Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی محرم الحرام ۱۴۲۷

ہ رسالہ

7 - 10
اباحیت کا فتنہ
اباحیت کا فتنہ
تصویر کے فتنہ انگیز نتائج


اللہ تعالی رحم فرمائے قرب قیامت کی وجہ سے اس تیزی سے فتنوں پر فتنے اٹھ رہے ہیں کہ ایمان کی سلامتی مشکل ہورہی ہے اور اعمال صالحہ کی توفیق سلب ہوتی جارہی ہے ، ایک فتنہ تنہا بذات خود فتنہ ہوتاہے اور ایک فتنہ مختلف فتنوں کو جنم دیتا ہے ، مثلا فوٹوگرافی کا فتنہ شروع ہوا ، یہی کیا کم گناہ تھا کہ اس سے سینکڑوں فتنے پیدا ہوئے، حضرت حق جل شانہ کا علم ہر شی کو محیط ہے ، اس کے علم میں ہے کہ فلاں فتنہ فلاں فلاں اسباب وذرائع سے ابھرے گا ، اس بنا پر شریعت الہیہ کا منشاء یہ ہوتا ہے کہ جو چیز کسی درجہ میں بھی معاصی اور گناہوں کا سبب بن سکتی ہو اس کو منع فرمائے ، انسانی عقل بسا اوقات اپنے قصور علم اور کم فہمی کی وجہ سے اس کی علت وحکمت کو محسوس نہیں کرسکتی ،انسان بسا اوقات تعجب کرتا ہے کہ بظاہر اس معمولی بات کو اتنی سختی سے کیوں روکاگیا ، لیکن بعد میں واقعات وشواہد سے اس کی تصدیق ہوجاتی ہے کہ شریعت الہیہ نے جو فیصلہ کیا تھا عین حکمت تھا ، ایک مصوری کے پیٹ سے کیسے کیسے فتنے پیدا ہوں گے ،شریعت محمدی نے ابتدا ہی سے فرمادیاتھا کہ قیامت کے دن سخت ترین عذاب صورت بنانے والوں کو ہوگا ، اور کبھی یہ فرمایا کہ ان سے کہا جائیگا کہ جو تم نے بنایا ہے اس میں روح پھونکو اور کبھی یہ ارشاد فرمایا کہ جس گھر میں کتا یا تصویر ہواس میں فرشتے داخل نہیں ہوتے اور کہیں یہ فرمایا کہ صورت سازی حق تعالی کی خالقیت کی نقل کرنی ہے وغیرہ وغیرہ۔ (بصائر وعبر ج۱صفحہ ۳۲۶)
اسلام دین قیم ہے اس نے کفر وشرک ، بدعت وضلالت اور کج راہی وگمراہی کا ایک ایک کانٹا چن چن کر صاف کر دیا ، تمام اولاد آدم کو ایک صاف ، سیدھا اور نکھرا ہوا”صراط مستقیم “ عطا کیا جس پر چل کر وہ امن وامان اور راحت وعافیت کی زندگی بسر کرسکے اور مرنے کے بعد قرب ورضا اور جنت ونعیم کی وارث بنے ،قرآن میں ہے:
﴿تلک الدّار الآخرة نجعلھا للذین لا یریدون علوّا فی الارض ولا فسادا والعاقبة للمتّقین﴾ (القصص:۸۳ا)
ترجمہ : ”یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں جو نہ تو زمین میں سرکشی چاہتے ہیں اور نہ فساد ، اور اچھا انجام پرہیزگاروں ہی کے لیے ہے“ ۔
اسلام نے انسانیت کے اعمال واخلاق کے تزکیہ کے لیے شروفساد کے تمام راستوں کو مسدود کردیا ، شرک جو اسلام کی نظر میں سب سے بڑا ظلم ہے ،تاریخ شاہد ہے کہ وہ دنیا میں مجسموں مورتیوں اور تصویروں اور فوٹووٴں کے راستہ سے آیا تھا ، اس لیے اسلام نے اس منبع کفر وشرک کو حرام اور تصویر سازوں کو ملعون اور بد ترین خلق قرار دے کر اس راستہ کو بند کیا ، صحیحین میں ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے یہ حدیث موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وصال میں ایک دفعہ ازواج مطہرات آپ کے پاس جمع تھیں ،کسی تقریب سے ”ماریہ “ نامی کنیسہ (گرجا) کا ذکر چھڑا ، حضرت ام سلمہ اور حضرت ام حبیبہ  کو چونکہ ہجرت حبشہ کے دوران اس کے حالات معلوم کرنے کا موقعہ ملا تھا ،اس لیے ان دونوں حضرات نے اس کے حسنِ تعمیر اور وہاں کی آراستہ تصویروں کا تذکرہ کیا ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ گفتگو سن رہے تھے ،بستر علالت سے سر اٹھایا اور فرمایا :
”اولئک اذا مات فیہم الرجل الصالح بنوا علی قبرہ مسجدا ثم صوروا بہ تلک الصور اولئک شرار خلق اللہ“ (مشکوة ص: ۳۸۶)
ترجمہ :” ان لوگوں میں جب کسی نیک آدمی کا انتقال ہوجاتا یہ اس کی قبر پر عبادت گاہ بنا لیتے ، پھر ان تصویروں سے اسے آراستہ کرلیتے تھے ، یہ لوگ اللہ کی مخلوق میں بد ترین قسم کے لوگ ہیں“۔
ایک حدیث میں ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر پر تھے ، آپ کی تشریف آوری سے پہلے میں نے گھر میں ایک طاقچہ پر کپڑے کا پردہ لٹکادیا تھا ،جس میں تصویریں بنی تھیں ، جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھا تو چہرہٴ انور پر غضب کے آثار نمودار ہوئے اور نہایت نفرت کے لہجہ میں فرمایا :
”یا عائشة انّ أشدّ الناس عذابا عند اللّٰہ یوم القیامة الذین یضاہون بخلق اللّٰہ “ (صحیح مسلم ج:۲ ص: ۲۰۱)
ترجمہ :” عائشہ ! قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق یہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالی کی صفت خلق میں مقابلہ کرتے ہیں “۔
صحیح مسلم اور مسند احمد کی حدیث میں ہے :
”انّ أشدّ الناس عذابا یوم القیامة المصوّرون“ (صحیح مسلم ج:۲ ص: ۲۰۱)
ترجمہ : یقینا سب سے زیادہ سخت عذاب کے مستحق قیامت کے دن تصویر ساز ہوں گے ۔
اور صحیحین اور دوسری کتب حدیث میں بہت سی احادیث صحیحہ مبارکہ موجود ہیں جو جاندار چیزوں کی تصویر سازی کی حرمت اور ملعونیت کو بیان کرتی ہیں اور تمام فقہائے امت نے متفقہ طور پر جاندار چیزوں کی تصاویر کو حرام قرار دیا ہے ۔ بد قسمتی سے عالم اسلام کی زمام قیادت کافی عرصہ سے ناخدا شناس تہذیبوں اور بد دین قوموں کے ہاتھ میں ہے ،جن کے یہاں (الا ماشاء اللہ )دین ودیانت نام کی کوئی چیز ہے ہی نہیں اور شرم وحیا ، عفت وعصمت ، غیرت وحمیت کا لفظ ان کی لغت سے خارج ہے ، ان کے نزدیک فکر وفن اور دغاوفریب کا نام” سیاست “ہے ، انسانیت کشی کے اسباب ووسائل کا نام ”ترقی “ ہے ، فواحش ومنکرات کا نام ”آرٹ “ ہے ،مردو زن کے غیر فطری اختلاط کا نام”روشن خیالی “ اور ”خوش اخلاقی “ ہے ، پردہ دری اور عریانی کا نام ”ثقافت “ ہے اور پس ماندہ ممالک ان کی اندھی تقلید اور نقالی کو فخر سمجھتے ہیں ،اس لیے آج سارے عالم میں فتنوں کا دور دورہ ہے ، اور شاید یہ دجالِ اکبر کے دجالی فتنہ کی تیاری ہورہی ہو ، خصوصا عالم اسلام ہر معصیت ،ہر فتنہ اور ہر برائی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ، آئے دن کے ان ہزاروں فتنوں میں ایک ”فوٹو“کا فتنہ ہے ، جہاں دیکھیں فوٹوگرافر موجود ہیں ،دعوت وضیافت ہو یا مجلسِ نکاح ، اجلاس عام ہو یا پرائیوٹ اجتماع ، ہرجگہ فوٹوگرافر موجود ہوگا اور کیمرہ سامنے ، اس معصیت نے وبائی فتنہ کی شکل اختیار کرلی ہے ، جس سے بچنا دشوار ہوگیا ہے ، کوئی بالارادہ بچنا بھی چاہے ،تب بھی اسے معاف نہیں کیا جاتا ،بے خبری میں اس کا فوٹو بھی لے لیا جاتا ہے اور دوسرے دن اخبارات کے صفحات پر دنیا کے سامنے پیش بھی کر دیا جاتا ہے ، آج ان فوٹو گرافروں ، کیمرہ بازوں اور اخبار نویسوں کے طفیل عریاں غلاظت کے انبار ہمارے گھروں میں داخل ہورہے ہیں اور اس سے پورا معاشرہ متأثر ،بلکہ متعفن ہورہا ہے ،مگر حیف ہے کہ اس پر کوئی گرفت کرنے والا نہیں ، ستم یہ کہ اس عمومی اور عالم گیر صورت نے عام طبقہ کے ذہن سے یہ خیال ہی ختم کردیا ہے کہ یہ بھی کوئی ناجائز کام یا معصیت اور گناہ ہے، کیونکہ برائی کا یہ خاصہ ہے کہ جب وہ عام ہوجاتی ہے اور اس پر گرفت کا بندھن ڈھیلا ہوجاتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کی نفرت وحقارت دلوں سے نکلتی جاتی ہے اور قلوب مسخ ہوتے جاتے ہیں اور نوبت یہاں تک جا پہنچتی ہے کہ وہ(برائی) معیار شرافت بن جاتی ہے :
تھا جو نا خوب بتدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا مزاج
اور اسی کو کج نظر اورغلط پندار لوگ ”انسانی قدروں کی تبدیلی “ سے تعبیر کرنے لگتے ہیں ،ورنہ ظاہر ہے کہ جب تک انسان ،انسان ہے اور اس کی انسانیت باقی ہے ،تب تک کسی ”انسانی قدر “ کے بدل جانے کا تصور ہی غلط ہے ، ہاں ! انسان نما جانور ،انسان ہی نہ رہیں کسی اور نوع میں تبدیل ہوجائیں تو دوسری بات ہے۔ چند دن ہوئے ایک عالم کے یہاں خصوصی دعوت تھی ، وہاں دو ایک مشہور شخصیتیں بھی مدعو تھیں اور خصوصی مہمان بھی تشریف فرما تھے ، راقم الحروف کو بھی شرکت کی نوبت آئی اور سوءِ اتفاق سے مجھے ان ہی کے ساتھ بٹھادیا گیا ، یہ تصور بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ ایک عالم کے مکان پر خصوصی دعوت میں فوٹو گرافر کیمرہ لے کرآموجود ہوگا ، جب فوٹو گرافر سامنے آیاتو راقم الحروف نے سختی سے روکا اور ایک دوسرے عالم نے بھی شدید نکیر فرمائی، اطمینان ہوا کہ فتنہ ٹل گیا ، لیکن کچھ وقفے کے بعد دوبارہ کسی قدر فاصلہ پر دروازہ پر کھڑا دیکھا تو معلوم ہوا کہ اس نے ہماری بے خبری اور غفلت سے فائدہ اٹھا کر اپنا ارادہ پور ا کرلیا ، اگلے دن ”جنگ“ کے صفحات پر تین اشخاص کا جن میں ایک راقم الحروف تھا فوٹوآگیا اور ستم ظریفی یہ کہ نیچے یہ عبارت لکھ دی ”گروپ فوٹو“ انا للہ۔
تصویر سازی کی حرمت پر امت کا اجماع ہے
حدیث نبوی میں تصویر سازی پر جو شدید وعید آئی ہے ،وہ ہر جاندار کی تصویر میں جاری ہے اور تمام امت جاندار اشیاء کی تصاویر کی حرمت پر متفق ہے ،لیکن خدا غارت کرے اس مغربی تجدد کو کہ اس نے ایک متفقہ حرام کو حلال ثابت کرنا شروع کردیا ،اس ”فتنہٴ اباحیت “کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا مرکز مصر اور قاہرہ تھا ، چنانچہ آج سے نصف صدی پہلے قاہرہ کے مشہور شیخ محمد نجیت مطیعی نے جو شیخ الازہر بھی تھے ”اباحة الصور الفوتوغرافیة“ کے نام سے ایک رسالہ تالیف کیا تھا ، جس میں انہوں نے کیمرے کے فوٹو کے جواز کا فتوی دیا تھا ، اس وقت عام علماء مصر نے ان کے فتوی کی مخالفت کی ،حتی کہ ان کے ایک شاگردِ رشید علامہ شیخ مصطفی حمامی نے اپنی کتاب”النہضة الاصلاحیة للأسرة الاسلامیة“ میں اس پر شدید تنقید کی اور اس کتاب میں صفحہ ۲۶۰ سے صفحہ۲۶۸ اور صفحہ ۳۱۰سے صفحہ۳۲۸ تک اس پر بڑا بلیغ رد لکھا ، ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
”تمام امت کے گناہوں کا بار شیخ کی گردن پر ہوگا کہ انہوں نے تمام امت کے لیے شر اور گناہ کا دروازہ کھول دیا “۔
اسی زمانہ میں حضرت مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کے قلم سے ماہنامہ ”معارف “میں ایک طویل مقالہ شیخ مطیعی کے رسالہ کی روشنی میں نکلا ، اس وقت امام العصر مولانا انورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کو جب اس کی اطلاع ہوئی اور اس مضمون سے واقف ہوئے تو آپ کی تحریک پر آپ کے تلامذہ میں سے حضرت مولانا محمد شفیع صاحب نے ماہنامہ ”القاسم“ میں (جودارالعلوم دیوبند کا ماہنامہ تھا) اس پر تردیدی مقالہ شائع فرمایا ، وہ مقالہ حضرت شیخ کشمیری رحمہ اللہ کی راہنمائی میں مرتب ہوا ، جسے بعد میں ”التصویر لاحکام التصاویر “ کے نام سے حضرت مفتی صاحب نے شائع فرمایا ۔
یہ واضح رہے کہ حضرت سید (سلیمان ندوی)صاحب موصوف مرحوم نے اپنی حیات طیبہ کے آخری سالوں میں جبکہ آپ کی عمر مبارک ساٹھ تک پہنچ چکی تھی ،جن چند مسائل سے رجوع فرمالیاتھا ان میں فوٹو کے جواز کا مسئلہ سے بھی رجوع فرمایا تھا ، مولانا ابوالکلام آزاد جیسے آزاد صاحبِ قلم نے اگرچہ ذوالقرنین کو سائرس بناکر اس کے مجسمہ کا فوٹو(اپنی تفسیر) ”ترجمان القرآن“میں شائع کیا تھا ،لیکن بعد میں اسے ”ترجمان القرآن“ کے تمام نسخوں سے نکال کر تصویر کے حرام ہونے کا اعلان کردیاتھا۔ الغرض نہ صرف ہمارے اکابر بلکہ تمام فقہاء امت کا اس پر اتفاق ہے کہ فوٹو حرام ہے ، البتہ پاسپورٹ وغیرہ ضروریات کے لیے نصف چھوٹے فوٹو کو اس سے مستثنی کرنا ہوگا ، اس کا گناہ ان لوگوں کے ذمہ ہے جن کی طرف سے یہ مجبوریاں عائد کی گئیں ہیں ، اس لیے یہ واضح رہے کہ میرا مسلک یہی ہے کہ فوٹو بلاان خاص ضرورتوں کے ناجائز اور حرام ہے ، اگر میری بے خبری میں ،چالاکی سے کسی نے فوٹو لے لیا تو اس کا گناہ اس کی گردن پر ہے، اگرچہ اس ملعون فن سے اسلامی معاشرہ میں نفرت عام نہیں رہی ، ناواقف عوام اسے معمولی اور ہلکی چیز سمجھنے لگے ہیں اور کچھ لوگ تو اس کے جواز کے لیے بھی حیلے بہانے تراشنے لگے ہیں ، لیکن کون نہیں جانتا کہ کسی معصیت کے عام ہونے یا عوام میں رائج ہونے سے وہ معصیت ختم نہیں ہوجاتی اور اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی چیز کو جب حرام قرار دے دیا تو اس کے بعد خواہ سو بہانے کیے جائیں ،مگر اس کے جواز کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا ، آج کل سود ، بیمہ اور اسی قسم کی بہت سی چیزیں جنہیں مغربی تہذیب وتمدن کی بد دینی نے جنم دیا ہے ہمارے جدید تمدن میں گھس آئی ہیں اور اب پوری طرح ان کا رواج ہے ،لیکن کون مسلمان ہوگا جو یہ کہنے کی جرأت کرے کہ یہ سب جائز ہیں ؟ ہاں ! یہ ممکن ہے کہ گناہ میں عموم بلوی کی وجہ سے آخرت کی سزا میں کچھ تھوڑی بہت تخفیف ہوجائے ،اس کا علم حق تعالی ہی کو ہے ۔…
تصویر کے معاملہ میں شریعت محمدیہ کی سختی کی وجہ
تصویر کے معاملہ میں اس شدت کی بنیاد در حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام کا بنیادی عقیدہ توحید ہے یعنی حق تعالی کی وحدانیت کا بدل وجان اقرار کرنا خواہ توحید ذات الہی کی ہو یا توحید صفات الہی کی ہو یا توحید افعال الہی کی ہو ، اسلام میں کسی قسم کا شرک قابلِ برداشت نہیں ، اس لیے ابتدا ہی سے شریعت نے تمام اسباب شرک پر جن میں تصویر بھی شامل ہے ،شدید پابندی لگادی ، اسی لیے میں نے کہا کہ یہ کوئی معمولی گناہ نہ تھا ، لیکن اس وقت جب کہ حق تعالی نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک کے ذریعہ یہ اعلان کرایا تھا اور یہ احکام نازل فرمائے تھے، خیال بھی نہیں گذرسکتا تھا کہ آئندہ چل کر یہ فتنہ کتنے عظیم الشان فتنوں کا ذریعہ بنے گا ۔
تصویر اور اس کے گندے اور فتنہ انگیزنتائج
آج اسی مصوری کی وجہ سے حسن وجمال کی نمائش ہوتی ہے اور اسی تصویر سازی کی وجہ سے بے حیا قوموں کی عورتوں کے عریاں فوٹو، بداخلاقی ، بد اطواری اور خدا فراموش زندگی کا ذریعہ بن چکے ہیں ، یہی لعنت شہوانی وحیوانی جذبات بھڑکانے کا سبب ہے ، اسی لعنت کی وجہ سے کتنے معصوموں کا خون بہہ رہا ہے اور کتنی جانیں تلف ہو رہی ہیں اور خودکشی کی کتنی وارداتیں ہو رہی ہیں ، تھیٹر اور سینما کے پردوں پر اسی مصوری کی وجہ سے بے حیائی کے مظاہر اور روح فرسا مناظر سامنے آرہے ہیں، اسی فتنہ کی وجہ سے نہ کسی کی آبرو محفوظ ہے نہ تہمت تراشی سے کوئی بچ سکتا ہے ، کسی کا سر اور کسی کا دھڑ لے کر جو چاہے کرشمہ سازی دکھلائے ، کسی کو بدنام کرنا ہو، اس کے بالائی بدن کی صورت لے کر کسی طوائف کے عریاں فوٹو میں پیوند لگا کر جو چاہے کر لیجیے ، آپ کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ایک بڑی قوی اسلامی مملکت کی تباہی وبربادی اوراس کے حکمران کی جلاوطنی میں یہی فتنہ ایک موٴثر عامل ثابت ہوا ہے ، اس قسم کی عریاں تصویروں کے ذریعہ ملک میں ان کی بداخلاقی وبے حیائی وبے دینی کا پروپیگنڈہ کیا گیا اور بدنامی کی انتہا کردی گئی اور آخر تخت وتاج سے محرومی کا باعث بنا ، افسوس کہ واقعہ کی پوری تفصیل سے معذور ہوں ، الغرض اس فتنے کے کرشموں سے نہ دین محفوظ ہے نہ اخلاق ، نہ کسی کی جان محفوظ ہے نہ کسی کا ایمان ، نہ آبرو محفوظ ہے نہ کسی کی عصمت ، فواحش ومنکرات کی اشاعت میں مصوری کا اتنا بڑا دخل ہے کہ اسی کی وجہ سے تقوی وطہارت وپاکیزہ زندگی کی بنیادیں ہل گئیں ، لیکن آج کل کی اصطلاح میں یہ ثقافت اور آرٹ ہے ، اور غضب یہ کہ اس کو ”اسلامی آرٹ“ کا نام دیا جاتا ہے
بسوخت عقل زحیرت کہ ایں چہ بوالعجبی ست !
تھیٹر سینما اور یہ فلمیں جن سے آج معاشرہ ہلاکت کے کنارے پہنچ گیا ہے، یہ تمام اسی مصوری کی بدولت ہے اور یہ فتنہ اتنا عام ہوگیا ہے کہ مسجدیں جو خالص عبادت گاہیں ہیں ،وہ بھی اس سے محفوظ نہیں ، نکاح کی محفلوں سے مقامات مقدسہ تک ، ہرجگہ یہ فتنہ پہنچ گیا ہے ،بعض وہ حکومتیں جو اسلامی قانون جاری کرنے کی مدعی ہیں اور وہ جن کا دعوی اتباع سنت ہے ،ان کے ہاں یہ فتنہ اس قدر شباب پر ہے اور آب وتاب سے ہے کہ الامان والحفیظ!بہرحال یہ فتنہ اتنا عالمگیر ہوگیا ہے کہ نہ مسجدبچی نہ مدرسہ ، نہ اسلامی ملک بچا نہ صالح مسلمان بچے۔…
(ماخوذاز بصائر وعبر ج۱صفحہ ۳۲۰تا۳۲۸)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, محرم الحرام ۱۴۲۷ھ بمطابق فروری۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 1

    پچھلا مضمون: بدعملیوں کی سزا
Flag Counter