Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء

ہ رسالہ

3 - 11
عالم اسلام کےنامورادیب طہ حسین تنقیدی جا ئزہ
عالم عرب کے نامور ادیب طہٰ حسین ایک تنقیدی جائزہ (۲)

طہ حسین کے چند مخالف اسلام نظریات
پہلے ان کے ملحدانہ اور زندیقانہ افکار درج کئے جاتے ہیں اور پھر تصفیہ اور فیصلہ کیا جائے گا کہ ان افکار کا نتیجہ اور اس ساری مبحث کا خلاصہ کیا ہے۔ ۱- الشعر الجاہلی: کے صفحہ نمبر ۲۶ پر موصوف لکھتے ہیں: ”توریت اور قرآن ہردو کتابیں ہم کو حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام کے متعلق خبر دیتی ہیں لیکن ان دونوں ناموں کا توریت اور قرآن میں وارد ہونا تاریخی اعتبار سے ان دونوں شخصیات کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں، چہ جائیکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مکہ مکرمہ کی طرف ہجرت کا قصہ ثابت ہو، جو ہمیں یہ دونوں کتابیں سناتی ہیں۔“ کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں”چنانچہ ہم اس قصہ (یعنی قصہ ہجرت اسماعیل علیہ السلام کو ایک حیلہ مانیں گے جس کو ایک طرف تو یہودیوں اور اہل عرب میں رشتہ داری ثابت کرنے کے واسطے اور دوسری طرف مذہب اسلام اور یہودیت ،اسی طرح قرآن وتوریت میں باہم یکسانیت اور ہم آہنگی ثابت کرنے کے واسطے استعمال کیا گیا ہے۔“ معاذ اللہ! ایک طرف قرآن کی قطعیت بلکہ اس کے مستند ومعتبر ہونے کا انکار اور دوسری طرف یہ بہتان طرازی کہ قرآن نے حضرت ابراہیم واسماعیل علیہماالسلام کے قصوں کو محض اس خاطر گڑھا ہے تاکہ یہودی حمیت وتعصب میں آکر ان کی طرف راغب ہو جائیں اور اس کو دین حق مان کر قبول کرلیں۔ ۲- اسی کتاب کے صفحہ نمبر ۳۳ پر تحریر کرتے ہیں: ”قرآن کریم جس لغت اور لہجہ پر پڑھاجاتا تھا وہ قریش کی لغت اور ان کا لہجہ تھا‘ جس کو عرب کے دیگر قبائل قرآن پڑھنے کے لئے اپنا نہیں سکتے تھے ،اسی بناء پر قراء توں میں اختلاف ہوا اور متعدد لہجوں میں قرآن پڑھا جانے لگا‘ جن میں بہت فرق تھا“۔ مذکورہ بالا اقتباس واضح کرتاہے کہ موصوف اس بات کے قائل نہ تھے کہ قراء ت سبعہ نبی کریم ا سے بالتواتر منقول ہیں‘ بلکہ قراء ات سبعہ مختلف قبائل کی اختراعات ہیں، جب کہ مسلم ومعتبر عقیدہ اہل سنت والجماعت ہے کہ یہ تمام قراء ات متواتر ہیں اور رسول اللہ اپر بذریعہ وحی یہ تمام قراء ات نازل ہوئیں ،چنانچہ ان کے آپ ا سے منقول ہونے میں کسی قسم کا تردد وشک اور انکار، وحی کے انکار کو لازم ہے ،اور وحی کا منکر باتفاق اہل سنت والجماعت کافر ہے۔ ۳- دین اسلام کے بارے میں خداوند تعالیٰ کا واضح اعلان ہے کہ دین اسلام بھی اسی بات کا داعی ہے جس بات کے داعی گذشتہ انبیاء پر نازل شدہ ادیان تھے اور عقائد اولیہ میں تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی ہے اور تمام امم واقوام مسلمہ سابقہ ان عقائد میں یکساں اور ہم آہنگ ہیں اور شرائع کا اختلاف کچھ معتد بہ نہیں، کیونکہ وہ بھی ایک ہی ذات کے فرامین واحکام ہیں جس کو وہ ذات چاہے جیسے احکام دیدے ،اساس اور مبنی تمام شرائع کا ایک ہی ہے جب کہ موصوف خدا کے اس واضح اعلان کو اپنی پر فریب عبارت میں یوں رد کرتے ہوئے صفحہ: ۸۱ پر رقمطراز ہیں: ”مسلمان یہ چاہتے تھے کہ بلاد عرب میں اسلام کی اولیت وقدامت بعثت نبوی سے قبل بھی ثابت کردیں اور یہ بات ثابت کردیں کہ دین اسلام کا خلاصہ وما حاصل بعینہ وہی ہے جو گذشتہ انبیاء پر خداوند تعالیٰ کی طرف سے وحی کردہ دین حق کا خلاصہ ہے“۔ اس شیریں اور پر کشش عبارت میں کیا ہی خطرناک زہر گھول دیا گیا ہے یعنی مسلمانوں نے یہ قرآن آپ گڑھ لیا ہے اور مسلمان کیا کہئے؟ معاذ اللہ! طہٰ حسین یہی کہنا چاہ رہے ہیں کہ یہ قرآن حضور اکا اپنا بنایا ہوا ہے۔ (العباذ ثم العیاذ) ۴- صحابہ کرام کے بارے میں موصوف کی رائے کا مطالعہ خالی الذہن ہوکر کیا جائے تو یہی نتیجہ برآمد ہوگا کہ اس قسم کی رائے رکھنے والا تشیع کے ناپاک اثرات سے ملوث اور متاثر ہے، بعض صحابہ پر ایسی تنقید کہ خدا کی پناہ! مذکورہ بالا کتاب ہی کہ صفحہ: ۵۱ پر تحریر فرماتے ہیں کہ: ”فتح مکہ کے موقعہ پر ابو سفیان  کے سامنے دو چیزیں تھیں‘ یا تو مقابلہ جاری رکھیں ،تاکہ مکہ مکرمہ تباہ ہوجائے یا پھر بتکلف نباہتے ہوئے صلح کرلی جائے اور لوگ جس دین میں داخل ہو رہے ہیں ،داخل ہولیا جائے اور پھر انتظار کرے کہ یہ سیاسی بادشاہ (مراد حضور ا ہیں) جو مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ اور قریش سے انصار کی طرف منتقل ہوا تھا ،دوبارہ قریش اور مکہ مکرمہ کی طرف لوٹ آوے ،انہوں نے (ابوسفیان) انصار وقریش کے مابین اس بھڑکتی آگ پر راکھ ڈالدی اور سب لوگ بظاہر دینی بھائی اور آپس میں محبت کرنے والے ہوگئے۔“ (ازاں بعد صفحہ ۵۵ پر لکھتے ہیں کہ) ”یزید اپنی اسلام دشمنی اور جو طرز وطریقہ اس نے لوگوں کے ساتھ روا رکھا اپنے دادا (یعنی حضرت ابو سفیان) کی سچی تصویر تھا (اسی صفحہ ۵۵ کے شروع میں یوں لکھا ہے کہ) ”ابوسفیان کے اس پوتے یزید بن معاویہ نے غزوہٴ بدر کا انتقام واقعہٴ حرہ کے ذریعے لیا“۔ حضرت ابوسفیان پر اس قسم کی فحش طعن طرازی اور دشنام گوئی کوئی رافضی شیعہ تو کر سکتا ہے مسلمان نہیں۔ ۵- ”ایام مع طہ جسین: جو موصوف کے اخیر عمر کے پرائیویٹ سیکرٹری ”الدکتور محمد الدسوقی“ کے کچھ مذکرات (ڈائریوں) کا مجموعہ ہے، میں ۱۱-۲-۱۹۶۸ء کی ڈائری جو صفحہ: ۵۶ پر ہے ،طہ حسین کی حضرت ابن عباس کے متعلق رائے لکھتے ہیں کہ: ”میں (طہ حسین) ابن عباس کی روایت کو قبول نہیں کرتا ،ڈاکٹر کامل نے کہا وہ کیوں ؟ تو کہنے لگے کہ: حضرت ابن عباس مسلمانوں کے مال کے بارے میں امانتدار نہ تھے، امام علی نے جب ان کو کسی شہر کا متولی بنایا تو سوائے مسلمانوں کے مال بٹورنے کے اس شہر میں کچھ کام نہ تھا اور پھر حجاز بھاگ آئے اور جب حضرت علی نے اس مال کے واپس لوٹانے کا کہا تو ابن عباس  نے امام علی کو حضرت معاویہ کے ساتھ مل جانے کی دھمکی دی، اگر امام علی (مال کی واپسی کے مطالبے سے) باز نہ آئے، بنا بریں میں ان کی روایات کو اور ان سے مروی شدہ اقوال وآراء کو قبول نہیں کرتا۔“ ایک سادہ لوح مسلمان بھی اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا کہ جس ہستی اور جس عمدہ شخصیت کو رسول خدا ا ترجمان القرآن فرماتے ہوں اس کو خائن کہا جائے اور اس کی ذاتیات میں طرح طرح کے جھوٹے الزامات تراشے جائیں۔ ۶- اسی کتاب ”ایام مع طہ حسین“ سے ایک خالص غیر اسلامی نظریہ مقتبس کیا جاتا ہے‘ جس سے استشراقیت اورلادینیت کی بو آتی ہے، صفحہ: ۱۴۲ ملاحظہ ہو ”:موصوف نے کہا کہ: قرآنی آیت یوں کہتی ہے کہ:
”ان الذین آمنوا والذین ہادوا والنصاری والصابئین من اٰمن باللہ والیوم الآخر وعمل صالحاً فلہم اجرہم عند ربہم ولاخوف علیہم ولاہم یحزنون“۔
ترجمہ:․․․․”جو لوگ مسلمان ہیں یا یہودی یا عیسائی یا ستارہ پرست جو خدا اور روز قیامت پر ایمان لائے گا اور عمل نیک کرے گا تو ایسے لوگوں کو ان کا صلہ خدا کے ہاں ملے گا اور ان کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے“۔ ”جس سے صراحةً معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان‘ عیسائی‘ صابی جو کوئی نیک عمل کرے گا اس کو اللہ جل شانہ کے ہاں بدلہ ملے گا اور یہ کچھ ضروری نہیں کہ نصرانی حضرت محمد ا پر ایمان لاکر ہی مسلمان بنیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ حضور ااور قرآن کا برائی کے ساتھ تذکرہ نہ کرے۔“ یعنی گویاکہ اسلام لانے کی چنداں ضرورت نہیں بلکہ بدون اسلام لائے بھی انسان جنت میں جاسکتا ہے، یہ رائے صریح نصوص کے خلاف اور مستشرقانہ فکر کی عکاس ہے ،جب کہ اسلامی مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ بعثت نبوی کے بعد ایمان اسی شخص کا معتبر ومقبول ہوگا جو حضور ا کی نبوت کا معترف ومعتمد ہو ،اور آپ کی تعلیمات کو بصدق دل تسلیم کرتا ہو، وگرنہ نجات وجنت کچھ حاصل نہ ہوگی۔یہ تو موصوف کے افکار کاکچھ نمونہ ہے جو خالص ملحدانہ فکر کی پیداوار ہیں، دیگر کئی افکار نے موصوف کی ادبیت کو اپنی ناپاکی سے متاثر کیا ہے ،ان تمام افکار کو طوالت کے خوف سے ترک کیا جاتا ہے ۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو تحت رایة القرآن تالیف مصطفی صادق الرافعی) خلاصہٴ مبحث: مذکورہ بالا افکار کے پیش نظر معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر طہ حسین کا دینی نظریہ نظریہ اہل سنت والجماعت کے صریح مخالف ومقابل ہے، جدت پسندی اور روشن خیالی کے نشے میں مخمور ہوکر طہ حسین نے قدامت پرستی سے بیزاری اور اس کی بے لاگ تنقید کرتے ہوئے الحاد وزندقہ کی باتیں کہہ ڈالی ہیں، کہیں رجم کے منسوخ ہونے کو ثابت کرنے پر مصر ہیں۔ (ایام مع طہ حسین صفحہ ۲۴) اور کہیں معراج کا انکار کررہے ہیں (ایام مع طہ حسین صفحہ ۱۱۹) چنانچہ دینی نظریات وافکار کی فاش غلطی نے ان کے ادبی مقام کو بھی گزند پہنچائی اور مارکیٹ میں ان کی کتابوں کی مانگ میں خاطر خواہ کمی آگئی۔ بعض لوگ مصر ہیں کہ موصوف آخری عمر میں اپنے مارکسی نظریات اور لادینی افکار سے رجوع کرچکے تھے لیکن یہ ایک بے سند اور بے بنیاد بات ہے اور ”علی ہامش السیرة“ اور ”مراٰة الاسلام“ کی تالیف کو ان کے رجوع کی دلیل ٹھہرانا صحیح نہیں، کیونکہ اول الذکر کا سن اشاعت ۱۹۴۱ء یا پھر ۱۹۴۳ء اور ثانی الذکر کا ۱۹۶۱ء ہے اور مذکورہ بالا افکار جو ابھی ذکر کئے گئے ان میں سب سے آخری نظریہ جو خاص لادینی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے، اس پر محمد الدسوقی نے ”الجمعة ۱۸-۱۲-۱۹۷۰ کی تاریخ درج کی ہے ،جس سے واضح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ موصوف کے افکار کی کلیة تصویب وتائید کرنا سلب ایمان کے خطرہ سے خالی نہیں۔ تتمہٴ کلام:زیر نظر مضمون تسوید وتکمیل کے آخری مراحل میں تھا کہ ایک مشہور معاصر ”عربی سہ ماہی مجلہ“ میں زیر بحث شخصیت طہ حسین کے متعلق مضمون شائع ہونے کی اطلاع ہوئی یہ مضمون ڈاکٹر محمد اسحاق صاحب کا تحریر کردہ تھا، اس کا عنوان تھا ”طہ حسین“ حیاتہ ․․․․ ومنہاجہ الفکری والادبی“ اس مضمون کی جب کچھ تحقیقی اور کچھ فکری اغلاط سامنے آئیں تو زیر نظر سطور ناقص محسوس ہونے لگیں اور تقاضا ہوا کہ ان اغلاط کی نشاندہی کو بعنوان تتمہ وضمیمہ مضمون کا جزء بنالیا جائے، تاکہ ہمارا موضوع تشنہٴ تکمیل نہ رہ جائے ،چنانچہ اغلاط کی نشاندہی ذیل میں درج کی جاتی ہے۔ ۱- ڈاکٹر اسحاق صاحب لکھتے ہیں:
”وقد ذکر طہ حسین فی ردایتہ الذاتیة ”الایام“ بانہ مرض حینما کان فی السنة الثالثة من عمرہ“۔
ترجمہ:․․․”طہ حسین نے اپنی خود نوشت سوانح میں یہ بات ذکر کی ہے کہ ان کو یہ مرض (سوزش چشم) تین سال کی عمر میں لاحق ہوا تھا“۔ بصد افسوس! کہ تحقیق میں اس قدر تقصیر اور کوتاہی سے مضمون علمی طور پر بہت معیوب ہوگیا ہے، طہ حسین کو آنکھوں کی سوزش کتنی عمر میں ہوئی ،اس میں اختلاف واقع ہوا ہے، کچھ نے تین سال کی عمر میں لکھا ہے اور کسی نے چھ سال کی عمر بتلائی ہے‘ جبکہ ڈاکٹر محترم نے جو حوالہ الایام کا دیا ہے تو اس کو ان کی تحقیق کی کوتاہی پر یا پھر محض کسی روایت پر اعتماد کرنے پر محمول کیجئے ،بہرحال ”الایام“ میں یہ بات مذکور نہیں ہے۔ ۲- اسی طرح ڈاکٹر محترم لکھتے ہیں:
”فاخذہ اہلہ الی معالج فی القریة ففقد البصارة ولکن اللہ تبارک وتعالیٰ کافاہ بذکاء خاص انہ استظہر القرآن اولا الخ“۔
ترجمہ:․․․(”آنکھوں کی تکلیف کا جب مرض موصوف کو لاحق ہوا تو) موصوف کے گھروالے گاؤں کی کسی معالج کے پاس لے گئے‘ سو موصوف بینائی کھو بیٹھے لیکن اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس کے بدلے ان کو خاص ذہانت وذکاوت سے سرفراز فرمایا جس کی بنا پر پہلے پہل قرآن حفظ کرلیا الخ“۔ اس عبارت کو ذرا منطقی طرز پر سمجھئے تو موصوف نے اس عبارت میں ایک دعویٰ کیا ،پھر اس کی دلیل دی ہے اور قاعدہ یہ ہے کہ دلیل کا ابطال دعوے کے ابطال کو موجب ہوتا ہے، چنانچہ جب موصوف نے دعویٰ کیا کہ طہ حسین کو خداوند تعالیٰ نے بینائی کے بدلے ذہانت وذکاوت خاص سے نوازا تھا، اس ذہانت کی دلیل یہ تھی کہ موصوف نے قرآن حفظ کرلیا، لیکن یہ دلیل درست نہیں ،اس لئے کہ موصوف قرآن کو حفظ نہ رکھ سکے، بلکہ بھول گئے تھے جب قرآن پاک حفظ نہ کرسکے تو پھر کیسی ذہانت اور کیسی ذکاوت۔چنانچہ اس عبارت میں کجی اور خلل واقع ہوا جس کا اثر مضمون پر یہ ہوا کہ تحقیقی اعتبار سے ایک اور داغ مضمون کو بدنما کرگیا۔ ۳- ڈاکٹر صاحب کے اس تبصرہ پر ذرا غور کیا جائے تو موصوف طہ حسین کے ثناء خوان اور مداح معلوم ہوتے ہیں۔ اسی لئے ․․فی الشعر الجاہلی“ جو طہ حسین کی انتہائی مشہور اور متنازع فیہ کتاب ہے، اس کے بارے میں عقدہ کشائی سے موصوف نے پہلو تہی کی ہے اور کہا ہے کہ جو طریقہ کار طہ حسین نے اس کتاب میں اپنایا ،اس پر تنقید بعد میں کی جائے گی جبکہ طہ حسین کی کتاب زندگی کا ایک بہت بڑا باب، اسی کتاب سے متعلق ہے جس کی تفصیل میں ڈاکٹر صاحب کوتاہی کرگئے ہیں اور اپنے تبصرہ کے آخر میں انتہائی خوش اعتقادی سے تحریر کرتے ہیں:
”ان طہ حسین عاش اعمی العین ولکنہ کان بصیراً بالقلب“۔
ترجمہ:․․․”طہ حسین نے آنکھوں سے تو نابینا ہوکر زندگی گذاری، لیکن قلبی بصیرت ان کو حاصل تھی“۔ اس عبارت سے زیادہ تعجب خیز اور حیرت انگیز اور اس رائے سے زیادہ بڑی غلطی راقم السطور کے خیال میں اس پورے تبصرہ میں نہ ہوگی اور دراصل اس تتمہ وضمیمہ لکھنے کا اصل محرک یہی جملہ تھا جس کے ڈاکٹر صاحب تہہ دل سے معتقد ہیں، اب اگر ذرا طہ حسین کے مخالف اسلام نظریات کو ملحوظ رکھا جائے اور ان کی شیریں عبارات میں گھلے زہر آلود نظریات کو بنظر غائر دیکھا جائے ،پھر ان کی قلبی بصیرت کو داد دیجائے، ایک انتہائی فحش غلطی ہے، ان نظریات کے حامل کو قلبی بصیرت کی سند دینا گویا اس کے افکار ونظریات سے اتفاق کرنا ہے ،ان کی ”فی الشعر الجاہلی“ کتاب کو سامنے رکھتے ہوئے تو ان کو ”فاقد البصارة والبصیرة“ کہنا زیادہ زیب معلوم ہوتا ہے۔ بہرحال اس تبصرہ میں ”طہ حسین“ کے ادبی پہلو کو تو خوب بلند الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے، لیکن بتقضائے عنوان جو دوسری بات یعنی فکری پہلو جس کی تفصیل مبصر پر لازمی تھی، چھوڑ دی گئی ہے، جس سے یہ تبصرہ تحقیقی وعلمی طرز پر نظرثانی کا محتاج ہے۔ ------------------

مضمون بالا میں درج ذیل کتب سے استفادہ کیا گیا۔
۱- الایام طہ حسین ناشر: مطابع الاہرام التجدیة فلیوب مصر۔ ۲- ایام مع طہ حسین الدکتور محمد الدسوقی دار القلم دمشق ۱۴۲۳-۲۰۰۲۔ ۳- تحت رایة القرآن مصطفی صادق الرافعی المکتبة العصریة بیروت ۱۴۲۲- ۲۰۰۱۔ ۴- علوم العربیة پروفیسر محمد کبیر احمد مظہر ادبستان -۸- بینک اسکوائر دی مال لاہور ۱۹۹۸۔ ۵- تحقیقات وتاثرات ڈاکٹر سیدرضوان علی ندوی ادارہ علم وفن ۱۴۲۰ھ-۲۰۰۰ء۔ ۶- اردو دائر معارف اسلامیہ۔ ۷- الشیخان طہ حسین دار المعارف ۱۱۱۹ کورنیش النیل۔ القاہرة۔ ۸- جادہ ومنزل ترجمہ معالم فی الطریق (سید قطب شہید) مترجم: خلیل احمد حامدی اسلامک پبلکیشنز لمیٹڈ ۱۳- ای شاہ عالم مارکیٹ لاہور۔
اشاعت ۲۰۰۸ ماہنامہ بینات , صفر۱۴۲۹ہ فروری۲۰۰۸ء, جلد 71, شمارہ 2

    پچھلا مضمون: آپریشن کے ذریعے جنس کی تبدیلی اوراس کاحکم
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter