مغرب کی ”امامت“ مسلم ہے‘ اس لئے مسلمانوں کو اپنے مذہب‘ تاریخ‘ کلچر اور تہذیب پر فخر اور اصرار ترک کرکے ”گلوبل تھنکگ“ اپنانی چاہئے اور زندگی کے تمام شعبوں میں اپنے آپ کو مغرب کے بنائے ہوئے سانچوں میں ڈھال کر مغربی معاشروں جیسی ”ترقی اور روشن خیالی“ اپنانی چاہئے۔ آئیے! دیکھتے ہیں کہ کیا واقعی ترقی کی راہ میں ملاّ رکاوٹ ہے اور کیا اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے سے سائنسی ترقی کے راستے مسدود ہوجاتے ہیں؟ یہاں یہ وضاحت کرنے کی شاید ضرورت نہیں کہ سائنس اور ترقی کا باہمی تعلق وتلازم ایک مستقل موضوع ہے جس پر کئی حوالوں سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔ ہمارے ہاں کا ”ترقی پسند“ طبقہ جس چیز کو ترقی سمجھتاہے اور اس کے حصول کے لئے جو راہ عمل تجویز کرسکتاہے‘ اس سے معروف معنوں میں بھی ترقی کا حصول ممکن نہیں ہے‘ یہ شاید طویل دورِ غلامی کا ایک نفسیاتی اثر ہے کہ ہمارے ہاں مغربی ترقی کے تلچھٹ کو ہی اصل ترقی سمجھا جاتاہے۔ ”خذ ما صفا ودع ماکدر“ (جو صاف ہو اس میں سے لے لو اور جو گدلاہو ا س کو چھوڑ دو) ایک آفاقی اصول ہے‘ لیکن ہمارے ہاں معاملہ بالکل الٹا چل رہا ہے‘ ہم مغرب کی سیاسی بالادستی سے خائف اور مرعوب ہوکر مغربی تہذیب کی تمام کدورتوں کو اپنانے کے لئے بے چین ہیں جبکہ مغرب کی سائنسی وفنی پیش رفت کا مقابلہ کرنے کے لئے جن بنیادی چیزوں کی ضرورت ہے‘ ان کے قریب بھی نہیں بھٹکتے۔
جہاں تک اس سلسلے میں ”ملاّ“ کے کردار کا تعلق ہے تو ملاّ حقیقی سائنس وفنی ترقی کا مخالف کیسے ہوسکتاہے؟ جبکہ وہ قرآن وحدیث کی ان نصوص سے اچھی طرح واقف ہے جن میں انسانوں کے لئے زمین وآسمان کے مسخر کئے جانے کے بیان کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو بھر پور فنی صلاحیت‘ بالخصوص حربی قوت حاصل کرنے کا حکم دیا گیاہے۔ اسلامی تاریخ میں جن جن مسلم سائنسدانوں نے اپنی نمایاں ایجادات واختراعات کے ذریعے موجودہ سائنسی ترقی کی بنیاد رکھی وہ ”ملاّ“ ہی تھے‘ ہاں جب مرورِ زمانہ کے ساتھ اور خاص طور پر دنیا میں انگریزی نو آبادیاتی نظام کے قیام اور نئے مشینی دور کے آغاز کے بعد معاشرے میں ملاّ کا کردار محدود کردیا گیا اور اسے سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کی بجائے دین کی بنیادی تعلیمات کے بچاؤ اور مسجد ومدرسے کے نظام کے قیام کی فکر کرنی پڑی تو سائنس وٹیکنالوجی کی تعلیم کا بیڑا اس ”روشن خیال‘ ترقی پسند وعقلیت پسند“ طبقے نے اٹھالیا‘ جس کا دعویٰ تھا کہ نظام تعلیم کو ”ملاّئیت“ سے پاک کرکے سائنس وٹیکنالوجی کی ترقی کو بام عروج تک پہنچایا جائے گا‘ اس طبقے کو ہر دور کی دیسی بدیسی سرکار کی مکمل معاونت وسرپرستی حاصل رہی اور اگر صرف برصغیر کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کا پورا نظام تعلیم مکمل طور پر اسی طبقے کے ہاتھ میں رہاہے‘ اسی طبقے نے ”ملاّئیت“ کے خاتمے کی مہم میں انگریزوں کا بھی حتی المقدور ہاتھ بٹایا اور آج بھی یہی طبقہ مسلمانوں میں ”سائنسی طرز فکر“ پیدا کرنے کے لئے ”روشن خیالی“ کے امریکی ایجنڈے کو آگے بڑھارہاہے۔
اس وقت بھی نظام تعلیم کی لگام اسی کے ہاتھ میں ہے‘ لیکن ڈیڑھ سو سال سے زائد عرصے میں اس طبقے نے سائنسی میدان میں کتنی پیش رفت کی‘ کتنی ایجادات واختراعات کیں اور کتنے نمایاں سائنسی نظریات پیش کئے جو عالمی سطح پر اس کی سائنسی طرز فکر کی علامت ہو؟ کیا اس کا جواب صفر میں نہیں ہے؟ اب یہ طبقہ اپنی اس ناکامی کا سارا ملبہ ”ملاّ“ پر گرانے کی ایسی کوشش کررہاہے جیسے یہ ملاّ کے ہر ہر حکم کا بہت ہی پابند ہو اور ملاّ ہی نے اس کو سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں مفید ایجادات وتجربات کرنے سے روکا ہو۔
”ملاّ“ نے فرنگی استعمار کے تسلط کے قیام کے بعد مسلمانوں کے دین اور ایمان کے تحفظ کے لئے دینی تعلیم کے احیاء کے جس محاذ کو سنبھالنے کا عہد کیا تھا‘ حالات کی تمام ترستم ظریفیوں اور وقت کی تمام ترناموافقتوں کے باوجود‘ وہ آج بھی اس محاذ اور مورچے پر ڈٹا ہوا ہے اور آج دنیا دیکھ رہی ہے کہ اسلام کی بقاء وتحفظ کی جنگ میں یہ بے سروسامان ”ملاّ“ ہی سرگرم عمل نظر آتاہے‘ کفریہ طاقتیں اسی کو اپنا دشمن سمجھتی ہیں اور اسلام دشمن طاقتوں کو پوری اسلامی دنیا میں ”ملاّ“ کا خطرہ ہی اصل خطرہ نظر آتاہے‘ جس طبقے نے سائنس وٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب کا مقابلہ کرنے کے دعوے کئے تھے‘ وہ آج اس سارے منظر نامے سے غائب ہے۔ طرفہ تماشا دیکھئے کہ اس طبقے کے لوگ اب علماء سے سوال کرنے لگے ہیں کہ وہ دینی مدارس میں ہوائی جہاز‘ کمپیوٹر اور جدید آلات بنانا کیوں نہیں سکھاتے؟ حالانکہ یہ سوال اس طبقے کو اپنے آپ سے کرنا چاہئے کہ اس نے قوم کو انگریز کے نظام تعلیم کے تحت ترقی کے جو خواب دکھائے تھے‘ وہ ہنوز شرمندہٴ تعبیر کیوں نہ ہوسکے؟ ملاّ نے تو اسی وقت کہہ دیا تھا کہ انگریزی نظام تعلیم کا مقصد برصغیر میں فرنگی تہذیب کو پروان چڑھانے اور فرنگی اقتدار کو مستحکم کرنے کے لئے ایسے بابو اور کلرک پیدا کرنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے جو انگریزی حکومت کی مشینری کے لئے مقامی پرزوں کی ضرورت پوری کرسکیں‘ اس طبقے نے اس سے زیادہ اگر علمی وسائنسی میدان میں کوئی کارکردگی دکھائی ہے تو اس کی نشاندہی کی جائے۔ بات صرف برصغیر تک محدود نہیں ہے‘ برطانوی نو آبادیات اور پوری اسلامی دنیا میں ”جدید ترقی پسند“ مہربانوں کی مہربانیوں سے یہی صورتحال رہی‘ جو اب تک قائم ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اگر تلاش کی جائے تو وہ ذہنی غلامی ہی ہے‘ مسلمان معاشروں میں ترقی‘ عقلیت پسندی اور تجدد کے نام پر مغرب کی ذہنی غلامی کے جراثیم اس قدر پھیلادیئے گئے کہ کسی میں سائنسی میدان میں مغرب سے مقابلہ کرنے کی سوچ ہی پیدا نہ ہوسکی‘ اس عرصے میں اسلامی دنیا میں اگر کچھ کام کے سائنسدان اور ماہرین پیدا بھی ہوئے تو وہ اس ذہنی مرعوبیت کی بناء پر مغربی ممالک جا بسے اور مغرب ہی کے آلہٴ کار بن گئے‘ تازہ عالمی منظر نامے میں ڈاکٹر محمد البرادی کی زندہ مثال سب کے سامنے ہے۔ اہل بصیرت مسلم مفکرین نے آج سے ایک صدی پہلے نشاندہی کر دی تھی کہ مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ذہنی غلامی اور نظام تعلیم کی خرابی ہی ہے۔ شاعر مشرق علامہ اقبال نے کہا تھا:
”آج مسلمانوں کی ذہنی ترقی کو جس چیز نے روک رکھا ہے وہ صرف نصابِ تعلیم اور طرزِ تعلیم ہی ہے“۔
سچ یہ ہے کہ جب تک مسلمان مغرب کی ذہنی غلامی سے نجات حاصل نہیں کریں گے‘ سائنسی وفنی میدان میں ان کی ترقی ممکن نہیں ہے‘ کسی چیز کا مقابلہ تب ہی کیا جاسکتاہے جب کہ اپنے سامنے تشخص‘ حیثیت اور الگ وجود کا احساس ہو‘ خود سپردگی اور سپراندازی کے طرز عمل سے کسی طاقتور مد مقابل کی غلامی ضرور کی جاسکتی ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہمسری یا مقابلہ کا دعویٰ نہیں کیا جاسکتا۔ ملاّ نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے بھی یہی بات کہی تھی اور آج بھی یہی کہتا ہے کہ سائنسی میدان میں جتنا ممکن ہو‘ آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اور تمام جدید علوم وفنون میں مہارت حاصل کی جائے‘ لیکن اپنے دینی وملی تشخص‘ تہذیب وتمدن اور اسلام کی عطا کردہ آفاقی حریتِ فکر کی نعمت کو ہاتھ سے جانے نہ دیا جائے۔ مولوی اگر سائنسی تحقیقات وایجادات میں کچھ شرعی‘ اخلاقی اور تہذیبی قیود کو ملحوظ رکھنے کی بات کرتا ہے تو کیا آج اس کی ضرورت عالمی سطح پر محسوس نہیں کی جارہی؟ آج امریکا جیسے ملک میں انسانی کلوننگ پر پابندی کیوں ہے؟ اور کیا یہ سائنس کو مطلق العنان چھوڑنے کا نتیجہ نہیں کہ آج سائنسی ترقی کے اپنے عروج پر پہنچنے کے باوجود بنی نوع انسان کی تباہی کے اسباب وذرائع‘ اس کی آسانی اور راحت کے اسباب وذرائع سے کہیں زیادہ ہوچکے ہیں اور ”ترقی یافتہ“ معاشروں میں اخلاقی تباہی اپنی انتہائی حدوں سے تجاوز کر چکی ہے۔ آج پوری دنیا کے حقیقت پسند حلقے اس بات کی ضرورت محسوس کررہے ہیں کہ سائنسی تحقیقات کو مسلمہ انسانی واخلاقی اقدار کے تابع رکھا جائے اور سائنس وٹیکنالوجی کو انسان کی تباہی کی بجائے اس کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال کیا جائے‘ یہی بات ”ملاّ“ نے آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے اپنے ہاں کے روشن خیال ترقی پسندوں کو سمجھانے کی کوشش کی تھی‘ ورنہ یہ بات بھی کوئی راز نہیں کہ جدید سائنسی تحقیقات سے دنیا کے دیگر خود ساختہ مذاہب کو تو بہت خطرات در پیش ہوئے ہیں‘ اسلام آج کے سائنسی دور میں بھی ایک زندہ وجاوید حقیقت بن کر مغرب کے ”انتہائی ترقی یافتہ“ معاشروں میں بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے‘ اس لئے سائنس کی ترقی سے اسلام اور اسلام کے محافظ ”ملاّ“ کو کوئی خطرہ نہیں ہے‘ اسلام کو اگر خطرہ ہے تو ان نام نہاد تجدد پرست دانشوروں سے ہے جو اپنی مخصوص افتاد طبع اور غلامانہ ذہنیت کی بنیاد پر مسلمانوں میں مایوسی اور قنوطیت پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں‘ اور مذہب کو گردن کا طوق سمجھ کر مسلمان نوجوانوں کو یہ طوق گلے سے اتار پھینکنے کے مشورے دے رہے ہیں۔
ان لوگوں کی پہچان یہ ہے کہ یہ زبردست خلط مبحث کے ماہر ہوتے ہیں اور بسا اوقات ان کو خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ”کالمی افلاطون“ بننے کے شوق میں کس قدر تضاد بیانی میں مبتلا ہورہے ہیں۔ مثلاً ایک نے لکھا کہ:
”مسلم دنیا میں ایک نامور سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام پیدا ہوئے تو مولویوں نے اس پر بھی فتوے لگائے“۔
اندازہ لگایئے کہ بات کہاں سے کہاں لے جائی جارہی ہے‘ ان سے کوئی پوچھے کہ مولویوں نے ڈاکٹر عبد السلام کے کس سائنسی نظریئے پر کون سا فتویٰ لگایا تھا؟ فتویٰ تو قادیانی دجل پر لگاتھا اور یہ ڈاکٹر عبد السلام کی بدنصیبی تھی کہ وہ نہ صرف قادیانی تھا‘ بلکہ قادیانی خلیفہ سے براہِ راست مذہبی ہدایات بھی لیتا تھا۔ کمال ہے کہ سائنسی ترقی کے لئے مذہب سے چھٹکاراپانے کے لئے مثال بھی اس شخص کی پیش کی جارہی ہے جو کٹر مذہبی‘ بلکہ ایک بڑے بدمذہب گروہ کا چیلا تھا۔ڈاکٹر عبد القدیر خان کی مثال شاید اس لئے پیش نہیں کی گئی کہ وہ ”روشن خیالی“ کے تقاضوں پر پورا نہیں اترتے اور ان پرنازل ہونے والے سرکاری عتاب کے یہ مہربان خود بھی قائل ہیں۔ خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ سائنس کے میدان میں مسلمانوں کی پسماندگی کا اصل سبب ملاّ یا مذہب نہیں‘ بلکہ وہ شکست خوردہ غلامانہ ذہنیت ہے جو مسلمانوں کو مغرب کی ذہنی غلامی سے آگے سوچنے ہی نہیں دیتی‘ امت مسلمہ کی سائنسی ترقی کے لئے اس ذہنیت سے نجات صاحل کرنا ضروری ہے۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, صفر المظفر ۱۴۲۷ھ بمطابق مارچ ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: عالم اسلام کی زبوں حالی اور اس کے اسباب
Flag Counter