۷… ’’مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی بڑی بیوی مولویانی کسی کام کی غرض سے حضرت صاحب کے پاس آئیں۔ حضرت صاحب نے ان سے فرمایا کہ میں ایک نظم لکھ رہا ہوں۔ جس میں یہ یہ قافیہ ہے۔ آپ بھی کوئی قافیہ بتائیں۔ مولویانی مرحومہ نے کہا ہمیں کسی نے پڑھایا ہی نہیں۔ فرمایا کہ آپ نے بتا تو دیا ہے۔ (پڑھا) چنانچہ آپ نے اس وقت ایک شعر میں اس قافیہ کو استعمال کر لیا۔‘‘ (سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۴۳، روایت نمبر۸۴۶)
غیرمحرم عورت کا مراق اپنی خدمت کراکر دور کر دیا
۸… ’’ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ میری لڑکی زینب بیگم نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ جب حضور سیالکوٹ تشریف لے گئے تھے تو میں رعیہ سے ان کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ ان ایام میں مجھے مراق کا سخت دورہ تھا۔ میں شرم کے مارے آپ سے عرض نہیں کر سکتی تھی۔ میں حضور کی خدمت کر رہی تھی کہ حضور نے خود معلوم کر کے فرمایا کہ زینب تجھ کو مراق کی بیماری ہے۔ ہم دعا کریں گے۔ کچھ ورزش کیا کرو اور پیدل چلا کرو۔ میں اپنے مکان پر جانے کے لئے جو حضور کے مکان سے ایک میل دور تھا۔ ٹانگے کی تلاش کی۔ مگر نہ ملا۔ اس لئے مجبوراً مجھے پیدل جانا پڑا۔ مجھ کو یہ پیدل چلنا سخت مصیبت اور ہلاکت معلوم ہوتی تھی۔ مگر خدا کی قدرت جوں جوں میں پیدل چلتی تھی۔ آرام معلوم ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ دوسرے روز میں پیدل چل کر حضور کی زیارت کو آئی تو دورہ مراق کا جاتا رہا اور بالکل آرام ہوگیا۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۷۵،۲۷۶، روایت نمبر۹۱۷)
غیرمحرم عورت سے تین ماہ خدمت کرواکر اس کا دل خوشی اور سرور سے بھر دیا
۹… ’’ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے بذریعہ تحریر مجھ سے بیان کیا کہ مجھ سے میری لڑکی زینب بیگم نے بیان کیا کہ میں تین ماہ کے قریب حضرت اقدس کی خدمت میں رہی ہوں۔ گرمیوں میں پنکھا وغیرہ اور اسی طرح کی خدمت کرتی تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ نصف رات یا اس سے زیادہ خدمت کرتے گذر جاتی تھی۔ مجھ کو اس اثناء میں کسی قسم کی تھکان وتکلیف محسوس نہیں ہوتی تھی۔ بلکہ خوشی سے دل بھر جاتا تھا۔ ایک دو دفعہ ایسا موقعہ آیا کہ عشاء کی نماز سے صبح کی اذان تک مجھے ساری ساری رات خدمت کا موقعہ ملا۔ پھر بھی اس حالت میں مجھ کو نہ نیند نہ غنودگی اور نہ تھکان معلوم ہوتی تھی۔ بلکہ خوشی اور سرور پیدا ہوتا تھا۔‘‘
(سیرۃ المہدی حصہ سوم ص۲۷۲، ۲۷۳، روایت نمبر۹۱۰)
غیرمحرم لڑکیوں کو گھر میں رکھ کر ان کی شادی کا بندوبست کرتے تھے
۱۰… ’’بیان کیا مجھ سے میاں عبداﷲ سنوری نے کہ جب میاں ظفر احمد کپور تھلوی کی پہلی بیوی فوت ہوگئی اور ان کو دوسری بیوی کی تلاش ہوئی تو ایک دفعہ حضرت صاحب نے ان سے کہا کہ ہمارے گھر میں دو لڑکیاں رہتی ہیں۔ ان کو میں لاتا ہوں۔ آپ ان کو دیکھ لیں۔ پھر ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس سے آپ کی شادی کرادی جاوے۔ چنانچہ حضرت صاحب گئے اور ان دولڑکیوں کو بلا کر کمرہ کے باہر کھڑا کر دیا اور پھر اندر آکر کہا وہ باہر کھڑی ہیں۔ آپ چک کے اندر سے دیکھ لیں۔ چنانچہ میاں ظفر احمد صاحب نے ان کو دیکھ لیا اور پھر حضرت صاحب نے ان کو رخصت کر دیا اور اس کے بعد میاں ظفر احمد صاحب سے پوچھنے لگے کہ اب بتاؤ تمہیں کون سی لڑکی پسند ہے۔ وہ نام تو کسی کا جانتے نہیں تھے۔ اس لئے انہوں نے کہا کہ جس کا منہ لمبا ہے وہ اچھی ہے۔ اس کے