Deobandi Books

ماہنامہ الابرار فروری 2010

ہ رسالہ

13 - 14
شرعی مسائل کے جوابات
ایف جے،وائی(February 10, 2010)

دارالافتاءجامعہ اشرف المدارس کراچی۔

سوال: آپ سے دو مسئلوں کے جوابات مطلوب ہیں پہلا مسئلہ تو یہ ہے کہ جیسا کہ آج کل ڈبل سواری (موٹرسائیکل پر) پابندی ہے تو آج کل کے حساب سے ڈبل سواری پر سفر کرنا جائز ہے یا نہیں؟ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ بس میں سفر کرنے کی صورت میں اکثر اوقات جیب کے کٹنے کا خطرہ ہوتا ہے تو اس خطرے کو پیش نظر رکھتے ہوئے اگر کوئی بٹوہ یا موبائل شلوار کی جیب میں رکھتا ہے اور اس بٹوے اور موبائل میں اسم الجلالہ اور دیگر مقدس چیزیں اور اوراق ہوں تو ان چیزوں کو شلوار کی جیب میں رکھنا کیسا ہے؟

جواب: (۱)چوں کہ جائز امور میں حاکم کی اتباع شرعاً واجب ہے اس لیے موٹر سائیکل پر ڈبل سواری کرنا جبکہ اس پر پابندی ہو جائز نہیں۔ (۲) سوال میں مذکورہ خطرے کے پیش نظر بٹوے یا موبائل (باوجودیکہ اس میں مقدس اوراق اور اسماءہوں) شلوار کی جیب میں رکھنا درست ہے۔

سوال: جناب عالی مفتی صاحب السلام علیکم و رحمة اﷲ و برکاتہ، آپ سے رہنمائی درکار ہے اسلام کی رو سے۔ مندرجہ ذیل تحریر کسی صاحب نے وظیفہ کی طرح پڑھنے کے لیے کسی دوسرے صاحب کو دی ہے ۔مجھے اسلام کی رو سے فتویٰ درکار ہے۔

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

جنگل پہاڑ بھی کہتے ہیں

نادے علی علی

مشکل کشا کو ساڈے حل کرو

مشکل کشا علی

یا علی یاعلی یا علی

ادرکنی فی سبیل اﷲ

المدد مصطفیٰ المدد مرتضی

یا علی یا علی یا علی یا علی یا علی

جواب: اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی مخلوق کواﷲ تعالیٰ کی طرح مشکل کشا سمجھنا شرک ہے۔ کیونکہ مخلوق کی مشکلات اور مصائب کو دور کرنا یہ اﷲ تعالیٰ کا خاصہ ہے۔ جبکہ مذکورہ وظیفہ میں حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے حل مشکلات کی درخواست کی گئی ہے اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کو اﷲ تعالیٰ کے اس وصف خاص (مشکل کشاہونے) میں شریک کیا گیا ہے، جو کہ کفر و شرک ہے۔ اس لیے عوام الناس کے لیے ایسے وظائف سے بچنا لازم ہے۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارے علاقے میں شادی بیاہ کی جو رسم ہے وہ کچھ اس طرح ہے کہ لڑکی والے لڑکے سے مقرر شدہ مہر کے علاوہ مہر کا نصف یا ثلث یا اس مہر کے علاوہ متعین رقم مثلاً 50ہزار دینا ہوگا مطالبہ کرتے ہیں، اب ان مذکورہ دونوں صورتوں میں جو رقم لڑکے سے لی جاتی ہے اس سے مہمانوں کو جو شادی کے موقع پر لڑکی کے گھر آتے ہیں کھانا کھلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی مطالبہ ہوتا ہے کہ اتنے جوڑے کپڑے لانا ہوں گے۔ باقی جب لڑکی کی رخصتی ہوتی ہے تو اس کے خاندان کا کوئی بڑا آدمی، یا لڑکی کا چچا یا ماموں اور بڑا بھائی ساتھ جاتا ہے اور اس کے لیے لڑکے والوں پر کچھ رقم نقد یا کوئی قیمتی چیز مثلاً قیمتی گن وغیرہ دینا ہوگا، لازم کردی جاتی ہے۔ اب چند صورتیں مطلوب ہیں۔

(۱) اب مہمانوں کو لڑکی والوں کے جو اس پیسے سے کھانا کھلاتے ہیں کھانا جائز ہے یا نہیں، اور اس طرح رقم اور جوڑے کپڑوں کا التزام کرنا کیسا ہے؟ (۲) لڑکی کے ساتھ جو آدمی خصوصی طور پر بھیجا جاتا ہے، اس کے لیے رقم یا قیمتی چیز کا مطالبہ کرنا اور اس کا لڑکے والوں سے لینا کیسا ہے؟ اس کے لیے یہ رقم لینا اور یہ دی ہوئی چیز کااستعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن و سنت کی روشنی میں جواب تصیل کے ساتھ دیجئے۔

جواب: (۱) لڑکی والوں کا لڑکے یا اس کے گھر والوں سے مہر کے علاوہ نقد رقم یا کسی اور چیز کا لینا رشوت ہے جو کہ حرام ہے، اگر لے لیا ہے تو اس کی واپسی ضروری ہے، نیز اس رقم سے جو کھانا تیار کیا جائے گا اس کا کھانا بھی جائز نہیں۔

(۲) لڑکی کے ساتھ خصوصی طور پر بھیجے جانے والے آدمی کا لڑکے والوں سے نقد رقم یا کسی چیز کا مطالبہ کرنا درست نہیں، یہ بھی رشوت ہے، اگر لے لیا ہے تو استعمال میں لانا جائز نہیں، اس کی بھی واپسی ضروری ہے۔

سوال: محترم قبلہ مفتی صاحب ایک مسئلہ کے سلسلے میں آپ کو زحمت دے رہا ہوں، جواب عنایت فرمادیں، اﷲ آپ کو جزاءعطا فرمائے۔ زید کے پاس ایک دوکان ہے جس کو وہ کرایہ پر دینا چاہتا ہے۔ کیا منی چینجر (Money Changer) کو کرایہ پر دی جاسکتی ہے۔ منی چینجر کے کام میں غالباً کچھ کام غیر قانونی اور غیر شرعی بھی ہوتے ہیں جیسے Moneyواہیٹ کرنا اور ہنڈی وغیرہ۔ لیکن وہ ان کاموں کا کھل کر اظہار نہیں کرتے اور دوکان کرایہ پر لیتے وقت یہی کہتے ہیں کہ ہم تو غیر ملکی کرنسی کا لین دین کرتے ہیں۔ برائے مہربانی وضاحت فرمادیں۔

جواب: صورت مسﺅلہ میں زید کا اپنی دکان کرایہ پر منی چینجر کو دینا جائز ہے البتہ دکان کا کرایہ پہ لینے والا اگر کوئی غیر شرعی یا غیر قانونی کام کرتا ہے تو اس کے گناہ کا وہ خود ذمہ دار ہوگا۔

……………………….

اہم وضاحت: ماہنامہ الابرار کے گذشتہ شمارے میں درج ذیل مسئلہ کمپوزنگ کی غلطی کی وجہ سے صحیح نہیں چھپا تھا، اس ماہ تصحیح کے بعد اسے مکرر شائع کیا جارہا ہے، قارئین کرام تصحیح فرمالیں۔

سوال: کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں اسماعیلی (آغا خانی) فرقہ آباد ہے جو اپنے کو سچا مومن کہتے ہیں اور اپنے روحانی پیشوا آغا خان کو ناطق قرآن یعنی بولتا ہوا قرآن کہتے ہیں اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سمیت اپنے تمام آئمہ کے الہٰیت کے قائل ہیں اپنے امام حاضر کو حاضر و ناظر ہونے کا عقیدہ بھی رکھتے ہیں اور امام ہی کو قضاءالحاجات مانتے ہیں، ان عقائد کے علاوہ اور بھی دیگر عقائد و نظریات ان کے مختلف کتابوں میں مذکور ہیں: اب مندرجہ ذیل چند امور کی وضاحت طلب ہے:

(۱) ہمارے علاقے میں بعض سنی مسلمان ان کے ساتھ ازدواجی رشتے رکھتے ہیں ان کی لڑکیاں سنی مسلمانوں کے نکاح میں ہیں اور مسلمان عورتیں ان آغا خانیوں کے پاس ہیں، اب ان کے بارے میں قرآن و سنت کا کیا حکم ہے؟ نیز اب کیا کرنا چاہیے۔(۲) آغا خانیوں کے ہاتھ کے ذبیحہ کیا ہوا حلال ہے یا حرام؟ (۳) کیا سنی مسلمان اپنی زکوٰة واجبہ آغا خانیوں کو دے سکتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں تفصیلی وضاحت فرمائیں۔

جواب: آغا خانی فرقہ اپنے باطل عقائد کی بناءپر خارج از اسلام ہے ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا برتاﺅ کرنا جائز نہیں۔ مسلمان مردوں کو آغا خانی عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کو آغا خانی مردوں سے نکاح کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ اور ایسا نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا ، لہٰذا مسﺅلہ صورت میں مسلمان مرد کا اپنی آغا خانی بیوی سے اور مسلمان عورت کا اپنے آغا خانی شوہر سے فوراً علیحدگی اختیار کرنا لازم ہے ورنہ سخت گنہگار ہوںگے اور اب تک جو مسلمان مرد اپنی آغا خانی بیوی کے ساتھ اور جو مسلمان عورت اپنے آغا خانی شوہر کے ساتھ رہتے رہے ہیں اس پر اﷲ تعالیٰ سے صدق دل کے ساتھ توبہ ضروری ہے۔ (ماخذ جواہر الفقہ ۰۷ ۱) البتہ ایسے جوڑے سے پیدا ہونے والی اولاد ثابت النسب شمار ہوگی ان کو حرامی کہنا جائز نہیں۔

(۲)آغا خانیوں کے ہاتھ کا ذبیحہ حلال نہیں۔

(۳)آغا خانیوں کو زکوٰة واجبہ دینا جائز نہیں۔
Flag Counter