ضائع کر دیا جائے۔
اگر قوم کا شعور زندہ اور بیدار، اور اس کی قیادت مستحکم اور پائیدار ہوتی تو حق تو یہ تھا کہ تمام مسلمان اس مرتبہ اجتماعی فیصلہ کرلیتے کہ وہ ساری رقم جو وہ ان تقریبات پر خرچ کرتے ہیں ، دینی تعلیم کے مسئلہ کے حل کے لیے دے دیں گے، اور جب تک یہ مسئلہ حل نہ ہوگا، چین سے نہ بیٹھیں گے۔
سیر ت کی تقریب بہت مبارک، اور ذکر رسول ﷺ کی نورانیت و برکت میں کلام کس کو ہوسکتا ہے، لیکن کیا یہ صر ف ہمارے ہی لیے ضروری ہے، ہمارے بچوں کے لیے نہیں جو مشرکانہ تعلیم حاصل کرکے اب نبیوں کو اَوتار کہنے لگے ہیں ؟کیا یہ کافی ہے کہ سال بھر میں کچھ دن جشن منا کر ہم اطمینان سے سوجائیں ، اور اپنے کان اور دل و دماغ کی کھڑکی ہی بند کرلیں ؟ اگر ہماری نئی نسل جس پر ملت اسلامی ہند کے پورے مستقبل کا دارومدار ہے، اپنے رسول ﷺ کی سیرت اور تعلیمات سے بیگانہ ہوجاتی ہے، تو یہ سیرت کے ایمان افروز جلسے اور ولولہ انگیز تقریریں اور یہ جشن و چراغاں آخر کس منطق، دانش مندی اور فہم و فراست کی رو سے جائز، اور قوانین اشیاء کے کس قانون کے تحت درست ہوگا؟ اگر یہ مسئلہ کروڑوں روپے خرچ کرکے اور ہزاروں لاکھوں کارکنوں اور طویل اور