Deobandi Books

معلومات ختم نبوت (سوالا جوابا) ۔ غیر موافق للمطبوع - یونیکوڈ

3 - 104
خدمت میں حاضری کا موقع نہیں ملا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے آخری دور میں یمن میں نبوت کا جھوٹا دعویدار اسود عنسی پیدا ہوا۔ جو لوگوں کو اپنی جھوٹی نبوت پر ایمان لانے کے لئے مجبور کیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے حضرت ابو مسلم خولانیؓ کو پیغام بھیج کر اپنے پاس بلایا اور اپنی نبوت پر ایمان لانے کی دعوت دی، حضرت ابو مسلمؓ نے انکار کیا پھر اس نے پوچھا کہ کیا تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان رکھتے ہو؟ حضرت ابو مسلم نے فرمایا ہاں، اس پر اسود عنسی نے ایک خوفناک آگ دہکائی اور حضرت ابو مسلم ؓ کو اس آگ میں ڈال دیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آگ کو بے اثر فرمادیا، اور وہ اس سے صحیح سلامت نکل آئے۔ یہ واقعہ اتنا عجیب تھا کہ اسود عنسی اور اس کے رفقأ پر ہیبت سی طاری ہوگئی اور اسود کے ساتھیوں نے اسے مشورہ دیا کہ ان کو جلاوطن کردو، ورنہ خطرہ ہے کہ ان کی وجہ سے تمہارے پیروئوں کے ایمان میں تزلزل نہ آجائے، چنانچہ انہیں یمن سے جلاوطن کردیا گیا۔ یمن سے نکل کر ایک ہی جائے پناہ تھی، یعنی مدینہ منورہ، چنانچہ یہ سرکاردو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے چلے، لیکن جب مدینہ منورہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آفتاب رسالتؐ روپوش ہوچکا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وصال فرماچکے تھے، اور حضرت صدیق اکبرؓ خلیفہ بن چکے تھے، انہوں نے اپنی اونٹنی مسجد نبویؐ کے دروازے کے پاس بٹھائی اور اندر آکر ایک ستون کے پیچھے نماز پڑھنی شروع کردی۔ وہاں حضرت عمرؓ موجود تھے ۔ انہوں نے ایک اجنبی مسافر کو نماز پڑھتے دیکھا تو ان کے پاس آئے اور جب وہ نماز سے فارغ ہوگئے تو ان سے پوچھا: آپ کہاں سے آئے ہیں؟ یمن سے! حضرت ابو مسلمؓ نے جواب دیا۔ حضرت عمرؓ نے فوراً پوچھا: اللہ کے دشمن (اسود عنسی) نے ہمارے ایک دوست کو آگ میں ڈال دیا تھا، اور آگ نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا تھا، بعد میں ان صاحب کے ساتھ اسود نے کیا معاملہ کیا؟ حضرت ابو مسلمؓ نے فرمایا: ان کا نام عبداللہ بن ثوب ہے۔ اتنی دیر میں حضرت عمرؓ کی فراست اپنا کام کرچکی تھی، انہوں نے فوراً فرمایا: میں آپ کو قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ ہی وہ صاحب ہیں؟ حضرت ابو مسلم خولانیؓ نے جواب دیا: ’’جی ہاں!‘‘ حضرت عمرؓ نے یہ سن کر فرطِ مسرت و محبت سے ان کی پیشانی کو بوسہ دیا، اور انہیں لے کر حضرت صدیق اکبرؓ کی خدمت میں پہنچے، انہیں صدیق اکبرؓ کے اور اپنے درمیان بٹھایا اور فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے موت سے پہلے امت محمدیہؐ کے اس شخص کی زیارت کرادی جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جیسا معاملہ فرمایا تھا۔‘‘ (حلیۃ الاولیأ ص ۱۲۹، ج۲، تہذیب ج ۶ ص ۴۵۸، تاریخ ابن عساکر ص۳۱۵، ج۷، جہاں دیدہ ص ۲۹۳ و ترجمان السنۃ ص ۳۴۱ ج ۴)
منصب ختم نبوت کی خصوصیات:
قرآن مجید میں ذات باری تعالیٰ کے متعلق ’’رب العالمین‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کے لئے ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اور بیت اللہ شریف کے لئے ’’ھدی للعالمین‘‘ فرمایا گیا ہے، اس سے جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کی آفاقیت و عالمگیریت ثابت ہوتی ہے، وہاں آپؐ کے وصف ختم نبوت کا اختصاص بھی آپؐ کی ذات اقدس کے لئے ثابت ہوتا ہے، اس لئے کہ پہلے تمام انبیأ علیہم السلام اپنے اپنے علاقہ، مخصوص قوم اور مخصوص وقت کے لئے تشریف لائے، جب آپؐ تشریف لائے تو حق تعالیٰ نے کل کائنات کو آپ کی نبوت و رسالت کے لئے ایک اکائی (ون یونٹ) بنادیا۔
جس طرح کل کائنات کے لئے اللہ تعالیٰ ’’رب ‘‘ ہیں، اسی طرح کل کائنات کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’نبی‘‘ ہیں۔ یہ صرف اور صرف آپؐ کا اعزاز و اختصاص ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لئے جن چھ خصوصیات کا ذکر فرمایا ان میں سے ایک یہ بھی ہے:
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
Flag Counter